تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     13-07-2021

افسر شاہی اور عوامی خدمت

ایوب خان کے دورِ حکومت میں ملک امیر محمد خان آف کالا باغ گورنر مغربی پاکستان تھے۔ اُن کے زمانے کی گڈ گورننس کی آج تک مثالیں دی جاتی ہیں۔ ملک امیر محمد خان کا جاہ و جلال اور رعب و دبدبہ بہت مشہور تھا۔ ملک صاحب کی اُس دور کے سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر سے دوستی اور بے تکلفی تھی۔ ایک بار قیام پاکستان سے پہلے کے گورے افسروں اور اُن کے علاقائی زمینداروں اورخانوں کے ساتھ روابط کی ایک جھلک ملک امیر محمد خان نے الطاف گوہر کو سنائی۔ وہ میانوالی کے لہجے میں گوہر صاحب کے بجائے ''گوہر صابا‘‘ کہا کرتے تھے۔ کہنے لگے: ''گوہر صابا گورا شاہی کا اپنا کروفر تھا۔کرسمس کے موقع پر ساری ڈویژن کے بڑے بڑے زمیندار اور سردار زرق برق شیروانیاں زیب تن کئے ہوئے صبح سویرے ڈی سی ہاؤس کے بڑے لان میں اکٹھے ہوتے۔ کوئی گیارہ بارہ بجے کے قریب چپڑاسی باہر آ کر کہتا: ''صاب بولتا ہے آپ کا مبارکباد وصول ہو گیا‘‘۔ یہ سن کر ہم سب میں مسرت و انبساط کی لہر دوڑ جاتی اور ہم ایک دوسرے سے گلے ملتے اور گورے صاحب کی زیارت کے بغیر محض مبارکباد قبول ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے‘‘۔
یہ تھی دورِ غلامی کی افسرِ شاہی جس کا تسلسل ہماری آج کی بیورو کریسی ہے۔ وہی شان و شوکت ہماری نوکر شاہی کے شعور اور لاشعور میں رچی بسی ہوئی ہے۔ ہمارے حکمران بھی کتنے سادہ دل ہیں اور عوام بھی کیسے بھولے کہ سب یہ سمجھتے ہیں کہ افسروں کی سالانہ خفیہ رپورٹ میں عوامی خدمت کا ایک خانہ رکھنے سے وہ افسر شاہی جو رعب و دبدبہ کا مجسمہ ہے وہ عجز و نیاز کا نمونہ بن جائے گی۔ ایک معاصر کی شہ سرخی کا آغاز یوں ہوتا ہے ''وزیراعظم عمران خان نے بیورو کریسی کے منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالنے اور عوامی شکایات کے ازالے کیلئے تا ریخی قدم اٹھاتے ہوئے افسران کی ترقی کو عوامی شکایات کے حل کے ساتھ مشروط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خفیہ سالانہ رپورٹ( اے سی آر) کے درجنوں خانوں میں ایک خانہ عوامی شکایات کے حل کا بھی ہوگا جس کے ایک سو نمبروں میں سے پانچ سات نمبر ہوں گے‘‘۔ یہ رپورٹ افسر کا باس لکھتا ہے۔ یوں بھی افسر شاہی خانہ پری کی بادشاہ ہے۔ گڈگورننس اور عوامی شکایات کا ازالہ کوئی مشکل معاملہ نہیں۔ یہ مرض سادہ ہے مگر پیچیدہ نہیں البتہ درست تشخیص ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں گڈ گورننس کب آئے گی؟ اس کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ یہ تب آئے گی جب حکمران چاہیں گے۔ یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان اصل سبب جانتے ہیں مگر اس طرف آتے نہیں۔سبب کچھ اور ہے جسے تو خود سمجھتا ہے۔ برصغیر کی بیورو کریسی کو سٹیل فریم کہاجاتا تھا مگر اب اس سٹیل کو زنگ لگ چکا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ آزادی کے بعد ہماری بیورو کریسی کا نظامِ تعلیم و تربیت یکسر تبدیل کر کے ایک آزاد ملک اور اس کی دستوری و عوامی ترجیحات کے مطابق ترتیب دیا جاتا مگر ہمارے حکمرانوں نے افسروں کے نظام ِتعلیم و تربیت میں فرق نہیں آنے دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آزادی کے 74برس بعد بھی سی ایس ایس کا امتحان انگریزی میں ہوتا ہے‘ انٹرویوز بھی زبانِ غیر میں ہوتے ہیں‘ ٹریننگ اکیڈمیز میں بھی دورِ غلامی کے تربیتی ماڈل کے مطابق ہی پروگرام وضع کئے جاتے ہیں۔
اگر حکمران بیورو کریسی کے بارے میں صدقِ دل سے یہ چاہتے ہوں کہ وہ خدمتِ خلق کا فریضہ انجام دیں تو پھر انہیں دو کام کرنا ہوں گے۔ پہلا یہ کہ افسروں کو قانون کے مطابق کام کرنے دیا جائے اور پھر اُن کو عوامی خدمت کے کڑے معیار پر پرکھا جائے۔ اُن کی پوسٹنگ‘ ٹرانسفر اور دیگر مراعات میں حکمرانوں کی ذاتی خوشنودی کا رائی برابر بھی حصّہ نہ ہو۔ خفیہ سالانہ رپورٹ میں ایک نئے خانے کے اضافے سے عوامی شکایات کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ گزشتہ ستر برس کے دوران اب تک بیورو کریسی کی پرفارمنس بہتر کرنے کیلئے کئی حکومتوں نے بیس سے اوپر رپورٹیں اور سٹڈیز تیار کروائی ہیں۔ اگر ان رپورٹوں میں اصل مرض کی نشاندہی کی بھی گئی ہے تو کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔1949ء سے لے کر 1971ء تک ہماری افسر شاہی کسی حد تک اتنی قانونی خود مختاری کے اندر رہ کر کام کرتی رہی۔ 1971 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے برسر اقتدار آتے ہی 1300سینئر افسروں کو جبری طور پر ریٹائر کر دیا۔ 1973ء کے دستور نے افسروں کو کسی حد تک تحفظ فراہم کیا مگر 1974ء میں بھٹو صاحب نے سی ایس پی کیریئر میں آؤٹ آف سسٹم ایک سو افسران کی تقرری کردی۔ اس طرح بھٹو صاحب سول سرونٹس کو زیرِ دام لانا چاہتے تھے۔ پھر جنرل ضیا الحق نے 1977ء میں برسراقتدار آ کر پہلے تو افسروں کو دستوری تحفظ فراہم کیا اور اُن کی حوصلہ افزائی کی مگر بعد ازاںسول بیورو کریسی میں آؤٹ آف سسٹم دس فیصد کوٹے کو باقاعدہ قانونی تحفظ فراہم کر دیا اور افسروں کو باور کروایا کہ اُن کی وفاداری کا مرکز و محور صدر کی ذات ہے۔ ذاتی وفاداری کے اس کلچر کو میاں نواز شریف نے مضبوط تر کیا اور آج جناب عمران خان بھی افسروں کی پرفارمنس کو اپنے اشارۂ ابرو کی فرمانبرداری سے ہی جانچتے ہیں۔اصل گڈگورننس یہ نہیں کہ 22کروڑ آبادی کے ملک میں‘ جہاں لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کو پولیس‘ انتظامیہ‘ قبضہ مافیا وغیرہ سے شکایتیں ہیں‘ وہاں دو چار سو افراد کی وزیراعظم کے پورٹل کے ذریعے شنوائی ہو گئی۔ اچھی گورننس وہی ہے جس کا عمران خان صاحب ذکر کیا کرتے تھے کہ انصاف آپ کو گھر کی دہلیز پر ملے گا۔ آج ان کے دور حکومت میں کتنے لوگوں کو یہ آٹو میٹک انصاف ملتا ہے؟ وزیراعظم کے اپنے دارالحکومت میں تشدد اور ہراساں کرنے کے واقعات ہوئے ہیں۔آج کل ایک جوڑے پر تشدد کر کے وڈیو بنانے کا واقعہ بہت سننے میں آ رہا ہے۔ ایک اور بات بھی ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ جن ملکوں میں اچھی گورننس ہے اور عوامی شکایات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ اس کا راز بلدیاتی ادارے یا لوکل حکومتیں ہیں۔ اسلامی ممالک میں سے شاندار لوکل حکومتیں ترکی اور انڈونیشیا میں قائم ہیں۔ استنبول کی بلدیہ کے دفاتر میں جانے کا ہمیں خود موقع ملا ہے۔ اس حکومت کے تحت صحت و صفائی‘ تعلیم‘ کم قیمتوں پر کوالٹی کی اشیائے خورو نوش کی فراہمی‘ ٹرانسپورٹ‘ صاف پانی‘ بہترین سڑکیں غرضیکہ تقریباً ہر شعبہ آتا ہے۔بلدیاتی نظام میں ہزار بارہ سو کی آبادی کے وارڈ میں علاقے کا کونسلر تقریباً ہر شخص کو پہچانتا ہے اور ہر وقت ان کی رسائی میں ہوتا ہے‘ لہٰذا شکایت کنندہ کی شکایت کا فوری طور پر ازالہ ہو جاتا ہے یا جس محکمہ کا معاملہ ہو وہاں سے مسئلہ حل کروانے کے لئے اس کی مدد کی جاتی ہے۔مگرہماری سیاسی وفاقی و صوبائی حکومتیں لوکل باڈیز کو اپنا رقیب رو سیاہ سمجھتی ہیں۔ یہ حکومتیں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کو اوّل تو منعقد نہیں ہونے دیتیں اور کسی نہ کسی طرح عدالت کے دباؤ پر اگر انتخابات ہو جائیں تو سیاسی حکومتیں انہیں چلنے نہیں دیتیں۔ پنجاب میں سپریم کورٹ نے بلدیاتی اداروں کو کئی ہفتے پہلے بحال کروایا تھا مگر حکومت نے لاہور اور دیگر شہروں میں بلدیاتی اداروں پر تالے لگا رکھے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کے اس رویے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ تقسیمِ اختیارات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے ہر طرح کے چھوٹے بڑے اختیار کو اپنے قبضۂ اقتدار میں سمیٹ لینا چاہتے ہیں۔ عربی میں کہتے ہیں کہ ''انا ولا غیری‘‘۔ یعنی میں ہی میں اور کوئی نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا یہی ماٹو رہا ہے۔ مغربی ممالک میں گڈگورننس کا حقیقی سبب یہی تقسیم اختیارات ہے۔ اگر ہماری موجودہ حکومت نیک نیتی کے ساتھ عوام کو گڈگورننس کا تحفہ دینا چاہتی ہے تو پھر وہ فی الفور کسی نئی قانون سازی کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر بلدیاتی انتخابات ہر صوبے میں کروائے‘ نیز افسروں کو اپنی ذاتی خوشنودی کے حصار سے آزاد کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved