تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     13-07-2021

Serfs

اجازت دیجئے کہ آج میں انسانی تاریخ کے ایک تاریک گوشے سے پردہ اُٹھائوں اور آپ کا تعارف بنی نوع انسان کے اُس مظلوم ترین طبقے سے کرائوں جن کے بارے میں پاکستان میں پڑھائی جانے والی تاریخ کی کتابوں میں ایک سطر بھی نہیں ملتی۔ یورپ کی تاریخ میں اس طبقے کیلئے Serf کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے وہ کھیت مزدور جو بیگار میں کام کرنے (یعنی مالی معاوضہ لئے بغیر) اور رہائی کا حق نہ رکھنے کی وجہ سے نسل در نسل قید بامشقت کی زندگی کا بوجھ اُٹھانے پر مجبور تھے۔ یہ اُس گزرے ہوئے دور کی بات ہے جب جاگیر دار صرف ہزاروں ایکڑوں پر پھیلے ہوئے کھیتوں کا نہیں بلکہ اُن پر کام کرنے والے ہزاروں کھیت مزدوروں کا بھی مالک ہوتا تھا۔ پُرانے وقتوں میں اُن کھیت مزدوروں کو Villiens بھی کہا جاتاتھا۔ وہ قرونِ وسطیٰ کے تاریک دور میں ایسے غلام تھے جن کا سماجی ڈھانچے میں سب سے نچلا درجہ تھا۔ وہ جاگیر دار کی مرضی کے بغیر ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ نہ جا سکتے تھے‘ نہ اُس کی اجازت کے بغیر شادی کر سکتے تھے۔ وہ جاگیر دار کی زمین پر ساری عمر کام کرنے‘ پیداوار کا ایک حصہ زمین کے مالک کو دینے‘ اپنی زیر کاشت زمین کا ایک حصہ وفات پر جاگیر دار کی ملکیت میں دے دینے‘ جاگیر دار کے ہر حکم کی پابندی کرنے‘ اُس کی عدالت سے دی گئی تمام سزائوں کو قبول کرنے اور تمام انسانی حقوق سے دستبردار ہو جانے کا پابند ہوتا تھا۔ جاگیر دار کا فرض ہوتا تھا کہ وہ اپنے بیگاری مزارعین کو حملہ آوروں کے خلاف تحفظ فراہم کرے (غلاموں کو یہ رعایت نہ دی جاتی تھی)۔ Serf کا انسانیت سوز نظام مغربی یورپ میں آٹھویں اور نویں صدی میں معرض وجود میں آیا اور بتدریج موروثی بن گیا۔ چودہویں صدی میں ایک طرف طاعون کی وبا اور دوسری طرف قحط سالی اتنے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا موجب بنی کہ افرادی قوت بہت کم ہو گئی۔ اب جاگیر دار مجبور ہو گئے کہ وہ بیگاری نظام کو ترک کر کے کھیت مزدوروں کو مزارع کے حقوق دیں یا مزدوری کا معاوضہ نقد ادا کریں۔ 1381ء میں انگلستان میں کسانوں کی اتنی بڑی بغاوت ہوئی کہ زرعی نظام کی چولیں ہل گئیں۔ بغاوت میں شریک کسانوں کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ Serfdomوالے ظالمانہ نظام کا نام و نشان مٹا کر نقد مزدوری چار پنس فی ایکڑ کی ادائیگی کو نافذ کی جائے۔ بدقسمتی سے مشرقی جرمنی اور روس میں Muscovy(موجودہ ماسکو) کی ریاست میں جاگیر داری کی گرفت اور مطلق العنان حکومت کے جبراور تشدد کی دہشت اتنی زیادہ تھی کہ وہاں Serf کی حالت بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوگئی۔
بیگاری کھیت مزدوروں پر مبنی زرعی نظام فرانس میں 1789ء میں انقلاب کے بعد۔ آسٹریا‘ ہنگری میں 1848 ء اور روس میں 1861 ء میں قانوناً اور عملاً ختم ہوا۔ ذرا سوچیں کہ آج سے صرف ڈیڑھ سو برس پہلے بھی یہ انسان دشمن اور احترامِ ِآدم کو پامال کرنے والا اور مزدور کی عزتِ نفس کو مٹی میں ملانے والا نظام قائم و دائم تھا۔آج برطانیہ کا شمار دنیا میں قائم چند فلاحی مملکتوں میں ہوتا ہے مگر کالم نگار کی طرح جو لاکھوں لوگ اس کی برکتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں اُنہیں کبھی خیال نہیں آیا (جیسے بچوں کو بڑے ہو کر اپنے والدین یا دادا‘ دادی اور نانا‘ نانی کی کاوشوں اور قربانیوں کا بھولے سے بھی خیال نہیں آتا) کہ آج ہم جس درخت کا پھل اتنی رغبت سے کھا رہے ہیں اُس کی جڑیں 1381 ء (قریباً ساڑھے چھ سو سال پہلے) میں ہونے والی کاشتکاروں اوربے زمین کھیت مزدوروں کی بغاوت میں پیوست ہیں۔ 1351 ء میں برطانوی حکومت نے شاہی فرمان کے ذریعے جو ظالمانہ قانون نافذ کیا اُس کا نام تھا: Statute of Labourers، اس سے سماجی بے اطمینانی کی آگ بھڑک اُٹھی۔ 1380 ء میں ایک اور عوام دشمن قانون Poll taxنافذ کیا گیا۔ اُس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ باغیوں میں غریب دستکار‘ مفلوک الحال اور سماجی نظام کے سب سے ستم زدہ اور پسے ہوئے لوگ جوق در جوق شامل ہوئے۔ لندن کے دو مضافاتی اضلاع (Kent اور Essex کائونٹی) میں رہنے والے باغیوں کے جتھوں نے لندن میں داخل ہو کر کئی امیر تاجروں کو جان سے مار ڈالا اور ڈیوک آف لنکاسٹر کا محل نذرِ آتش کر دیا۔ انگلستان کا نو عمر بادشاہ (رچرڈ دوم) باغیوں سے ملنے گیا تو اُس نے اپنے خطاب میں اُن سے تین وعدے کئے کہ اُن کی حکومت کسانوں کو سستی زمین دے گی‘ Serfs کے بل بوتے پر چلنے والے نظام کو ختم کر دے گی‘ تجارت پر ساری پابندیاں اُٹھا دے گی۔ باغیوں نے لندن کے سب سے اہم قلعہ (Tower of London)پر قبضہ کر کے کلیسا کے سربراہ آرچ بشپ اور شاہی خزانے کے مہتم کو قتل کر دیا۔ بادشاہ نے باغیوں کو منتشر ہو جانے اور اپنے احتجاج مظاہرے کو ختم کرنے پر آمادہ کر لیا اور ان سے آخری وقت تک وعدے کرتا رہا کہ وہ تمام اصلاحات کرے گا جس سے کاشتکاروں کی زندگی میں تلخی اور محرومی کم ہو جائے گی۔ مذاکرات جاری تھے کہ لندن کے میئر نے طیش کے عالم میں کاشتکاروں کے قائد (Tyler) کو قتل کر دیا۔اس بغاوت کا صرف ایک فائدہ یہ ہوا کہ برطانوی حکومت نے یہ کسان دشمن قوانین نافذ نہیں کئے۔ برطانیہ کے بعد سرزمینِ یورپ پر غریب طبقات کی دوسری بغاوت کا ظہور تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد جرمنی میں ہوا۔ تحریک اصلاح کلیسا (Reformation) کی وجہ سے یورپ شدید اضطراب اور ہلچل کی گرفت میں آگیا۔ ابھی اس روایت شکن تحریک کی آندھی چل رہی تھی کہ جرمنی میں افتادگانِ خاک گہری نیند سے جاگ پڑے۔ جنوب مغربی جرمنی میں شروع ہونے والی انقلابی تحریک دریائے Rhineکے ساحلی علاقوں سے پھیلتی پھیلتی آسٹریا تک جا پہنچی۔ نئے مذہبی مسلک کے پیرو کار Protestantنے باغیوں کی حوصلہ افزائی کی اور اُنہیں امید دلائی کہ مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور وہ انصاف اور مساوات پر مبنی نظام قائم کریں گے۔ باغیوں نے صاحبِ جائیداد لوگوں پر اتنی شدت سے حملے کرنے شروع کر دیے کہ تحریک اصلاحِ کلیسا کے بانی اور بڑے رہنما مارٹن لوتھر نے 1525 ء میں باغیوں کے خلاف سخت زبان میں مذہبی بیان جاری کیا جس کا عنوان تھا''Almost the Thieving and Murdering Hordes of Peasants‘‘۔ Swabian Leagueنامی سیاسی متحدہ محاذ نے باغیوں کو کچلنے کیلئے ایک فوج بنائی جس کی قیادت کی ذمہ داری House of Philip نے کی اور وہ اپنی عسکری برتری کی وجہ سے عوامی بغاوت پر قابو پانے اور باغیوں کو تہس نہس کرنے میں کامیاب رہے۔ اس بغاوت میں ایک لاکھ سے زیادہ کاشتکاروں نے اپنی جان کی قربانی دی۔
لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے ایک قدیم مکان میں رہنے والے اتنے ہی قدیم شخص کے مطالعہ کا کمرہ تاریخ کی کتابوں سے اَٹا پڑا ہے مگر وہ تاریخِ عالم کی ایک باتصویر کتاب کے صفحات بار بار الٹتا ہے۔یہ کتاب Kingfisher نے شائع کی۔ صفحہ نمبر629 پر ایک تصویر ہے جو دیکھنے والے کے دن کے چین اور رات کے آرام میں خلل ڈالنے کا موجب بنتی ہے۔ پندرہ سولہ ادھیڑ عمر کی دیہاتی عورتیں مل کر روس کے دریائے وولگا (Volga) میں چلنے والی ایک بڑی کشتی کو (کنارے پر چلتے ہوئے) رسّوں سے کھینچ رہی ہیں۔ تھکاوٹ کے مارے سر نیہوڑے۔ سر رومالوں سے ڈھکے ہوئے۔ اُن کے چہروں پر وہی شکوہ اور شکایت ہے جو اقبالؔ (لینن کو خدا کے حضور پیش کر کے) ضبط ِتحریر میں لائے تھے۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved