تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     09-07-2021

زمین و آسمان اور جاپان و فرانس

اللہ تعالیٰ نے ''بحر الکاہل‘‘ کے مشرق میں ایک جزیرہ بنایا۔ اللہ کریم کے بندوں نے اس کا نام جاپان رکھا۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو ابتدائی کرنیں سر زمینِ جاپان کو روشن کرتی ہیں۔ جاپان کا دارالحکومت ''ٹوکیو‘‘ ہے۔ وہاں ایک ایسی یونیورسٹی بھی ہے جسے عربی میں ''جامعہ ایوہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ پروفیسر اتسوشی اوکوڈا (Atsushi Okuda)اسی یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ اس یونیورسٹی میں عرب ممالک کے اسلامی سکالرز نے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا‘ جس کا موضوع اسلامی موضوع کا تقابلی جائزہ تھا۔ پروفیسر اوکوڈا کہتے ہیں کہ مجھے نہ تو اسلام سے کوئی دلچسپی تھی نہ ہی کبھی اس کے بارے میں سوچا تھا۔ میں ایک متکبر اور مغرور انسان تھا، جسے جاپانی ہونے پر فخر تھا۔ میرا یہ غرور اس قدر بڑھا کہ میں اپنے رشتہ داروں، میل ملاقات کرنے والے احباب وغیرہ کو بھی اپنے سے کمتر خیال کرتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کے ساتھ میرا رویہ اچھا نہ تھا۔ میں نے اپنی یونیورسٹی میں منعقدہ کانفرنس کے ایک سیشن میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ جب میں اہلِ عرب کی اسلامی کانفرنس میں شامل ہوا تو آخر پر جاپانی زبان میں قرآن مجید کے تحائف دیے گئے۔ ایک نسخہ مجھے بھی ملا۔ میں نے گھر جا کر اسے کھولا تو کھولتے ہی سورۃ الروم کی آیت 20 پر میری نگاہ پڑی۔ ترجمہ یوں تھا ''اس (اللہ) کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ (اے انسانو!) اس (رب کریم) نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا، پھر اچانک تم بشر بن کر پھل رہے ہو‘‘ ۔ پروفیسر اوکوڈا کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید کی مذکورہ آیت نے میرے تکبر اور غرور کو خاک میں ملا دیا۔ اس آیت نے بتایا کہ تم سب انسانوں کی اصل حقیقت یکساں ہے‘ لہٰذا غرور کیسا۔ اپنے جیسے لوگوں پر برتری اور بڑائی کا گھمنڈ کیسا اور کیونکر؟ اس آیت کے بعد میرے ضمیر نے گویا مجھے آگاہ کرنا شروع کر دیا کہ تم ایک جاہلانہ زندگی گزار رہے ہو۔ اب مجھے اپنی جہالت پر شرمندگی اور ندامت ہونے لگی۔ الغرض! میں قرآن پڑھتا چلا گیا اور میرا اخلاق بہتر ہوتا چلا گیا۔ قرآن اور حدیث شریف کے مطالعہ سے پتا چلا کہ تمام انسانوں کا باپ (جدِ امجد) ایک ہے۔ سب انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور وہ مٹی سے بنے تھے۔ اب دنیا اور اس دنیا میں رہائش پذیر انسانوں کے بارے میں یکدم میرا نظریہ ہی بدل گیا کہ ساری زمین ایک ایسا گھر ہے جس میں ایک ماں باپ کی اولاد رہ رہی ہے۔ اب میں نے فیصلہ کیا کہ میں ایسے یونیورسل اور آفاقی دین کو اس کی اصل زبان میں پڑھوں گا؛ چنانچہ میں یونیورسٹی کی طرف سے شام کے شہر ادلب کی ایک یونیورسٹی جا پہنچا اور وہاں دو سال عربی زبان سیکھنے پر لگا دیے۔
پروفیسر اوکوڈا کہتے ہیں کہ میں اپنی سوچ، فکر اور نظریے کے اعتبار سے مسلمان تھا، اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھتا تھا مگر میں نے باقاعدہ اسلام قبول نہ کیا تھا؛ چنانچہ میں مسجد میں گیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ اب مجھے قرآن کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات یاد آ رہی تھی جس نے مجھے بدل کر رکھ دیا تھا۔ یہ اس پہلی ملاقات ہی کا نتیجہ تھا کہ میں عربی زبان میں ریسرچ کرتے ہوئے آگے پڑھتا چلا گیا اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا تحفہ دیا اور وہ تحفہ اسلام کی قبولیت ہے۔ مجھے سب سے زیادہ جو آیت پسند اور محبوب ہے وہ سورۃ الفاتحہ کی آیت ''اھدنا الصراط المستقیم‘‘ ہے۔ پروفیسر اوکوڈا نے اب اپنا نام ''کمال اوکوڈا‘‘ رکھ لیا ہے، یعنی انہیں اسلام کا کمال تحفہ ملا ‘ لہٰذا وہ اب کمال اوکوڈا ہے۔ وہ واپس جاپان اپنی یونیورسٹی میں گئے تو ابتدائی دنوں میں ہی ان کے دس شاگردوں نے اسلام قبول کر لیا۔ پروفیسر صاحب کی عمر اب 55 سال کے لگ بھگ ہے اور وہ اسلام کا تحفہ اپنے ہم وطنوں کے ہاتھوں میں تھماتے چلے جا رہے ہیں۔ قارئین کرام! قابلِ غور لمحات ہم مسلمانوں کے لیے ہیں کہ جن کو پیدائشی طور پر اسلام کی نعمت ملی مگر ہم نے اس کی قدر نہ کی۔ آج مسلمان کہیں عرب و عجم کی کشمکش میں مبتلا نظر آتے ہیں اور کہیں لسانی اور علاقائی قومیت کی اساس پر باہم لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ جو انسانی بھائی چارا ہے وہ بھی اللہ کی زمین پر خطرات کی زد میں ہے اور جو اسلامی بھائی چارا ہے وہ بھی بعض مسلم ملکوں میں خطرات سے دوچار ہے۔ حقیقت یہ ہے جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کے لیے ایک وسیع گھر کے چند پورشن بنا کر بچوں کی شادیاں کر کے انہیں وہاں بسا دیتے ہیں‘ اسی طرح زمین کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام سے آباد کیا اور ان سے مرد اور خواتین پھیلے تو یہ جو مختلف ممالک ہیں‘ یہ دراصل ایک ہی گھر کے مختلف پورشن ہیں۔ پروفیسر کمال اوکوڈا نے یہ راز اسلام سے پایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کا عالمی امن اسی فہم میں پنہاں ہے۔
زمین کی بات کرنے کے بعد اب ہم آسمان کی بات کرتے ہیں کہ پروفیسر کمال اوکوڈا کو ہدایت تو قرآن میں بیان کی ہوئی زمینی حقیقت سے ملی کہ انسان مٹی سے بنا ہے۔ فرانس کی ایک گلوکارہ کو قرآنِ مجید میں بیان کیے ہوئے ایک آسمانی منظر سے ہدایت ملی۔ اس خاتون کا نام میلانے جورجیاڈس (Mélanie Georgiades)ہے۔ جب وہ 25‘ 30 سال کی عمر میں بھرپور جوان تھی تو اس کے سٹیج شو کو ''ڈیامس‘‘ (Diam's)کا نام دیا گیا تھا‘ یہی اس کی پہچان بن گیا۔ وہ جب اچھل کود کر گاتی تھی تو لاکھوں لوگ دیوانے ہو کر اس کے ساتھ گاتے اور رقص کرتے تھے۔ اس کے پاس دولت اس قدر تھی کہ بے حساب! اس کے پاس اپنا ہوائی جہاز تھا جس پر وہ گائیکی کے پروگراموں میں شرکت کرتی تھی۔ ڈیامس کہتی ہیں کہ میں خاندانی طور پر مسیحی تھی مگر خدا کے وجود کی قائل نہ تھی۔ یہ الحاد میرے اندروں کو گھن کی طرح کھانے لگ گیا۔ میرا سکون اجڑ گیا۔ دولت، شہرت میں سکون نہ تھا۔ میں سوچتی تھی کہ اس زمین پر میرے آنے کا مقصد کیا ہے؟ اگر دولت اور شہرت ہی میرا مقصد ہے تو وہ میں نے جوانی میں ہی حاصل کر لیا، اب اس کے بعد کیا ہے؟ مرنے کے بعد کیا ہے؟ موت کے بعد اندھیرا ہے تو یہ اندھیرا کسی بھی لمحے مجھے نگل سکتا ہے۔ بس اسی سوچ نے میرا سکون چھین لیا... اس قدر کہ میں ہسپتال پہنچ گئی۔ انزائٹی کا علاج ہونے لگا مگر میں تو جنون میں مبتلا ہو گئی؛ چنانچہ نفسیاتی ہسپتال پہنچ گئی۔ وہاں میری ایک دوست آئی اس نے مجھے کائنات کے خالق کے بارے میں بتایا۔ دلائل کے ساتھ بتایا تو مجھے اپنے پیدا کرنے والے کو پکار کر سکون ملنے لگا مگر میں اب بھی مسیحی تھی اور سکون سے کوسوں دور تھی۔ اسی دوست نے ایک دن مجھے کہا کہ آئو! خالق کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ اس خاتون نے نماز ادا کی۔ سجدے میں سر رکھا۔ میں نے بھی اس کے ساتھ ساتھ ویسا ہی کیا، لیکن مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ نماز ہے۔ مجھے اس نماز اور سجدے سے بے حد تسکین ملی مگر میں اب بھی کرسچن تھی۔ مجھے اس نے اسلام کی دعوت نہیں دی؛ البتہ جاتے ہوئے وہ مجھے قرآنِ مجید دے گئی۔ میں ہسپتال سے نکلی تو قرآنِ کریم‘ جو فرانسیسی ترجمے کے ساتھ تھا‘ اپنے بیگ میں رکھ لیا اور اپنے سکون کے لیے دنیا گھومتی ہوئی ماریشیئس جا پہنچی۔
ایک عالیشان ہوٹل کے کمرے میں بیٹھی گم سم اور اداس تھی‘ اچانک دل میں بات آئی کہ مسلمان دوست کی دی ہوئی کتاب کو پڑھا جائے، میں نے قرآنِ مجید کھولا تو یہ ''سورہ ملک‘‘ کا آغاز تھا۔ ترجمہ: ''بہت زیادہ برکتوں والا ہے وہ (اللہ) کہ جس کے ہاتھ میں کامل(اختیارات کی حامل) بادشاہت ہے اور وہ ہر شے پر مکمل دسترس رکھنے والا ہے۔ اسی نے موت اور زندگی کو اس لیے بنایا ہے تاکہ تمہاری آزمائش کر کے دیکھے کہ تم میں سے کون خوبصورت ترین کردار پیش کرتا ہے۔ وہ (خدا)غالب بھی ہے اور بے حد بخشنے والا بھی ہے۔ اسی نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے ہیں لہٰذا تم لوگ رحمن کی تخلیق میں کوئی کمی بیشی نہیں پائو گے۔ نظروں کو پلٹائو۔ کیا تم (آسمانی، زمینی تخلیق میں) کوئی کٹی پھٹی جگہیں دیکھتے ہو؟ پھر بار بار (ننگی آنکھ، خوردبین کے ذریعے، دوربین کے ذریعے) نظروں کو پلٹائو۔ آخر کار ناکام نامراد ہو کر نگاہ تمہاری طرف پلٹے گی۔ اس حال میں کہ تھکی ماندی ہو گی۔ ہم نے دنیاوی آسمان کو چراغوں (ستاروں) کے ساتھ مزین کیا ہے اور ہم نے انہیں شیطانوں کو مارنے کے ہتھیار بھی بنایا ہے اور ان کے لیے (اس کے بعد) آگ کا بھڑکتا ہوا عذاب بھی تیار کیا ہے‘‘۔ جورجیاڈس نے قرآنِ پاک کو پکڑا اور اپنے اپارٹمنٹ کی لابی میں ایک آرام دہ بیڈ نما کرسی پر لیٹنے اور بیٹھنے کی سی حالت میں قدرے دراز ہو کر ستاروں سے بھرے ہوئے آسمان کو دیکھنے لگی اور سورۃ الملک کی مذکورہ پانچ آیات کو بار بار پڑھنے لگی۔ اس کو سکون مل گیا۔ اب اس نے یہاں قیام کے دوران قرآنِ مجید کو بہت زیادہ پڑھنا شروع کر دیا۔ اسے آخرت اور جنت کا خزانہ اپنے رب کریم سے مل گیا۔ وہ واپس پیرس آئی۔ مسلمان دوست سے ملی اور اسلام قبول کر لیا۔ دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ اس نے عبایا خریدا اور وہ زیب تن کرنا شروع کر دیا۔ ان دنوں فرانس میں حجاب کا مسئلہ زوروں پر تھا۔ اب اس نے یکے بعد دیگرے دو حج کیے۔ اس وقت جورجیا ڈس کی عمر 40 سال ہے‘ اسے مکہ شہر ایسا پسند آیا کہ اس نے اپنے خاوند کے ساتھ مکہ مکرمہ میں مستقل رہائش اختیار کر لی ہے۔ یہیں وہ اپنی باقی زندگی گزارنا چاہتی ہے اور یہیں سے اپنے اللہ کے پاس جانا چاہتی ہے۔
لوگو! زمین دیکھو تو اللہ اللہ۔۔۔ اپنا وجود دیکھو تو اللہ اللہ۔۔۔ آسمان دیکھو تو اللہ اللہ۔۔۔ سکون ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے...، اللہ پر ایمان سے... جی ہاں! ایمان، ذکر، سکون، قرآن۔۔۔ سب کچھ ملا ہے حضور رحمت دو عالمﷺ کے واسطے سے ۔۔۔ درود ان پر‘ سلام ان پر! اے اللہ! ہم مسلمانوں پر رحم فرما،ہمیں سیدھا راستہ دکھا، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved