تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-07-2021

مسلمان اور بنیاد پرستی

فرانس، آسٹریا، بلجیم، بلغاریہ، ہالینڈ، ڈنمارک، جرمنی اور سپین سمیت 28 یورپی حکومتوں نے اپنے سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں اور کسی بھی پبلک مقام پر مسلم خواتین کے سر پر سکارف اوڑھنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ستم یہ ہے کہ سکارف اوڑھے نظر آنے والی مسلم خواتین کی تضحیک کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ان ممالک کے اخبارات اور مختلف ٹی وی پروگراموں میں اس پر کارٹون اور مزاحیہ خاکے شائع اور نشر کیے جاتے ہیں، مارکیٹوں اور دوسرے پبلک مقامات پر سکارف پہننے والی خواتین پر بنیاد پرست ہونے کے فقرے کسے جاتے ہیں۔ سکینڈے نیوین ملکوں کے علاوہ فرانس سمیت کچھ دوسرے یورپی ممالک میں قانون بنائے جا رہے ہیں کہ سر پر سکارف اوڑھنے والی خواتین کو ملازمت نہیں دی جائے گی، انہیں بسوں اور ٹیوبز( انڈر گرائونڈ ریل گاڑیوں) میں سفر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور اگر سکارف پر پابندی کی خلاف ورزی کی گئی تو اس پر بھاری جرمانہ کیا جائے گا، بلکہ اگست 2018ء میں ڈنمارک میں نقاب کرنے کے حوالے سے ایک خاتون پر 1000 کرونر (ڈنمارک کی کرنسی) جرمانہ عائد کر کے حجاب اور سکارف کے حوالے سے باقاعدہ سزائوں اور جرمانے کے نفاذ کا آغاز بھی کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ مذکورہ کیس میں ایک مسلم خاتون کا حجاب ایک دوسری عورت نے نوچنے کی کوشش کی جس پر دونوں کا جھگڑا شروع ہو گیا اور یہ مسلم خاتون کو جرمانہ عائد کرنے پر منتج ہوا۔ واضح رہے کہ سویڈش قانون کے مطابق حجاب کرنے پر 10000 کرونر (لگ بھگ 1 لاکھ 86 ہزار روپے) تک جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔ کئی یورپی ممالک میں تو کچھ تنظیموں نے انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکارف اوڑھنے والی خواتین کو ملک بدر کرنے کے مطالبات بھی کر رکھے ہیں۔
مسلم خواتین کا سکارف پہننا کوئی نئی بات نہیں‘ یورپی اور مغربی ممالک میں اس سے قبل بھی خواتین مکمل عبایا پہنتی رہی ہیں اور کسی کو اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ نائن الیون کے بعد سے یورپ اور مغربی ملکوں کے دانشوروں، تھنک ٹینکس اور سکالروں کے ذہنوں میں یہ بات سما چکی ہے کہ سکارف اوڑھنے والی خواتین ذہنی طور پر بنیاد پرستی کی طرف مائل ہوتی ہیں اور اگر انہیں حجاب سے نہ روکا گیا تو یورپ بنیاد پرستی کا گڑھ بن جائے گا۔ حالانکہ اگر یورپی اور مغربی ممالک کے فلاسفر نائن الیون سے پہلے کے معاشرتی ماحول پر نظر دوڑائیں تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ سکارف اوڑھنے والی مسلم خواتین وہ ہیں جو اس سے پہلے مکمل عبایا اور برقعہ استعمال کرتی تھیں۔ یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ یورپ اور مغربی ملکوں میں سالہا سال سے مقیم ان مسلم خاندانوں کا یورپی ملکوں کے فیصلہ سازوں کی تشکیل کردہ بنیاد پرستی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ اس بات پر بضد ہیں کہ مسلم خو اتین کا اپنے سروں کو سکارف سے ڈھانپنا بنیاد پرستی کے فروغ کی علامت ہے تو ان یورپی ملکوں کی حکومتوں سے یہ پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ اگر ایک مسلم عورت کا سکارف سے اپنے سر کو ڈھانپنا بنیاد پرستی ہے تو عیسائیت میں نن یا راہبہ نے جو اپنے سر اور اوپر کے حصے کو تہہ در تہہ موٹے اور سفید کپڑے سے مکمل طور پر ڈھانپا ہوتا ہے‘ اسے کیا نام دیا جائے؟ یورپ بھرکے مفکر اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی مذہب کی تبلیغ کرنے والوں کا لباس اور طریقہ کار اس مذہب کی پیروی کرنے والوں کیلئے ایک پیمانہ اور مشعل راہ ہوتا ہے اور لوگ ان کی پیروی کرنا خدا کی خوشنودی سمجھتے ہیں تو کیا ان راہبائوں کا یہ عمل یورپی خواتین کو تحریک نہیں دیتا کہ وہ بھی اپنے سروں کو اسی طرح سکارف سے ڈھانپنا شروع کر دیں؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کوئی مسیحی خاتون اپنے سر اور سینے کو بڑے سفید کپڑے سے ڈھانپے تو وہ مقدس نن اور راہبہ کہلائے مگر جب کوئی مسلمان عورت اپنے سر کو سکارف سے ڈھانپے تو وہ بنیاد پرست؟
حقیقت یہ ہے کہ عورت کو جس قدر حقوق اسلام نے دیے ہیں‘ دنیا کے کسی اور مذہب نے نہیں دیے۔ ہندو معاشرے میں عورت مرد کے پائوں کی مٹی کو اپنے سر پر لگاتے ہوئے ازدواجی زندگی کا آغاز کرتی ہے، وہاں زندہ عورت کو ''ستی‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا۔ بعض مذاہب میں عورت کے وجود کا تصور ہی گناہ سے نتھی کر دیا گیا حالانکہ یہ سراسر فطرتِ انسانی کے خلاف ہے۔ اسی طرح مرد کی داڑھی کا اُگنا ایک فطری عمل ہے‘ اگر کوئی داڑھی رکھتا ہے تو اس کا تعلق بنیاد پرستی یا دہشت گردی سے کیسے ہو گیا؟ اگر یہودیوں کے راہب داڑھی ر کھیں تو جائز ہے مگر مسلمان کا داڑھی رکھنا بنیاد پرستی اور انتہا پسندی ہے؟ ہندوئوں کے سادھوئوں‘ رشیوں اور جوگیوں کا داڑھی رکھنا جائز ہے مگر مسلمانوں کا داڑھی رکھنا دہشت گردی؟ عیسائی پادری اپنے سر کو سفید رنگ کی ٹوپی سے ڈھانپ لے تو وہ روشن خیال اور یہودی اپنے سر کو ہمیشہ سیاہ رنگ کے ایک مخصوص بڑے ہیٹ سے ڈھانپے تو وہ لبرل، سکھ مذہب کے لوگ ہر وقت مخصوص پگڑی پہنیں تو وہ ٹھیک لیکن اگر مسلمان سر پر پگڑی باندھ لے یا اپنے سر کو ایک مخصوص بڑے رومال سے ڈھانپے تو وہ بنیاد پرست؟ کیا یہ اقوامِ عالم کا دہرا معیار نہیں ہے؟ کیا یہ مسلمانوں کے ساتھ تخصیصی رویہ نہیں ہے؟ اگر یہ اسلامو فوبیا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
2017ء میں یورپی کورٹ برائے انسانی حقوق نے بلجیم میں بنائے گئے حجاب پر پابندی کے قانون کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کسی انفرادی شخص کی مذہبی اظہارِ رائے سے زیادہ ضروری ہے۔ یورپ جو خود کو اظہارِ رائے کا سب سے بڑا مبلغ ثابت کرتا ہے‘ خود اس فیصلے میں معاشرتی ہم آہنگی کو اظہارِ رائے سے زیادہ ضروری قرار دیتا ہے؛ اگرچہ مشرقی بالخصوص مسلم معاشروں کے حوالے سے وہ اس معاملے میں تضاد کا شکار ہے، دوم‘ کیا حجاب، سکارف پر پابندی لگا دینے اور اسے قابلِ تعزیر جرم قرار دینے جیسے فیصلوں سے ہم آہنگی بڑھی یا کم ہوئی؟ یقینا اس سے یورپی معاشروں میں بین المذاہب خلیج میں اضافہ ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے مگر یورپ کے فیصلہ ساز اسے سمجھ ہی نہیں پا رہے۔
مسلمان آج دنیا کے ہر ملک‘ ہر خطے میں آباد ہیں اور 50 سے زائد مسلم ریاستیں دنیا کے نقشے پر موجود ہیں لیکن پروپیگنڈا کا کمال دیکھیے کہ آج مسلمانوں کا دوسرا نام بنیاد پرست رکھ دیا گیا ہے۔ یہ کیسے مان لیا جائے کہ کسی ایک مخصوص مذہب کو ماننے والا‘ کسی ایک دین کا پیروکار بنیاد پرست ہو سکتا ہے؟ دینِ اسلام کے تو معنی ہی سلامتی کے ہیں، کیا اسلام کا یہ نام کسی طریقے سے بھی بنیاد پرستی کے زمرے میں آتا ہے؟ مسلمان جب بھی کسی سے ملے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ پہل کرتے ہوئے اپنے ملنے والے کو السلام علیکم کہے‘ جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ تم پر سلامتی ہو، جس میں دوسرے شخص سے خیر خواہی کو دین کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہو‘ وہ دین کیسے بنیاد پرستی کا موجب بن گیا؟
وہ تاریخی صلیب جس پر صلیبی جنگوں کے دوران یورپ کے عیسائی بادشاہوں اور سالاروں نے اپنے خون سے لکھا تھا کہ مسلمانوں کو نیست و نابود کر دیں گے‘ آج بھی ہالینڈ کے ایک گرجے میں رکھی ہے اور اس گرجے میں ہفتے کے ساتوں دن ہر روز گیارہ بجے دن گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں حالانکہ گرجوں میں صرف اتوار کی صبح گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں۔ اس گرجے میں روزانہ گھنٹیاں بجانے کا مقصد ان بادشاہوں اور سالاروں کے عہد کو زندہ رکھنا ہے جنہوں نے مسلمانوں کو مٹانے کا عہد نامہ اس صلیب پر لکھا تھا۔ان لوگوں کو کوئی بھی بنیا د پرست نہیں کہتا۔ اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کیسے اور کن بنیادوں پر قائم کی گئی‘ سب جانتے ہیں مگر مغربی میڈیا کے نزدیک یہودی روشن خیال اور لبرل ہیں مگر اس کے برعکس اپنے قبلہ اول بیت المقدس کی بات کرنے والے مسلمانوں پر فوراً بنیاد پرستی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ آج کے سیاسی حالات کے تناظر میں مغربی میڈیا اور اسلام کے ناقدین کی خدمت میں برطانیہ کے مشہور فلاسفر جارج برنارڈشا کا ایک مشہور فقرہ پیش خدمت ہے: میرے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں اتنی قابلیت و صلاحیت ہے کہ یہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ہر دور کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved