تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     14-07-2013

پاکستان دہشت گردوں نہیں‘ ملالہ کا ملک ہے

کل جمعہ 12جولائی ‘ ملالہ کا دن تھا۔ اقوام متحدہ کی اپیل پر‘ دنیا بھر میں ایک نوعمر پاکستانی لڑکی کی جرات‘ ہمت ‘ بہادری اور حقوق نسواں کے لئے اس کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا۔ پچھلے دس بارہ سال سے دنیا کو پاکستان سے جو کچھ بھی ملا‘ وہ ہمارے لئے شرمندگی اور ندامت کا باعث تھا۔ ہمیں منشیات کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ غیرقانونی افرادی قوت ہماری پہچان گئی ہے۔ دہشت گردی کا حوالہ ہمارے نام پرایک دھبے کی طرح لگ چکا ہے۔ہمیں دہشت گرد برآمد کرنے والا ملک سمجھا جا رہا ہے۔ برطانیہ‘ جرمنی‘ سپین‘ امریکہ‘ چین‘ افغانستان‘ غرض دنیا کے بے شمار ملکوں میں ہمارے ہاں سے دہشت گرد جاتے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے تربیت حاصل کر کے جانے والے‘ لبیا میں پاکستانی دہشت گرد مشہور ہوئے تو اب شام میں پاکستانی دہشت گردوں کا ایک مرکز قائم ہو چکا ہے۔ دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر باقی تمام ملکوں کے شہری علیحدہ قطار میں لگتے ہیں اور پاکستانیوں کے ساتھ مختلف سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ ملک جو امن ‘ مذاکرات اور سیاسی عمل کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تھا‘ بتدریج خودکش بمباروں‘ دہشت گردوں اور قاتلوںکی وجہ سے پہچانا جانے لگا ہے۔ ایسے ماحول میں اسی ملک کی ایک بیٹی کے نام پر عالمی دن منایا جا رہا تھا اور ہم عالم حیرت میں ڈوبے‘ سوچ رہے تھے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں ہے؟ طویل مدت کے بعد مجھے یوں لگ رہا تھا کہ ہمیں بھی عالم انسانیت میں کچھ لمحوں کے لئے سر اٹھا کر کھڑے ہونے کا ایک لمحہ میسر آ گیا ہے۔ ہمارا ملک جو صرف خوفناک چہروں والے دہشت گردوں ‘ گردنیں کاٹنے والے بے رحم درندوں ‘ لڑکیوں کو زندہ جلانے والے وحشیوں اور عبادت گاہوں میں اپنے رب کے حضور حاضر ہونے والوں کے پرخچے اڑانے والوں کی وجہ سے مشہور ہے‘ جمعہ کے دن انسانیت‘ محبت اور امن کا پیغام دینے والی فرشتہ سیرت بچی کے چہرے سے پہچانا جا رہا تھا۔ ایک ایسی پہچان جو مدتوں کے بعد ہمیں نصیب ہوئی۔ ایک ایسی حیثیت‘ جس کو ہم ترس کے رہ گئے تھے‘ 12جولائی کو ہمیںنصیب ہو گئی۔ برے دنوں کے جھرمٹ میں ایک پھول جیسا کھلا ہوا دن‘ ہمیں دیکھنے کو ملا۔ وہ نیویارک ‘ جہاں پاکستانیوں کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ جس کی سڑک پر ایک پاکستانی کا لگایاہوا بم پھٹنے سے پہلے پکڑا گیا تھا اور وہاں کے شہری ایک بار پھر سراسیمہ ہو کر رہ گئے تھے۔ 12جولائی کو اسی نیویارک میں‘ پاکستان کی بیٹی کے لئے دنیا بھر کے لوگ جمع ہو رہے تھے۔ اقوام متحدہ کی عظیم الشان عمارت سے ملحقہ میدان نما چبوترے پر‘ عالمی حکومتوں کے نمائندے کھڑے خوش گپیاں کر رہے تھے اور دنیا بھر سے آئے ہوئے رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس پھول جیسے بچے‘ عمارت میں داخل ہونے کے لئے قطاردرقطار چلے آ رہے تھے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جوق در جوق ‘ ملالہ کی ایک جھلک دیکھنے جنرل اسمبلی کے ہال کی طرف جا رہے تھے۔ افریقی اپنے رنگ برنگ ریشمی کرتے اور شلوار نما لباس میں تھے‘ تو عرب بچے اور جوان اپنے سروں پر رومال باندھے دکھائی دے رہے تھے۔ کئی لڑکیاں عبایامیں تھیں۔ کئی ساڑھیوں میں اور کئی سکرٹس میں ۔ سکھ بچے اور نوجوان پگڑیاں پہنے ہوئے تھے‘ تو پاکستانی اور بھارتی شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ نیویارک کے شہری حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ جن پاکستانیوں پر نظرپڑتے ہی‘ ان پر خوف طاری ہو جاتا تھا‘ آج انہی پاکستانیوں پر محبت بھری نظریں نچھاور ہو رہی تھیں۔ کوئی فکرمند نہیں تھا۔ پولیس والے بھی سکیورٹی کی ڈیوٹی بھول گئے تھے۔ نیویارک کے مقامی سکولوں سے آنے والے 80ملکوں کے بچے‘ مددگاروں اور گائیڈز کی ڈیوٹی دے رہے تھے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی‘ جہاں دنیا بھر کے لئے اہم ترین فیصلے کئے جاتے ہیں‘ اس کا کنٹرول بچوں نے سنبھال رکھا تھا اور یہ عالمی ہجوم‘ ایک بچی کے استقبال کے لئے بے چین تھا۔ ملالہ ہلکے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس‘ پیروں میں عام سی چپل پہنے‘ سر پر دوپٹہ لئے اور جسم پر ایک سفید رنگ کی شال لپیٹے ہوئے تھی‘ اس کی چال میں معصوم لیکن پروقار اعتمادتھا۔ سکیورٹی کونسل کا وہ سٹیج‘ جہاں دنیا کے سفارتکار اور اعلیٰ شخصیات میڈیا کو بریفنگ دیتی ہیں‘ وہاں ایک لڑکی اپنے پاپا کے ساتھ ‘ سادگی اور عظمت کی تصویر بنی کھڑی تھی۔ اس سے کوئی سوال نہیں کر رہا تھا۔ سب محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ فوٹوگرافر تصویریں بنا رہے تھے۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم گورڈن برائون کہہ رہے تھے ’’یہ منظر کسی معجزے سے کم نہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ سیکرٹری جنرل بان کی مون اسے اپنا دوست سمجھتے ہیں۔ اقوام متحدہ میںیوم ملالہ کا انتخاب بھی ‘ پاکستان کے لئے اعزاز کی بات ہے۔ 12جولائی ملالہ کا یوم پیدائش ہے۔ اسی نسبت سے وہ دن یوم ملالہ کے طور پر منایا گیا۔ ملالہ اسی مقام پہ خطاب کرنے آئی‘ جہاں سے دنیا بھر کے منتخب جمہوری رہنمائوں اور آمروں نے خطاب کیا تھا۔ فیدل کاسترو‘ جنرل ضیاالحق‘ یاسر عرفات‘بے نظیربھٹو‘ ہیل سلاسی‘ دلائی لامہ‘ جارج بش‘ باراک اوباما‘ ہوگوشاویز اور نیلسن منڈیلا کیسے کیسے لوگ تھے؟ جن کی جگہ پر کھڑے ہو کر ملالہ پوری دنیا سے خطاب کرنے آئی تھی۔ بقول ایک اخبار نویس ’’اس جگہ پر اپنی قوم کے ہیرو بھی آئے اور زیرو بھی۔’’ ملالہ نے بتایا ‘‘ مجھے فخر ہے کہ میں نے جو شال اوڑھ رکھی ہے‘ وہ محترمہ شہید بے نظیربھٹو کی ہے۔‘‘ ملالہ نے تقریر شروع کی‘ تو کئی مغربی اور امریکی صحافی بے ساختہ داد دینے لگے۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی بار وہاں عظیم عالمی ہستیوں کے ساتھ باچا خان کا نام لیا گیا۔ ملالہ نے دنیا میں امن‘ عدم تشدد اور برداشت کی تعلیمات کے حوالے سے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ حضرت عیسیٰؑ‘ مہاتما بدھ‘ مارٹن لوتھر کنگ‘ نیلسن منڈیلا‘ محمد علی جناحؒ اور گاندھی جی کے نام لئے۔ یو این میں متعین کہنہ مشق صحافیوں نے بتایا کہ نیلسن منڈیلا کے بعد اگر کسی مقرر کو اقوام متحدہ میں اتنی پذیرائی ملی ہے‘ تو وہ ملالہ یوسف زئی ہے۔ ایک خاتون امریکی صحافی نے کہا ’’آج یو این میں ملالہ منڈیلا افیئر کا دن ہے۔‘‘اقوام متحدہ کی تاریخ میں ایسا کوئی دن نہیں آیا‘ جب جنرل اسمبلی کے ہال میں نعرے لگائے گئے۔ لیکن ملالہ کی آمد پر نعرے بھی لگائے گئے۔ نعرے لگانے والا صومالیہ کا نوجوان مندوب تھا۔ وہ ہاتھ لہراکر کہتا ’’ہم سب ملالہ ہیں‘‘ اور حاضرین اسی جوش و خروش سے یہی نعرہ دہراتے۔ ملالہ کے والد کے ساتھ‘ اس کی والدہ بھی آئی ہوئی تھیں۔ وہ اپنی بیٹی کی عظیم الشان پذیرائی دیکھ کر‘ اتنا خوش تھیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ ملالہ نے کہا ’’ایک کتاب‘ ایک قلم اور ایک استاد ‘ دنیا بدل سکتا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’اگر مجھ پر گولی چلانے والا میرے سامنے آ جائے‘ تو میں اس پر گولی نہیں چلائوں گی۔‘‘ ملالہ جو کئی آپریشنوں سے گزر کے دوبارہ دنیا میں آئی ہے‘ صحت مند اور مضبوط نظر آ رہی تھی۔ یہ ننھی منھی لڑکی وہ ہے‘ جس سے طالبان ڈرتے ہیں۔ وہ اپنا خوف دور کرنے کے لئے ہی اسے مارنے آئے تھے۔ لیکن ان کی کلاشنکوفیں اور ہتھیار‘ سب ملالہ کے خون میں ڈوب کے بیکار ہو گئے۔ دہشت گردوں نے ایک عشرے سے پاکستان میں خونریزی کر کے‘ ہمارے ملک کو جتنا بدنام کیا تھا‘ ملالہ نے ایک دن میں بدنامی کے ان سارے داغوں پر محبت کے رنگ چڑھا دیئے۔ وہ کہہ رہی تھیں ’’دہشت گرد‘ تعلیم کی طاقت سے ڈرتے ہیں۔ وہ خواتین سے ڈرتے ہیں۔ عورت کی آواز کی طاقت سے ڈرتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے کوئٹہ میں14معصوم میڈیکل کی طالبات کو مار ڈالا۔ اسی لئے انہوں نے خیبرپختونخوا اور فاٹا میں بے شمار خواتین اساتذہ اور پولیو ورکرز کو ہلاک کیا۔ اسی لئے وہ ہر روز سکول جلا دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ تبدیلی سے ڈرتے ہیں۔ اس برابری سے ڈرتے ہیں‘ جو ہم اپنے معاشرے میں لے کر آئیں گے۔ ‘‘ 12جولائی کو ہمارا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک میں دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں‘ تو اسی سرزمین پر ملالہ بھی جنم لیتی ہے۔ میرا وطن دہشت گردوں کا ملک نہیں‘ ملالہ کا ملک ہے۔ ملالہ نے امام خمینی کے اس قول کو عملاً ثابت کیا کہ ’’خون ‘ تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔‘‘ یہ کالم لکھتے ہوئے بی بی سی اردو کے حسن مجتبیٰ کی رپورٹ سے استفادہ کیا گیا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved