تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     09-07-2021

چینی سفر کے سو سال

کسی زمانے میں چین اور باقی دنیا کے درمیان آہنی پردہ حائل تھا مگر آج وہاں کی کمیونسٹ پارٹی کی مدتِ قیام کے ایک سو سال مکمل ہونے پر چینی صدر شی جن پنگ نے ساری دنیا کو شریک کرکے اپنے سو سالہ سفر کی کہانی سنائی۔ اس موقع پر چین نے ایک ورچوئل کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں دنیا بھر سے 500 سیاسی جماعتوں اور دس ہزار سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔ پاکستان سے بھی تقریباً سبھی بڑی جماعتوں کے سربراہان نے شرکت کی اور چین کی ترقی کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔
چین کے نظریاتی و سیاسی تشخص کے بارے میں نقطہ نظر کے کئی اختلافات موجود ہیں مگر ایک بات کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ چینی حکومت کی عوام دوست پالیسیوں کی بنا پر ہی کروڑہا لوگوں کو بدترین غربت سے نجات ملی ہے۔ آبادی کے ایک بڑے حصے کو علاج معالجے اور مفت تعلیم کی سہولتیں دستیاب ہیں۔ جب 1921ء میں چین میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت اس کے صرف پچاس تاسیسی ممبران تھے۔ آج چین میں کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کی تعداد ساڑھے نو کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ارکان کی اتنی بھاری تعداد کے باوجود ''کمیونسٹ پارٹی‘‘ کا وجود عملاً اب باقی نہیں۔ 1985ء تک دنیا کے ایک تہائی سے زیادہ ممالک میں کمیونسٹ یا سوشلسٹ جماعتوں کی حکمرانی تھی۔ اس وقت تک یہ تصور عام تھا کہ کمیونزم، سرمایہ داری کا ایک متبادل نظام ہے جو اس سے بہتر ہے۔ کمیونزم کا عام مفہوم یہ سمجھا جاتا تھا کہ ملک کے ذرائع پیداوار کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں نہیں ہوں گے۔ یہ پرولتاریہ یعنی عوام کی ملکیت ہوں گے۔ کہنے کو تو زر، زمین، سرمایہ، کارخانہ اور افرادی قوت عوام کی ملکیت قرار دیئے گئے تھے مگر عملاً کمیونسٹ پارٹی ہی سیاہ و سفید کی مالک تھی۔ وہی تمام پیداواری سرگرمیوں کو کنٹرول کرتی اور وہی افرادی قوت کو ان کی ''ضرورت‘‘ کے مطابق اجرت دیتی۔ کمیونزم میں اشیائے صرف تو کسی شخص کی ملکیت ہو سکتی ہیں مگر زمین اور سرمایہ جیسے پیداواری ذرائع کسی شخص کی ذاتی ملکیت کا حصہ نہیں بن سکتے۔ جب سرمایہ کار اور محنت کش کی کسی پیداواری عمل میں ذاتی دلچسپی نہیں ہو گی تو پھر وہ اس کام میں جان توڑ محنت کیسے کرے گا؟ نہ ہی ماہرین اپنی اعلیٰ مہارت کو دل و جان کے ساتھ استعمال میں لائیں گے۔ ذاتی ملکیت کے فطری قانون کو سمجھنے میں کمیونسٹ دنیا کو چھ سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ نہیں لگا۔
آج دنیا کے کسی ملک میں کمیونزم نہیں۔ بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف چار ممالک میں کمیونزم ہے: چین، لائوس، ویتنام اور کیوبا‘ مگر ان ممالک میں بھی عملاً آزاد مارکیٹ اکانومی کا راج ہے۔ کمیونزم میں کسی شخص کے ارب پتی ہونے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا مگر آج کی دلچسپ حقیقت آپ کو بتا دوں کہ دنیا کے ایک سو ارب پتی لوگوں میں سے 80 کا تعلق چین سے ہے۔ اب چین میں عام چینی صرف فلیٹ یا ولاز کا ہی نہیں، بڑے بڑے کارخانوں اور صنعتوں کا بھی مالک ہوتا ہے‘ تاہم چین کے نظام کی اچھی بات یہ ہے کہ ترقی کے اس سفر میں کوئی شخص بھوکا نہیں رہتا، کروڑوں لوگ غربت سے نکل کر خوشحال متوسط کلاس میں شامل ہوگئے ہیں اور ایلیٹ کلاس بھی کروڑوں پر مشتمل ہے۔ چین کے بڑے بڑے شہروں میں آسمان سے باتیں کرتی عمارات بھی افراد کی ذاتی ملکیت ہیں۔
آج دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ یہاں ہی بستا ہے۔ اس وقت چین کی آبادی ایک ارب 42 کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ اتنی بڑی آبادی تک رزق کی فراہمی جان جوکھوں کا کام ہے۔ چین یہی جان جوکھوں کا کام کر رہا ہے۔ چین جہاں آج کھڑا ہے وہاں وہ پلک جھپکتے نہیں پہنچ گیا۔ اس سو سالہ سفر میں بڑے کٹھن مقامات بھی آئے۔ اس طویل سفر کے دوران چین کو بارہا خوفناک خونریزی کا سامنا کرنا پڑا۔ خون کے ایک نہیں کئی دریائوں کو عبور کرنا پڑا۔ 1934ء سے 1936ء کے دوران لانگ مارچ بھی ہوا۔ اس مارچ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ خوراک نہ ملنے سے لقمۂ اجل بن گئے۔ اس کے بعد 1966ء کے کلچرل انقلاب کے موقع پر بھی لاکھوں ہلاک ہوئے۔ مائوزے تنگ کی ہدایات پر پارٹی کے اندر تطہیر کے عمل میں بہت بڑی تعداد کو جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
مائوزے تنگ کے بعد 1978ء میں ڈینگ زیائو پنگ چین کے اندر ایک بنیادی فکری تبدیلی لائے۔ یہ فکری تبدیلی اشتراکیت سے مارکیٹ اکانومی کی طرف ایک بڑی جست تھی۔ اب یہ فیصلہ ہواکہ ہر شخص اپنے سرمایے اور اپنی محنت سے جو کچھ کمائے گا وہ اسی کا ہوگا۔ وہ حکومت کو ایک معین ٹیکس تو دے گا مگر وہ اپنی آمدنی کا خود مالک و مختار ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی بیرونی سرمایہ کاری کو بھی خوش آمدید کہنے کا گرین سگنل دے دیا گیا۔ اس ''فکری انقلاب‘‘ کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے چین ترقی و خوشحالی کے سفر میں تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت ہی نہیں بلکہ بہت بڑی عسکری قوت بھی ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ چین نے ون بیلٹ ون روڈ کا آئیڈیا دیا اور پاکستان کو اکنامک کوریڈور کا تحفہ پیش کیا اور یہاں بہت بڑی سرمایہ کاری کی تو امریکہ نے اسے اپنی عالمگیریت (گلوبل ازم) میں مداخلت سمجھا اور اسے ایک حریفانہ کارروائی گردانا۔ چین اپنے اردگرد پھیلے ایشیائی علاقوں کی خوشحالی کیلئے ایسا کر رہا ہے تاکہ علاقے کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ مؤثر اقتصادی روابط قائم کرکے باہمی ترقی ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر سکیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے چند ہفتے قبل اپنے دورۂ برطانیہ کے موقع پر جی سیون ممالک کے سربراہان سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کا تدارک کریں۔ یہ کارروائی تو ایک طرح سے کولڈ وار کے دوبارہ آغاز کا اعلان ہے۔
صدر شی جن پنگ نے دنیا کی 500 سیاسی جماعتوں کے لیڈران سے خطاب کیا۔ پاکستان کی بہت سی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے قائدین نے اس ورچوئل کانفرنس میں شرکت کی۔ بعض تجزیہ کاروں نے ایک دلچسپ حقیقت کی نشاندہی کی کہ چینی صدر نے دنیا کے مختلف ممالک کی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے خطاب کیا مگر اُن کے اپنے ملک میں صرف ون پارٹی رُول ہے۔ وہاں حزبِ اختلاف کا کوئی تصور ہی نہیں۔ چین میں ''کمیونسٹ پارٹی‘‘ تو ہے مگر کمیونزم نہیں۔
میں نے چین کے ترقیاتی ماڈل کو قریب سے جاننے والے ایک دوست سے رابطہ کیا جو بارہ مرتبہ چین جا چکے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اُن کی ترقی کا راز کیا ہے؟ اُن کا جواب تھا: احساسِ ذمہ داری اور پِتّہ مار کر محنت۔ میرا دوسرا سوال تھا کہ کیا چین میں رشوت ناپید ہے؟ میرے دوست نے بتایا: نہیں ایسا نہیں، وہاں بھی تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح رشوت کا چلن ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے 2019ء میں ایک بڑی پتے کی بات کہی تھی جس کا مفہوم یوں تھا کہ دوستی مشترک اور نظریہ اپنا اپنا ہوتا ہے۔ انہوں نے علی الاعلان کہا کہ ہم اپنا نظام کسی پر مسلط نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن ہمارے سربراہ حکومت شعوری یا لاشعوری طور پر ''خود ملامتی‘‘ طرزعمل اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ جہاں جاتے ہیں وہاں اپنی قومی کمزوریوں کا پنڈورا باکس کھول لیتے ہیں۔ ہر ملک میں خوبیاں اور خامیاں دونوں پائی جاتی ہیں۔ ہر ملک کی طرح ہمیں بھی اپنا دستور ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے آپ کو ڈی گریڈ کرنے کارویہ یکسر ترک کرنا ہوگا۔ صدر شی جن پنگ کی بات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ دوستی مشترک اور نظریہ اپنا اپنا ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved