تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     11-07-2021

ایف اے ٹی ایف کے گرِے شیڈ

اس سیاست زدہ ادارے کا کام نام نہاد ٹیکنیکل پوائنٹ کی بنیاد پر مجبور کرنا ہے ۔ ان الفاظ کا مفہوم یہی ہے۔ایف اے ٹی ایف کے گزشتہ ماہ ہونے والے اجلاس میں پاکستان کوگرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ ہوگیا ۔ مسلۂ یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے اپنے بیانات اور جائزے کے مطابق پاکستان نے مسلسل اچھی کارکردگی دکھائی ۔ اس کی اپنی جانچ کے مطابق پاکستان نے اس کے 95فیصد سوالات کا تسلی بخش جواب دیا ہے‘ لیکن کارکردگی کو تسلیم کیے جانے کے باوجود پاکستان ابھی تک گرے لسٹ میں ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ''سفید فہرست‘‘ کیا ہے ؟ یہ دیکھ کر انسان سوچ میں پڑجاتا ہے کہ جو ممالک سفید فہرست میں ہیں اُن کے افعال تو پاکستان سے کہیں زیادہ گرِے‘ بلکہ سیاہ ہیں ۔ اس پر گرِے کی تعریف کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی‘ لیکن ایف اے ٹی ایف کے جائزے کا معیار بڑی حد تک ناقابل ِفہم ‘ مبہم ‘ گرِے ‘ یا رنگ دار ہے ۔
ایف اے ٹی ایف کے ''گرے ایریا‘‘ کی کلاسیک مثال انڈیا اور پاکستان کے ساتھ روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک ہے ۔ ایف اے ٹی ایف نے انڈیا کی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے دس سالہ دورکا ستمبر ‘ اکتوبر 2020 ء میں جائزہ لینا تھا ‘ لیکن اس نے جنوری ‘ فروری 2021 ء میں یہ کارروائی ملتوی کردی ۔ بظاہر اس کا جواز انڈیا میں کووڈکی لہر تھی۔ سال بھر کے دوران انڈیا کے قانونی نظام کا مالیاتی جرائم کے حوالے سے جائزہ لیا جائے گا۔ ا س کے لیے فروری 2022ء میں کل ارکان کا اجلاس بلایا جائے گا۔ اس کے بعدملک کے لیے بیان جاری کیا جائے اور سفارشات پیش کی جائیں گی ۔ کووڈ ایک عالمی مسئلہ ہے ۔ اگر اس عالمی وبا کو جواز بناتے ہوئے انڈیا کے ساتھ نرمی برتی گئی اور اسے فہرست میں شامل کرنے کے فیصلے کی بابت وقت دیا گیاتو پھر پاکستا ن کا طے شدہ وقت کے اندر ایک ایک فعل کا اتنا کڑا جائزہ کیوں ؟کیا یہ رویہ بذاتِ خود گرے ‘ یا امتیازی نہیں ؟
ایف اے ٹی ایف ایک بین الحکومتی تنظیم ہے ۔ اسے جی سیون نے 1989 ء میں قائم کیا تھا ۔ اس کا کردار عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کو مالی وسائل کی فراہمی روکنا تھا ۔ پیرس میں اپنا دفتر رکھنے والی اس تنظیم نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا جال توڑنے کے لیے کچھ اصول طے کررکھے ہیں ۔ یہ تنظیم کسی ملک کی دہشت گردوں کو مالی وسائل کی فراہمی روکنے‘ تحقیقات کرنے ‘ کھوج لگانے اور مرتکب افراد کو سزا دینے کی سکت کا بھی جائزہ لیتی ہے ۔ یہ حقیقت کہ اس تنظیم کو جی سیون نے قائم کیا تھا‘ اس کاکردار محدود کرتی ہے ۔ دنیا کے سات امیر ترین ممالک نے باقی 193 ممالک کے لیے خود ہی ایجنڈا طے کرلیا ۔ ایجنڈا یہ ہے کہ دہشت گردوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل تک رسائی حاصل نہ ہو۔ یہ بات قابلِ فہم ہے ‘ لیکن جو چیز سمجھ میں نہیں آنے والی وہ جائزہ لینے ‘ جانچ کرنے اور ممالک کو کسی فہرست میں رکھنے کا معیار ہے ۔
ایف اے ٹی ایف کے ''گرے ایریا‘‘ مندرجہ ذیل ہیں :
1۔ جانچ کے درجے : خطرے کا جائزہ لینے کا معیار اور مجموعی درجہ بندی مبہم ہے ۔ اسے واضح اورمعیاری بنانے کی ضرورت ہے ۔ کسی ملک کو سفید فہرست میں رہنے کے لیے کیا معیار حاصل کرنا ہوگا؟کس درجے کی تعمیل قابلِ قبول ہوگی ؟ کیا 90فیصدیا 80 فیصد؟ اگر کوئی انفرادی تعمیل قابلِ قبول ہے تو اور اگر یہ بڑی حد تک تعمیل ہے تو پھر 95فیصد تعمیل قابل قبول کیوں نہیں؟جیسا کہ پاکستان کے معاملے میں ہوا ہے؟کیا جلد کی رنگت کے ساتھ درجہ بندی کا معیار بھی تبدیل ہوجاتا ہے؟ بہت سے ایسے قابلِ بحث نکات ہیں جنہیں ایف اے ٹی ایف کی ساکھ بنانے کے لیے واضح‘ شفاف اور قابلِ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔
2۔ ممالک کا تقابلی جائزہ : ایف اے ٹی ایف کا سب سے بڑا ''گرِے ایریا‘‘ ممالک کو فہرست میں رکھنے کا معیار ہے ۔ اگر آپ اس معیار کے اوسط کو دیکھیں تو مختلف ممالک کے لیے الگ الگ اوسط دکھائی دے گی۔ مثال کے طور پر پاکستان کا جزوی تعمیل اور عدم تعمیل کا درجہ 20فیصد ہے اور یہ گرے لسٹ میں ہے ۔ دوسری طرف جنوبی کوریا اور لتھونیاکا سکور بھی 20 فیصد ہے لیکن وہ وائٹ لسٹ میں ہیں ۔ بہت سے ممالک عدم تعمیل کی بلند اوسط رکھنے کے باوجود سفید فہرست میں ہیں جیسا کہ امریکا۔اس سے شک پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مالیاتی شفافیت کی جانچ کرنے والی تنظیم ہے ؟
3۔ فہرست میں رہنے کا دورانیہ : ایک اور غیر معروضی ایریا فہرست میں رہنے کی مدت ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا دارومدار تعمیل کی رفتار پر ہے ‘ تاہم سہ ماہی جائزہ کہتا ہے کہ اس پر غورکیا جائے گا اور بعض اوقات ایسا تین جائزوں کے بعد کیا جاتا ہے پاکستان کے کیس میں دیکھاجاتا ہے کہ ایک پوائنٹ جس پرپاکستان کی تعمیل کی جانچ ہونی ہے‘ کا جائزہ ایک سال بعد لیا جائے گا۔یہ فیصلہ معروضی جائزے کی بجائے من مانا یا جان بوجھ کر کیا گیا فیصلہ دکھائی دیتا ہے ۔
پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے لیے مجموعی اقدامات درکار ہیں۔ یقینا ہمیں اس کی تعمیل کرنی ہے لیکن یہ بہت بنیادی بات ہے۔اصل چیز اس پیچیدہ ایشو کی ففتھ جنریشن غیرمرئی حکمت عملی سے نمٹنا ہے ۔
1۔غلط معلومات کے مقابلے میں درست معلومات کا استعمال: بھارت کی پاکستان کے خلاف بیان بازی اور مرئی اور غیر مرئی اقدامات اگنی میزائل سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ یورپی یونین ڈس انفارمیشن لیب کا بھارتی حکومت کی 750 جعلی ویب سائٹس کا انکشاف بتاتا ہے کہ وہ پندرہ سال سے پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلانے کے لیے فعال تھیں۔ اس کی وجہ پاکستان کا آگے سے جواب نہ دینا تھا۔ ضروری ہے کہ پاکستان انڈیا اور اس کے حامیوں کو منظر عام پرلائے۔ ایسا صرف چند ایک بیانات سے نہیں ہوگا۔اس کے لیے ورچوئل انٹیلی جنس نیٹ ورک کے ضرورت ہے جو ممکنہ ڈیجیٹل حملے کی پیش بینی کرتے ہوے فعال کمیونی کیشن کے ذریعے اس کا تدارک کرے۔ پاکستان نے انڈیا کے فالس فلیگ آپریشن کے ارادوں پر اتنا بھرپور ردعمل دیا کہ وہ اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوگیا ۔ اسی طرح کی تزویراتی تیاری تمام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ضروری ہے تا کہ بھارت کی دروغ گوئی کو بے نقاب کیا جائے اور دنیا کو مودی اور ہندّتوا کی فسطائیت سے آگاہ کیا جائے۔ ضروری ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف میں بھارت کی عدم تعمیل کو اجاگر کرے ۔بھارت میں یورینیم کی چور بازاری کا پکڑے جانا اور افغانستان کے ذریعے دہشت گردی کی فنڈنگ ‘ جیسا کہ لاہور میں ہونے والا تازہ ترین حملہ‘ ہمیں ٹھوس جواز فراہم کرتے ہیں۔ انہیں ورچوئل انٹیلی جنس نیٹ ورک کے ذریعے وائرل کرنے کی ضرورت ہے ۔
2۔ رکن ممالک کی لابی : اسی طرح ہمیں ایک واضح حکمت عملی اپناتے ہوئے ایف اے ٹی ایف پر اثر انداز ہونے والوں‘ غیر جانب داروں‘ اہداف طے کرنے والوں اور سہولت کاروں کو شناخت کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارا چین اور ترکی پر انحصار اچھا لیکن محدود ہے ۔ ہمیں لابنگ کی نئی پلاننگ کرنی چاہیے تاکہ غیر جانب داروں کو سہولت کاروں میں بدلا جاسکے ۔ اس کا مطلب معاشی اور ثقافتی سفارت کاری کی ضرورت ہے تاکہ باہمی انحصار پیدا کیا جاسکے ۔ اس کے بعد ہی ایف اے ٹی ایف کی حمایت حاصل ہوگی ۔
3۔ کالے دھن کو روکنے کے لیے عالمی معاونت : مغرب اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں تامل سے کام لیتا ہے کہ عالمی وبا کی طرح ملک میں داخل ہونے والے کالے دھن کو بھی پھیلنے سے نہیں روکا جاسکتا ۔صدر جوبائیڈن نے انسدادِ بدعنوانی کے خلاف قدم اٹھایا ہے کہ دوسرے ممالک سے چرائی گئی رقم کو روکا جائے ۔ پاکستان کو تمام فورمز پر اس موضوع کو اٹھانا چاہیے۔ ترقی پذیر دنیا کے ممالک کے فورمز‘ جیسا کہ G 77کو مل کر ایف اے ٹی ایف کی ممالک کو مرضی کی فہرستوں میں رکھنے کی امتیازی پالیسی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے ۔ اس کے پیچھے تصور یہ ہے کہ ''کالا دھن وائرس فورم‘‘ بنایا جائے جس میں وہ ممالک شامل ہوں جہاں سے رقم چرائی جاتی ہے اور وہ بھی جہاں رقم چھپائی جاتی ہے۔
کسی بھی ادارے یا فورم کے لیے پائیدار ساکھ رکھنے کے لیے تین بنیادی اصولوں کی پیروی درکار ہے: شفافیت‘ انصاف اور میرٹ۔ یہ ہیں وہ بنیادیں جن پراستوار ادارے مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں ۔ ایف اے ٹی ایف یا کسی بھی دوسرے فورم کے گرِے ایریا اور ابہام دور کرنے کے لیے ان تین اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved