ماہ رواں کے آغاز میں پاک فوج اور آئی ایس آئی نے اسلام آباد میں قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کو خارجہ و داخلی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے امور پر تفصیلی بریفنگ دی۔ آرمی کی اعلیٰ کمان اور سیاسی رہنماؤں‘ دونوں نے افغانستان میں خانہ جنگی کے شدت میں اضافے کے خدشات اور پاکستان پر اس کے اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ دونوں نے کابل میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابین امن اور استحکام کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفادات کا حامل ہے۔ اعلیٰ فوجی اور آئی ایس آئی کمان کی جانب سے سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے امور پر بریفنگ پاکستان میں اب ایک روایت بن چکی ہے۔ نومبر 2007 میں جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف مقرر ہوئے تو انہوں نے ارکانِ پارلیمنٹ کو بریفنگ دینا شروع کی تھی۔ وہ اور اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف پیپلز پارٹی کے اقتدار (2008-2013) کے دوران اراکینِ پارلیمنٹ کو بریفنگ دیتے رہے۔ ان کے جانشین، جنرل راحیل شریف نے بھی وفاقی سطح پر مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں یہ مشق جاری رکھی۔ اب موجودہ فوجی قیادت نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ان بریفنگز کے بارے میں حزب اختلاف کے ردِ عمل متفرق رہے ہیں۔ بعض اوقات اس پر اظہارِ اطمینان کیا گیا اور کبھی یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا گیا کہ بریفنگ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حالیہ بریفنگ کے شرکا نے فراہم کردہ معلومات اور بریفنگ کے بعد ہونے والی گفتگو پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ آرمی کے اعلیٰ قیادت اور پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کے درمیان شائستہ تبادلہ خیال ہوا۔ ان پارٹیوں میں مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہے۔
افغانستان میں امن و استحکام‘ خود افغانستان اور اس کی ہمسایہ ریاستوں کے لیے سیاسی اور معاشی فوائد لیے ہوئے ہے۔ اس سے پاکستان وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ باہمی تجارت اور وہاں سے پاکستان کے لیے گیس اور بجلی کے حصول کے حوالے سے موثر رابطے قائم کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ایسا ہے کہ وہ وسطی ایشیا، چین کے علاقے سنکیانگ‘ ہندوستان و بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ خصوصاً ایران کے لیے زمینی ٹرانزٹ روٹ فراہم کر سکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا سامان لے دے سکیں، خدمات کا تبادلہ کر سکیں، افراد کی باہمی آمدورفت ممکن بنا سکیں‘ تجارت کر سکیں اور توانائی کا حصول ممکن بن سکیں۔ مذکورہ تمام ریاستیں اور خطے معیاری سڑکوں، ریلوے، پائپ لائنوں اور بجلی کے ترسیلی نظام کی شکل میں پاکستان کے ذریعے رابطہ کاری سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کی معیشت کو بھی فروغ ملے گا۔تاہم امریکہ کا یکطرفہ انخلا اور افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین خانہ جنگی کے شدت اختیار کر جانے کے اندیشوں نے متعدد ایسے مسائل پیدا کر دیئے ہیں جنہیں پالیسی سازی کے دوران پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
اول‘ امریکہ نے افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین حکومت اور معاشرے کے مستقبل کی سمت کے بارے میں کسی سمجھوتے پر پہنچے بغیر افغانستان کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ ان کے اپنے پیدا کردہ خراب حالات سے فرار کے مترادف ہے۔ دوم، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی اسلحے اور ٹیکنالوجی کی برتری کے باوجود افغان طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہے۔ افغانستان کی آج کی صورتحال7 اکتوبر 2001 سے زیادہ غیر یقینی ہے‘ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ افغانستان میں داخلی سیاسی اور فوجی صورتحال کی مستقبل کی سمت کے بارے میں کسی کو بھی یقین نہیں ہے۔ افغانستان میں امریکی مشن ناکام ہو چکا ہے‘ اگرچہ امریکی انتظامیہ کے عہدیدار اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ سوم‘ پاکستان نے امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ڈائیلاگ کے انعقاد کے لیے ہر طرح کی مدد فراہم کی۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں 29 فروری 2020 کو امریکیوں اور افغان طالبان کے مابین امن معاہدہ طے پایا۔ پاکستان نے افغان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ ڈائیلاگ کے لیے بھی ترغیب دی، لیکن افغانستان میں ان حریف گروپوں کی ذمہ داری تھی کہ کسی فارمولے پر راضی ہو جاتے کہ افغانستان میں حکمرانی کیسے کرنی ہے۔ وہ اس سلسلے میں ناکام رہے کیونکہ کوئی بھی فریق لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں تھا۔
چہارم‘ یہ خطے سے امریکہ کا دوسرا انخلا ہے۔ فروری 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے اپنا انخلا مکمل کیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ بھی خطے سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع ہو گیا۔ اکتوبر 1990 میں امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں اور تمام فوجی تربیتی پروگراموں اور معاشی تعاون کے باقاعدہ انتظامات کو منقطع کر دیا۔ اس طرح سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے ملبے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ اس ملبے میں وہ دھڑے بھی شامل تھے‘ جو سوویت یونین کے خلاف نبرد آزما رہے‘ جو اب ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھے‘ اور خود کو خود مختارانہ وجود ظاہر کر رہے تھے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے چیلنج ثابت ہو رہی تھی۔ پاکستان میں ہتھیار عام ہوئے اور اس عمل نے ملک میں تشدد کو بڑھایا۔ 1989-90 میں 40 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں تھے۔ ان پر لگ بھگ نصف اخراجات پاکستان ہی کر رہا تھا۔ متشدد جنگجو گروہوں کو سنبھالنا ایک مسئلہ تھا۔ ان میں سے کچھ نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں جانے سے انکار کردیا۔ ان مجاہدین کو تخلیق کرنے والا امریکہ اب انہیں دہشت گرد قرار دینے لگا اور پاکستان پر الزام لگایا جانے لگا کہ وہ افغانستان اور کشمیر میں اپنے فائدے کے لیے انہیں استعمال کررہا ہے۔
اب، جولائی 2021 میں، امریکہ نے اپنی فوج واپس بلا لی ہے یہ انتظام کئے بغیر کہ اس کے جانے کے بعد افغانستان کا کیا بنے گا۔ امریکہ کا فوری انخلا پاکستان کے ساتھ ساتھ خطے کی دوسری ریاستوں کو بھی منفی طور پر متاثر کرے گا‘ خصوصی طور پر ان ریاستوں کو جن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں۔ میڈیا نے 6 جولائی کو اطلاع دی کہ افغان نیشنل آرمی کے کچھ اہلکار تاجکستان فرار ہو گئے ہیں کیونکہ وہ افغانستان کے شمالی حصوں میں طالبان سے لڑنا نہیں چاہتے تھے۔ پاکستان کی بڑی پریشانی نئے مہاجرین کی آمد کا اندیشہ ہے۔ اس وقت پاکستان میں 20 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ افغان میں تنازعہ شدت اختیار کرنے کی صورت میں مزید بھی آنے کا اندیشہ ہے۔ پاکستانی ریاست اور معاشرے پر معاشی دباؤ پیدا کرنے کے علاوہ، نئے مہاجرین پاکستان میں سیاسی تنازعات کا سبب بھی بنیں گے۔پاکستان کو 1978-79 کے اپنے افغان مہاجرین کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی مہاجر پالیسی کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ ان کو کچھ علاقوں میں محدود رکھا جائے‘ لیکن اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہو گا۔ اگر افغانستان میں خانہ جنگی برقرار رہتی ہے تو پاکستان کو اضافی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جیسے پاکستان میں طالبان جنگجوئوں کا داخلہ، پاکستان میں مذہبی کارکنوں کے ایک حصے میں افغان طالبان کی حمایت میں اضافہ، اور پاکستان میں دہشتگردی کا خطرہ کیونکہ انتہا پسند نئے مہاجرین کے روپ میں پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ و کابل کی قیادت، اور بھارت‘ پاکستان پر افغان طالبان کی مدد کرنے کا الزام عائد کریں گے۔ پاکستان کی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کو امریکی افواج کے وہاں سے انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کے منفی نتائج و اثرات سے نمٹنے کیلئے قبل از وقت تیاری کرنی چاہئے۔