تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-07-2021

Cost and Destroyed

ماضی کے حکمرانوں کی امریکی ہاں میں ہاں ملانے کی روش سے ہٹ کر وزیراعظم عمران خان نے اپنے لیے الگ راہ چنی ہے‘ مگر قومی حمیت کے اس راستے پر چلنے والے لیڈر وں کے مخالفین کے احساسات چھپائے نہیں چھپتے۔وہ سبھی یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اس جرأت کی پاداش میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی اور ان کا داؤ لگ جائے گا۔ مگر یہ سوچتے ہوئے وہ ٹیپو سلطان کے یہ شہرہ آفاق الفاظ بھول جاتے ہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ یہ قولِ زریں ایسا صاف اور واضح ہے کہ کسی تشریح کا محتاج نہیں‘ یعنی غیروں کا کرائے کا ٹٹو بننے کی بجائے مردِ میدان بن کر کھڑے ہونا ہی ایک لیڈر کے شایان شان ہے ؛چنانچہ غیرت مند قومیں ایسے بلند کردار رہنماؤں کے ساتھ کھڑے ہونا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتی ہیں ۔ عمران خان جو ورلڈ کپ کے ہیرو کے طور پر قوم کی یادداشت میں محفوظ ہیں وہ اب پاکستان کی خود مختاری کے محافظ بن کر اور نشانِ عزت کی صورت میں پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ و جاوید رہیں گے۔
اس کالم کے عنوان ''Cost and Destroyed‘‘ کی دلچسپ کہانی یہ ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دنوں میں‘ جب ابھی مشینوں کا استعمال بہت محدود تھا تو اونچے پہاڑوں اور دشوارگزار گھاٹیوں میں رسد کا سامان پہنچانے کے لیے افواج میں باقاعدہ خچر رجمنٹ ہوا کرتی تھی ۔رجمنٹ کے ہر خچر کی کمر پر اس کا نمبر کنندہ کیا جاتا تھا۔ زیا دہ زخمی ‘ معذور یا بوڑھا اور کمزور ہو جانے پر جب خچر فوج کے لیے بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہتا تھا تو اس کی فائل پر''Cost and Destroyed‘‘ کی مہر لگانے کے بعد اسے گولی مار دی جاتی تھی ۔امریکہ بھی دنیا بھر میں اسی طرح کی ''خچر رجمنٹیں‘‘ بناتا ہے‘ فرق یہ ہے کہ یہاں اصلی خچروں کی جگہ اپنی ڈٖھب کے سیاستدان‘ بیوروکریٹس اور دیگر انواع و اقسام کے لیڈرز کو بھرتی کیا جاتا ہے‘ جن سے وہ اپنے فائدے اور مطلب کے کام لیتا رہتاہے اور جب دیکھتا ہے کہ اب یہ اس کے مزید کسی کام کے نہیں رہے یا اب وہ انہیں آنکھیں دکھانا شروع ہو گئے ہیں تو امریکہ ان کی فائل پر''Cost and Destroyed‘‘ کی مہر لگا دیتاہے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں میں مزاحمت کی ہوا بھرکرافغانستان میں اپنے مد مقابل دوسری بڑی قوت روس کو منتشر کرتے ہوئے واحد سپر پاور بننے والا امریکہ چھوٹی اور کمزور قوموں اور ان کے لیڈرز کو اپنی'' خچر رجمنٹ‘‘ سے زیا دہ اہمیت نہیں دیتا۔ جب ان کی ضرورت رہتی ہے ان کے سو سو ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں‘ کھانے کو بے حساب دیا جاتا ہے اور جیسے ہی ان کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے یا ان سے تعلق کسی دوسرے مقصد کے لیے بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے تو کسی کو ایوب خا ن اور کسی کو بھٹو بنا دیا جاتا ہے۔کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ جنرل محمد ضیا الحق اور جنرل اختر عبد الرحمن کی صلاحیتوں کے بغیر افغانستان سے روسی افواج کو دریائے آمو کی دوسری طرف دھکیلنا ممکن تھا؟ لیکن جب وہ جنیوا میں امریکہ کی حسب ِمنشا قرار داد کی راہ میں رکاوٹ بن کر اسے گھورنے لگے تو پہلے اوجھڑی کیمپ کا جھٹکا دیا‘ جب اس چکر سے وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر 17اگست 1988ء کا سانحہ رونما ہوگیا۔ امریکہ کا وتیرہ ہے کہ وہ اپنے مفادات کی حفاظت اور اس خطے کے ارد گرد ملکوں میں اپنے دائو پیچ کھیلنے کے لیے مستعار لئے گئے مہروں کا امیج بنانے کے لیے انہیں دنوں اور مہینوں میں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے ۔ان کے پاس ایسے طریقے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے حواس صرف انہی کی باتوں کو دیکھنا اور سننا پسند کرتے ہیں ۔ لوگوں کو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ صرف یہی ایک ہی مسئلہ ہے اور یہی ایک لیڈر ہے۔ اس ماحول میں عوام کی توجہ کا مرکز و محور وہی شخصیات اور معاملات ہوتے ہیں جنہیں پوری کوشش سے عوامی دلچسپی کا رنگ دیا جاتا ہے۔پرویزمشرف جو بش کی دوستی کا دعویٰ کرتے تھے‘ جنہیں کیمپ ڈیوڈ کی سیر تک کرا دی گئی ۔ ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ دسمبر2006ء میں کثیر الملکی دورے سے واپسی کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کر دیا کہ پاکستان اب اپنی مغربی سرحدوں پر باڑ لگانے جا رہا ہے کیونکہ ان کی بار بار کی درخواستوں کے با وجود امریکہ ا ور نیٹو افواج بھارت کی بلوچستان اور قبائلی علا قوں میں دہشت گردی سے روکنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے تھے‘ الٹا اس کی مدد کی جا رہی تھی بلکہ اس مقصد کیلئے حامد کرزئی کو بھی ٹیکنیکل سپورٹ دی جا رہی تھی اور پھر سب نے دیکھا کہ عدلیہ کی آزادی کے نعرے پر پاکستان بھر کی سڑکیں پرویز مشرف مخالف نعرہ بازی سے گونجنے لگیں۔کبھی شاہ فیصل امریکی آنکھ کا تارا تھے‘ لیکن جب شاہ فیصل کو پاور پالیٹکس اور تیل کی سیا ست کا شعور ملا اور انہوں نے مختلف بین الا قوامی میٹنگز میں تیل کی طاقت اور سیا ست کا حوالہ دینا شروع کر دیا تو انہیں گھر کے ایک فرد کے ذریعے ختم کراتے ہوئے باقی سب کو دھمکی دی گئی کہ مغرب کے طاقتور پنجوں سے کوئی بھی کہیں بھی نہیں بچ سکتا۔
ولی برانٹ(Willy Brandt) دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی سے سویڈن بھاگ گیا‘ جب شکست ہوئی تو یہی بھگوڑا امریکہ اور برطانیہ کی مرضی سے اسی جرمنی کا صدر بنا دیا گیا جسے وہ مصیبت کے وقت چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ جرمنی کا چانسلر بنتے ہی اس نے امریکی اور برطانوی مفادات کی اندھا دھند دیکھ بھال شروع کر دی‘ چند برسوں بعد اس نے اپنی مرضی کرنا شروع کی تو اسے ایک سکینڈل(Guillaume affair) کے ذریعے بد نام کرا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ Willy Brandt کے بعد Helmut Schmidt کو آگے لایا گیا اور جب چندسال بعد اس کے اند ربھی جرمنی کا کھویا ہوا مقام بحال کرنے کی سوچ جڑ پکڑنے لگی تو اسے بھی بری طرح بے عزت کرتے ہوئے جرمنی سے نکال دیا۔انڈو نیشیا کے سوئیکارنواور الجزائر کے احمد بن بیلا کی جو درگت بنائی گئی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔کانگو میں تانبے کی کانیں دنیا بھر کے مقابلے میں سب سے زیا دہ ہیں‘ اس ملک کی کرسی ٔصدارت پر بٹھائے گئے لوممبا نے جب ملک کو آہستہ آہستہ اغیار کے ہاتھوں لٹتے دیکھا تو ایک دن اس نے ان کانوں سے اپنے ملک کا حصہ بھی مانگ لیا‘ جب اس کی گستاخی بڑھنے لگی تو ایک دن چپکے سے ہیٹی کے مو جودہ صدر کی طرح لوامبا کو بھی قتل کر ا دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل Dag Hammarskjold جو تابعداری میں سب سے آگے رہتے تھے لیکن جیسے ہی انہوں نے کانگو کے مظلوم عوام کی بد ترین حالت ِزار دیکھنے کے بعد ان کے حق میں آواز اٹھائی تو انہیں بھی قتل کر ا دیا گیا اور ساتھ بعد میں آنے والوں کیلئے پیغام چھوڑ دیا کہ ان کے نا فرمانوں کا یہی انجام ہو تا ہے۔
یوگنڈا کے عدی امین کی تمام ٹریننگ اسرائیل میں کی گئی‘ وہیں سے اس نے کمانڈو کورس کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فوج کے ایک معمولی رینک سے ترقی پا کر یوگنڈا کا صدر بن کر ہمسایہ افریقی ممالک کو تنگ کرنے لگا۔ سب نے دیکھا کہ کس طرح ا س نے تنزانیہ اور دوسرے افریقی ممالک میں امریکی مفادات کے خلاف کام کرنے والوں کا خوب قتلِ عام کرایا‘ لیکن جب اس نے بادشاہی تیور دکھانے شروع کئے تو پھر اس پر زمین اتنی تنگ کر دی گئی کہ اسے بھاگ کر جدہ میں پناہ لینا پڑی۔ امریکہ نے جب بھی چاہا صدام کے ہاتھوں ایران ا ور عربوں کو ذلیل کراتا رہا‘ کویت کو تباہ کرا نے اور سعودی عرب‘ قطر‘بحرین‘ اومان اور متحدہ عرب امارات کو صدام کا خوف دکھا کر ان ممالک کو اپنے فوجی اڈوں کے طور پر اس طرح استعمال کیاکہ اپنے فوجیوں کی تنخواہیں اور وہاں رکھے گئے اسلحے کی قیمتیں بھی ان عرب ممالک سے پوری کرتا رہا اور پھر اسی صدام کو ذلیل کرانے کے بعد تختہ دار پر چڑھا دیا۔Cost and Destroyed کی لمبی تاریخ ہے‘ کالم اس کا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved