تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     10-07-2021

فلمی دنیا اور دو قومی نظریہ

دلیپ کمارصاحب کی وفا ت نے ذہن میں ایک سوال اُٹھایاکہ بہت سارے مسلمان ایکٹروں نے یہ فیصلہ کیوں کیاکہ اُن کیلئے ہندوستان بہتر ماحول مہیا کرتا ہے ؟دو قومی نظریے میں مملکت کا الگ وجود مذہب میں تلاش کیاگیا۔ پاکستان کی بنیادمسلمانیت ہے اور دو قومی نظریے کے تحت ہندو اور مسلم دو الگ قومیں ہیں۔ نہ صرف اُن کا مذہب الگ ہے بلکہ اُن کا کلچر ‘ اُن کی سوچ ‘ اُن کے تصورات ‘ اُن کے رہن سہن کے طریقے سب الگ ہیں۔ سوال پھر وہی ذہن میں اُٹھتا ہے کہ جب سب کچھ الگ تو ان ڈھیر سارے مسلمانوں نے ممبئی کی فلمی دنیا کو اپنا مسکن کیوں بنایا؟
شمشاد بیگم لاہور کی تھیں وہ وہیں ٹھہر گئیں۔ ثریا کی پیدائش گوجرانوالہ کی تھی وہ بھی وہیں کی ہو گئیں۔ اور تو اور مدھو بالا مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں لیکن اُنہوں نے بھی وہاں کو ترجیح دی۔ رفیع صاحب کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ پنجابی تو تھے ہی مسلمان بھی تھے اور بہت پکے مسلمان۔ وہ وہیں رہے۔ اور کتنوں کے نام لئے جائیں؟ ساحر لدھیانوی مسلمان تھے۔ لاہور میں قیام کرنے کا تجربہ بھی کیا پھر بارڈر کے اُس پار چلے گئے۔ مجروح سلطان پوری یاد آئے۔ موسیقی کے حوالے سے نوشاد علی‘ سجاد حسین‘ غلام محمد‘ ان سب کا انتخاب وہیں کا تھا۔ اور بہت سے نام ہیں جو ذہن میں نہیں آ رہے۔ جسے ہم تحریکِ پاکستان کہتے ہیں اُس نے ان لوگوں کے ذہنوں پہ کوئی اثر نہ چھوڑا۔ ہمارے پاس ایسی دستاویزات کی کمی ہے جن سے کچھ ایسی معلومات ملیں کہ تقسیمِ ہند کے وقت یہ تمام فلمی اور لٹریری شخصیات کسی جذباتی کشمکش سے گزر رہی تھیں یا نہیں۔
دو قومی نظریے میں کسی پھسلن کی گنجائش نہیں۔ یہ ایک دو ٹوک نظریہ ہے۔ یا آپ مسلمان ہیں یا ہندو اور آپ کی مملکت کا تعین اسی بنیاد پہ ہوتا ہے۔ بہت سے طبقات کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالات سے مجبور تھے‘ ہجرت کے وسائل اُن کے پاس نہ تھے لیکن یہ دلیل فلمی دنیا کے لوگوں پہ تو فِٹ نہیں بیٹھتی۔ نور جہاں اور اُن کے خاوند شوکت حسین رضوی کا فیصلہ تھا کہ اُنہوں نے پاکستان آنا ہے۔ نور جہاں اپنے فن کے اعتبار سے عروج پہ تھیں۔ اُن کا ڈنکا پورے ہندوستان میں بجتا تھا لیکن اُن کا فیصلہ تھا کہ یہاں آنا ہے۔ دلیپ کمار وغیرہ بھی ایسا فیصلہ کر سکتے تھے لیکن اُنہوں نے نہ کیا۔ صرف تب کی بات نہیں۔ آج بھی کتنے بڑے مسلمان نام ہیں جنہوں نے اپنا مقام ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بنایا ہے۔ دلیل یہ ضرور دی جاسکتی ہے کہ فلمی دنیا کا مرکز ممبئی تھا اور پروفیشنل اعتبار سے بہتوں نے سمجھا ہو گا کہ کام کے مواقع وہاں زیادہ ہیں‘لیکن جہاں خلیج اتنی گہری اور واضح ہو وہاں پروفیشنل وجوہات کو قربان بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک معمہ ہی رہے گا کہ بہت سے فنکاروں کو یہاں کی اتنی کشش کیوں نہ محسوس ہوئی؟
فلمی دنیا سے ہٹ کے ایک اور بات آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی۔ ہجرت کرنے والے بہت سے مسلمان خاندان بٹ کر رہ گئے یعنی اُن کے کچھ افراد پاکستان آئے اور کچھ پیچھے رہ گئے۔اگر خوف وجۂ ہجرت تھی تو خوف کا اطلاق ہر ایک پہ ہونا چاہئے تھا۔ مثال کے طور پہ دو بھائی ہیں اور اگر ہجرت کا فیصلہ ہوا ہے تو دونوں کو اس فیصلے میں شریک ہونا چاہئے تھا۔ لیکن اگر ایک پیچھے رہ گیا تو دوسرا بھائی بھی پیچھے رہ سکتا تھا۔ کراچی کی محفلوں میں یہ عام گفتگو ہوتی ہے کہ ہمارا آدھا پریوار اب بھی وہیں ہے۔ ایسا کیوں ہے ‘کم از کم میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ایسے سوال پوچھنے کا مقصد محض بحث کرنا نہیں بلکہ مقصد اُن وجوہات کو تلاش کرنا ہے جو ہندوستان اور پاکستان کی دشمنی کی بنیاد بنیں۔ اگر تقسیم ہو گئی تو اُسے دشمنی میں تو تبدیل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ یہ تو قائد اعظم نے ایک موقع پہ خود کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات ایسے ہونے چاہئیں جیسے کینیڈا اور امریکہ کے ہیں۔ یہ اُن کا تصور تھا لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔ یہ ضرور ہے کہ پنجاب میں خون کی ہولی کھیلی گئی لیکن تقسیم ِ پنجاب کی منطق ہی ایسی تھی کہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مشرقی پنجاب کے مسلمان وہیں رہتے اور یہاں کے ہندو اور سکھ یہاں رہتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ خوف کی فضا ایسی پیدا ہوئی کہ انجام قتل و غارت تک پہنچا۔ صحیح دیکھا جائے تو دونوں اطراف سے قیادت کی ناکامی تھی۔ بہرحال ازلی دشمنی کی بنیادپھر بھی نہیں پڑنی چاہئے تھی۔ لیکن ہندوستان اور پاکستان دشمنی کے راستے پہ چل پڑے۔ شروع کے سالوں میں پنجاب میں خون کے دریا بہنے کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات اتنے خراب نہ تھے لیکن جیسے وقت گزرا دشمنی کم ہونے کے بجائے پختہ ہوتی گئی۔ اس کی کیا وجوہات تھیں؟
سرکاری سوچ کے مطابق تنازع کشمیر دشمنی کی جڑ ہے۔ سرکاری سوچ کے مطابق یہ تنازع حل ہو جائے تو تعلقات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ یہاں کچھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران یعنی 1940ء کی قرار دادِ پاکستان سے لے کر تقسیمِ ہند تک کشمیر کا شاذ ہی کبھی ذکر ہوتا تھا۔ تاریخ کے اوراق پلٹ لیں‘ 1947ء سے پہلے کشمیر کا کہاں ذکر ملتا ہے؟ چپقلش پیدا ہو چکی تھی۔ پاکستا ن کا نعرہ لگ چکا تھا اور وہ زور پکڑ رہا تھا۔ کشمیر تو تب مسئلہ بنا جب تقسیمِ ہند کا فیصلہ ہو چکا تھا‘ انگریزوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ہندوستان سے جا رہے ہیں اور تب یہ مسئلہ اُٹھا کہ مہاراجوں کی ریاستیں کس طرف جائیں گی۔ پاکستان اور آزاد ہندوستان معرضِ وجود میں آ چکے تھے‘ باہمی رقابت کی بنیاد پڑ چکی تھی اور کشمیر کا تنازع بعد میں کھڑا ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ تنازع کشمیر نے اُس رقابت کو ہوا دی لیکن بنیادی نکتہ یہ ہے کہ رقابت پہلے سے موجود تھی اور وہ کشمیر کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی تھی۔
ایک بات جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ جیسے بھی معاملات تھے 1947ء کے بعد ہمارے داخلی مسائل زیادہ سنگین نوعیت اختیار کرگئے۔ جس قسم کی ریاست یہاں تشکیل پائی اُس کے نتیجے میں پاکستان کے دونوں حصوں یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان میں دوریاں بڑھتی گئیں اور یہ معاملات ہم سے سلجھ نہ سکے۔ہندوستان نے اس صورتحال کا فائدہ ضرور اُٹھایا لیکن اس صورتحال کے اسباب ہماری اپنی سیاسی کارکردگی کے پیدا کردہ تھے۔ بہرحال اب تو بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے لیکن دشمنی کی بنیادیں جوں کی توں ہیں۔مسائل ضرور ہیں لیکن کشمیر یا کسی اور وجہ سے یہ دشمنی نہیں۔ اس کی جڑیں بہت دور تک جاتی ہیں۔ یوں کہیے یہ جڑیں ہمارے وجود کا حصہ ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ پرانے تصورات سے ہم نکلیں ۔ مسائل ہیں‘ اُن کا حل ڈھونڈا جائے لیکن یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فلاں ہمارا ازلی دشمن ہے ‘فلاں نے ہمارا وجود تسلیم نہیں کیا‘ یہ بیکار کی باتیں ہیں۔
پاکستان ایک حقیقت ہے‘ یہ کوئی کھلونا نہیں کہ ہوا کا جھونکا آئے تو اِدھر سے اُدھر ہو جائے۔ کوئی چھوٹا ملک بھی نہیں‘ اپنے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بس اعتماد کی تھوڑی سی کمی ہے۔ ہر طرف سے ہمیں سازشیں نظر آتی ہیں۔ ایسی نفسیات سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ خواہ مخواہ کسی سے بغل گیر ہو جائیں لیکن یہ بھی نہیں کہ ہر سائے سے ڈرتے رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved