امریکی انخلا کے بعد افغان جنگ کے فریقین اس طویل مگر مہیب جنگ کے مضمرات اور ثمرات کو سمیٹنے کی آزمائش سے دوچار ہیں۔ طالبان اپنی ادھوری فتح کی تکمیل کی خاطر نہایت خاموشی کے ساتھ پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں، طالبان‘ جس طرزِ حکومت کے علمبردار ہیں حیرت انگیز طور پہ افغان شہری اُس نظریے کو بسروچشم قبول کرتے جا رہے ہیں۔ اس وقت شمالی افغانستان سمیت انہیں کہیں بھی قابلِ ذکر مسلح مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا؛ تاہم امریکی اپنی شکست کے مضمرات کو کم کرنے کی خاطر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے علاوہ طالبان کے فلسفۂ سیاست کو ناقابلِ عمل باورکرانے میں سرگرداں ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نئی پالیسی کے ذریعے افغانوں اور ہمسایہ ممالک کیلئے کھیل کے قواعد بدلنا چاہتی ہے۔ پہلے امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اسلام آباد کو شامل نہ کرکے پاکستانیوں اور افغانوں میں تفریق کے بیج بونے کی کوشش کی‘ اب وہ ہماری سیاسی اشرافیہ کو افغانستان کی ممکنہ خانہ جنگی سے خوفزدہ کرکے طالبان کے خلاف صف آرا کرنے کی کوشش میں مشغول ہے۔ امریکیوں نے خود تو دوحہ میں طالبان کی امارات اسلامیہ کو تسلیم کرکے ان سے عالمی سطح کا معاہدہ کرنے میں عار محسوس نہیں کی لیکن اب وہ دنیا پہ دبائو ڈال رہے ہیں کہ طالبان کو امارات اسلامی کے قیام سے روکا جائے۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے وہ افغانوں کو باہمی جنگ و جدل کی آگ میں جھونکنے کی خاطر مبینہ طور پر شمالی افغانستان میں داعش کی آبیاری سے بھی باز نہیں آئے۔ روسی میڈیا نے خبر دی ہے کہ افغانستان کے شمالی علاقوں میں داعش کے کئی پراسرارگروپ سر اٹھا رہے ہیں۔ لگتا ہے عالمی طاقتیں لیبیا کی طرح یہاں بھی قیامِ امن کی آڑ میں داخلی تقسیم کی ایسی لکیر کھینچناچاہتی ہیں جو کبھی نہ تھمنے والی خانہ جنگی کے علاوہ بالآخر افغانستان کی تقسیم پہ منتج ہو۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے ترکی میں علاقائی سٹیک ہولڈرز کے اجلاس میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد چارے میں پڑے کانٹے کی ترغیب کی مانند‘ اشرف غنی اور طالبان کو ایک ایسی ''مخلوط عبوری‘‘ حکومت بنانے پہ راضی کرتے نظر آئے جو ممکنات سے بعیدتر تھی۔ طالبان افغانستان کے مستقبل بارے کسی بھی کانفرنس میں شرکت کیلئے غیر ملکی فورسز کے مکمل انخلا کی شرط عائد کرتے ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ جنوبی ایشیاکے تمام ممالک افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا میں عافیت تلاش کرتے ہیں؛ چنانچہ صدر جوبائیڈن کے قبل از وقت فوجی انخلا بارے اعلانات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ نے فوجیوں کی واپسی کو ''امن عمل میں پیشرفت سے موافق‘‘ بتایا،البتہ امریکی اشرافیہ چاہتی ہے کہ پاکستان طالبان رہنماؤں کو اس بات پر قائل کرے کہ وہ اسلامی نظام جیسی اصطلاحات کے استعمال سے دستبردار ہو جائیں۔ حیرت ہے جس نظریۂ حیات پہ دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرکے امریکا بیس سال تک آتش و آہن کی یلغار کے باوجود اُسے مٹا نہ سکا‘ اب مبینہ قیامِ امن کی آڑلے کر طالبان کو اُس سوچ سے دستبردار کرانے کی چالیں چل رہا ہے۔
عالمی سطح کی نفسیاتی کشمکش سے قطع نظر طالبان نے ملک بھر میں پیشقدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان میں قیامِ امن کی شاہ کلید طالبان کی سیاسی بالادستی میں پنہاں ہے۔ اس وقت صرف وہی ایسی قوت ہیں جو اس اجڑی ہوئی مملکت پہ مکمل کنٹرول حاصل کرکے شہریوں کو جان، مال اور عزتوں کا تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ تاریخ اس تلخ حقیقت کو بھول نہیں پائے گی کہ اپنی تمام تر قوت و جبروت، جدید ترین جنگی مشینری کے بے رحمانہ استعمال اور مقامی قوم پرستوں کی پھرپور اعانت کے باوجود بیس سال تک ایک سپر پاورچھوٹے سے ملک پہ کامل کنٹرول حاصل نہیں کر سکی۔ عقل مندی کا تقاضا تو یہی تھا کہ طالبان کو مٹانے کیلئے تمام تر حربے آزمانے والی طاقتیں افغانوں کی زندگی سے مکمل طور پر نکل جاتیں لیکن دو دہائیوں تک وحشت و بربریت کا رقصِ ابلیس برپا رکھنے والے امریکی اب امن کی آشاکو اپنے سیاسی محرکات پہ پردہ ڈالنے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 7 اکتوبر2001ء کو افغانستان پہ حملے سے قبل امریکیوں نے اپنی فوجی جارحیت کو پاکستان کی قومی سلامتی سے جوڑنے کی جسارت کی تھی‘ اب بیس سال بعد جب وہ شکست کھا کے یہاں سے نکل رہے ہیں تو بھی اس جنگ کے نتائج کوپاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ باور کرانے پہ مصر ہیں۔ امریکی مقتدرہ کی رائے میں اگر طالبان نے زبردستی افغان حکومت کو بے دخل کرنا چاہا تو وہ تنازع کے سیاسی حل سے برأت کا اعلان کرکے ممکنہ طور پہ حاصل ہونے والی بین الاقوامی مراعات سے محرومی کے علاوہ عالمی تنہائی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان اگر افغان گورنمنٹ کا تختہ الٹنے سے گریزکریں تو اس گروپ کی عسکری حیثیت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اور عالمی حمایت یافتہ اقتدار میں حصہ لینے کی حقدار سمجھی جائے گی۔ امریکی اشرافیہ خوف و ترغیب سے مملو انہی دلفریب مفروضوں پہ عالمی سطح پر طالبان کے خلاف جو سیاسی بیانیہ تشکیل دینا چاہتی ہے‘ اس کی حقیقت بیس سال قبل کے اس بیانیے سے مختلف نہیں ہو گی جس کے ذریعے انہوں نے طالبان کو عالمی امن کیلئے خطرہ باور کرا کے پوری دنیائے مغرب کو ان بوریا نشینوں کے خلاف صف آرا کر لیا تھا، لیکن جب انہیں گردشِ تقدیر نے آگھیرا تو انہی مبینہ دہشت گردوں کے ساتھ امن معاہدے پہ دستخط کرنے میں حجاب محسوس نہ کیا۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی سماعت میں ممبران کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا ''پاکستان پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طالبان پر اثر انداز ہو۔ مجھے امید ہے اس ضمن میں امریکی مدد بشمول دوبارہ شروع کی جانے والی فوجی امداد کا حصول پاکستانی ہائی کمان کی اولین ترجیح ہو گی؛ تاہم امن عمل اس وقت تک بارآور نہیں ہو سکے گا جب تک طالبان مملکت پر بزورِ قوت قبضے کی مہم پر نظر ثانی نہیں کرتے، طالبان اگر پیشقدمی جاری رکھتے ہیں تو وہ بین الاقوامی سطح پر خطرات مول لیں گے اور پاکستان نے اگر ان کی حمایت جاری رکھی تو ان کے مسائل بھی بڑھ سکتے ہیں‘‘۔ خلیل زاد کے مطابق‘ پاکستان یہ بھی جانتا ہے کہ شورش زدہ افغانستان کے معاشی استحکام اور تعمیرِ نو کیلئے عالمی مالی مدد درکار ہو گی؛ تاہم ملک اگر خانہ جنگی کی طرف گیا تو بین الاقوامی امداد کسی بھی خرابی کا مداوا نہیں کر پائے گی۔ حتیٰ کہ اگر فریقین کسی سمجھوتے تک نہ پہنچ سکے اور طالبان اپنا بیانیہ گورننس پر مسلط کردیتے ہیں تو پھر اس طرح کی حمایت ناممکن ہوجائے گی‘‘۔ نومبر 2020ء میں افغانستان کیلئے 12 ارب ڈالر کی شہری امداد کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن بہت سے ممالک نے فنڈز کی فراہمی کو امن مذاکرات میں پیشرفت، قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور صنفی مساوات کے احترام سے مشروط کر دیا تھا۔ یورپی یونین نے بھی 1.4 بلین ڈالر دینے کے وعدے کو جمہوری اصولوں پر مبنی طرزِ حکومت سے وابستہ رکھا۔ اگر طالبان نے لامحالہ فوجی قبضے کا انتخاب کیا تو یورپی یونین سمیت تمام مغربی ممالک تعلقات توڑ دیں گے؛ تاہم فی الحال خوف و ترغیب سے مزین ان پُرکشش تجاویز سے طالبان کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ یہ وقت بتائے گا کہ طالبان کی پیشقدمی کے بارے میں کی جانے والی قیاس آرائیاں مبالغہ آمیز شرانگیزی پہ مبنی تھیں۔ طالبان کی قیادت نہ صرف اپنے منصب کے تقاضوں کا شعور رکھتی ہے بلکہ افغانوں کے اصل مسائل سے بھی آگاہ ہے۔ گزشتہ بیس سالوں کے دوران انہوں نے رموزِ حکمرانی کی سدھ بدھ حاصل کرنے کے علاوہ عالمی برادری سے ہم آہنگ رہنے کا فن بھی سیکھ لیاہے؛ چنانچہ وہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور سرنڈر کرنے والوں افغان فوجیوں کو امن دینے کے علاوہ خون ریزی سے بھی مکمل اجتناب کر رہے ہیں۔ افغانستان اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث علاقائی طاقتوں بالخصوص چین، روس، ایران اور بھارت کیلئے ہمیشہ اہم رہا ہے، اس لئے مغربی طاقتیں اسے عالمی تنہائی کی جانب دھکیل سکیں گی نہ اسے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جو لوگ طالبان کو پاکستان کیلئے سٹریٹیجک اثاثے کے بجائے سٹریٹیجک خطرہ باور کرانے کی بات کرتے ہیں‘ وہ جنوبی ایشیا میں بدلتے ہوئے سیاسی، اقتصادی اور تزویراتی افق سے ناآشنا ہیں۔