حکومت غائب‘ اتنے برے حالات کبھی نہیں دیکھے: شہباز
مسلم لیگ نون کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت غائب، اتنے بُرے حالات کبھی نہیں دیکھے‘‘ اس لیے حکومت کو پہلی فرصت میں حاضر ہونا چاہیے تا کہ حالات بہتری کی طرف آئیں، ہمارے دور میں برے حالات ملک میں پیسہ کم ہونے سے آئے تھے لیکن اب پیسے کی بھی کمی نہیں ہے اور حالات پھر بھی خراب ہیں اور حکومت کو کوئی فکر نہیں ہے کہ پیسہ ملک میں پڑے پڑے خراب ہو جائے گا‘ اسے باہر نکالنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور اس نیک کام کے لیے ایک بار پھر ہمیں موقع دے کر تو دیکھیں۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں عابد شیر علی کی اہلیہ کی وفات پر تعزیت کر رہے تھے۔
حکومت اقلیتی برادری کے حقوق پر پہرہ دے رہی ہے: فردوس
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''حکومت اقلیتی برادری کے حقوق پر پہرہ دے رہی ہے‘‘ اور اکثریتی برادری کے حقوق چونکہ ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں بھی تو برائے نام حد تک رہ گئے ہیں اس لیے ان پر پہرہ دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اور اگر ان کے حقوق کو کوئی خطرہ ہے تو یہ کام وہ خود کرے اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے کیونکہ محتاجی کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟ نیز وہ اپنے پہرے داروں کو جگا کر ر کھیں جو خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہے ہیں اور یہ لوگ خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے یا مکھیاں مارتے رہتے ہیں لیکن مکھیاں پھر بھی اسی زور و شور سے موجود ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
شہباز شریف کمر کی تکلیف کے باعث جلسے میں نہیں
ہوں گے، مریم نواز جائیں گی: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کمر کی تکلیف کے باعث جلسے میں نہیں ہونگے‘ مریم نواز جائیں گی‘‘ اور یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ جس روز مریم نواز نے جلسہ میں جانا ہو، شہباز شریف کی کمر میں تکلیف کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے حالانکہ انہوں نے جلسے میں جانے کے لیے کمر کس لی ہوتی ہے اور جس روز شہباز شریف کی باری ہو اس روز مریم نواز کی طبیعت نصیبِ دشمناں اچانک خراب ہو جاتی ہے؛ تاہم اس بات پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ دونوں کی طبیعت ایک ہی دن خراب نہیں ہوتی اور ان میں سے ایک جلسے میں شرکت کر لیتا ہے؛ البتہ دونوں جلسے میں ایک دوسرے کی کمی شدت سے محسوس کرتے ہیں‘ ویسے بھی مریم نواز کہہ چکی ہیں کہ جہاں شہباز شریف ہوں‘ وہاں ان کی ضرورت نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بلاول بھٹو کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔
میں نے اپوزیشن لیڈر بننے سے انکار کیا تھا
لیکن پارٹی نہیں مانی: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''میں نے اپوزیشن لیڈر بننے سے انکار کیا تھا، لیکن پارٹی نہیں مانی‘‘ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ میں وزیراعظم کی حیثیت سے ایک ماہر کے طور پر جو خدمات سر انجام دے چکا ہوں، اگر مجھے اپوزیشن لیڈر نہ بنایا گیا تو میں کہیں وہ ہنر بھول ہی نہ جائوں جبکہ عوام کو میری خدمات کی اشد ضرورت ہے؛ اگرچہ زرداری صاحب خود ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں لیکن جو فن میرے ہاتھ میں ہے وہ کسی کے ہاتھ میں نہیں، نیز مجھ پر جو اعتماد قائم ہو چکا ہے اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ میں اپنے فن کی پوری طرح سے حفاظت کروں۔ آپ اگلے روز برطانوی پورٹیل کو ایک خصوصی انٹرویو دے رہے تھے۔
ترقی کا رخ پسماندہ علاقوں کی طرف موڑ
دیا، ان کی قسمت بدل دوں گا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ترقی کا رخ پسماندہ علاقوں کی طرف موڑ دیا، ان کی قسمت بدل دوں گا‘‘ اور اگر ان کی قسمت مزید خراب ہو گئی تو حکومت اس کی ذمہ دار ہرگزنہیں ہو گی کیونکہ قسمت بدلنے کا کہا گیا ہے، بہتر کرنے کا نہیں، جبکہ قسمت کے فیصلے تو اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں؛ تاہم ہماری اپنی قسمت رفتہ رفتہ بہتر ہو رہی ہے اور اپوزیشن اپنے ہاضمے کی کمزوری کی وجہ سے اسے ہضم نہیں کر پا رہی ہے حالانکہ اس کا ہاضمہ بنیادی طور پر لکڑ ہضم ‘ پتھر ہضم واقع ہوا ہے اور اگر کسی کو اللہ نوازتا ہے تو اس پر واویلا نہیں کرنا چاہیے بلکہ حسد کرنے کے بجائے دعا اور محنت کرنی چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سمارٹ سٹی پروجیکٹ کا افتتاح کر رہے تھے۔
لیگی قیادت اقتدار کیلئے پائوں کیوں پکڑ رہی ہے: عثمان ڈار
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے کہا ہے کہ ''نون لیگی قیادت اقتدار کے لیے پائوں کیوں پکڑ رہی ہے‘‘ اگرچہ اس کا مطلب صاف ہے اور کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے؛ تاہم سارے سوالات اپوزیشن ہی سے پوچھنا چاہئیں اور حکومت سے ایسے سوالات کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اس کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے جو کہ اگرچہ کہیں نظر نہیں آتی جبکہ کچھ معززین کی کارکردگی ایسی ہے کہ اسے خفیہ ہی رہنا چاہیے؛ اگرچہ یہ مکمل طور پر خفیہ نہیں رہ سکتی اور کہیں نہ کہیں سے اس پر سے پردہ اٹھ بھی جاتا ہے کیونکہ ملک میں چغل خوروں کی کمی نہیں ہے اور وہ شب و روز اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں جو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں دوحہ (قطر) سے قیصر مسعود کی غزل:
تُو جو سفر میں ساتھ نبھانے سے رہ گیا
پیچھے بہت میں اپنے زمانے سے رہ گیا
باہر سے اپنا حال دکھایا اسے، مگر
اندر کا ایک زخم دکھانے سے رہ گیا
آنکھوں میں منجمد ہے اک ایسا بھی اشک جو
رونے کا وقت تھا تو بہانے سے رہ گیا
راس آ گئی ہے دشت نوردی سو ایک عمر
گھر کی طرف میں لوٹ کے جانے سے رہ گیا
جھیلی نہیں جو میں نے اذیت ہے کون سی
ہے رنج کون سا جو اٹھانے سے رہ گیا
موت آ گئی قریب تو آیا مجھے خیال
میں زندگی کا قرض چکانے سے رہ گیا
قیصرؔ وہ ڈر رہا تھا محبت کے نام سے
سو میں بھی دل کی بات بتانے سے رہ گیا
آج کا مطلع
محبت ہے مگر اس کو خبر ہونے سے ڈرتا ہوں
کہ اس خوشبوئے دل کے منتشر ہونے سے ڈرتا ہوں