اللہ کرے کہ ایسی بات نہ ہو مگر لگتا تو یہی ہے کہ تھوڑے بہت وعدے اور دعوے کرنے کے بعد ایک بار پھر کراچی کو بھلادیا گیا ہے۔ شہر جہاں تھا‘ وہیں ہے۔ کوئی بھی ایسی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے جس کی بنیاد پر پورے یقین سے کہا جاسکے کہ اب شہر کا مقدر بدلے گا۔ گزشتہ برس طوفانی بارشوں نے کراچی کا وہ حال کیا تھا کہ دیکھنے والوں کے دل لرز گئے تھے۔ جب دیکھنے والوں کا یہ حال ہوا تھا تو پھر سوچیے اُن کا کیا حال ہوا ہوگا جن پر بارشوں نے قیامت ڈھائی تھی۔ تب وزیر اعظم نے خصوصی طور پر کراچی آکر اہلِ شہر اور بالخصوص کاروباری طبقے کو یقین دلایا تھا کہ اُن کے تمام مسائل حل کیے جائیں گے اور شہر کو اس طور ترقی دی جائے گی کہ تمام گِلے شِکوے مٹ جائیں گے۔ اعلیٰ ترین سطح سے کرائی جانے والی یقین دہانی نے لوگوں کی ڈھارس بندھائی اور یقین سا ہوگیا کہ اب ایسا کچھ ضرور ہوگا کہ شہر کی تقدیر بدل دے۔ وزیر اعظم نے 1100 ارب روپے کے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا اعلان کیا تو شہر کے تمام بنیادی مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دی۔ افسوس کہ معاملات وعدوں اور دعووں کی حد تک ہی رہے۔ تب سے اب تک لوگ پیشرفت کے لیے ترس رہے ہیں۔ 1100 ارب روپے کم نہیں‘ اگر اتنی بڑی فنڈنگ موزوں طریقے سے خرچ کی جائے تو یقینا کراچی کا حلیہ بدل جائے اور شہر کی ترقی قابلِ دید ہو۔
دو دن قبل صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گورنر ہاؤس کراچی میں ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں کراچی کے بنیادی مسائل کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں سندھ کے گورنر عمران اسماعیل اور وفاقی وزیر اسد عمر نے بھی شرکت کی۔ صدر علوی نے کہا کہ قومی ترقی کا مدار کراچی کی ترقی پر ہے۔ اہلِ کراچی کا حالِ زار نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اجلاس میں کراچی کے بنیادی مسائل کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی کے مسائل حل کرنے اور شہر کو حقیقی معنوں میں ترقی دینے کے حوالے سے وفاق اپنا کردار بخوبی ادا کر رہا ہے؛ تاہم صدر مملکت نے وضاحت نہیں کی کہ وفاق کیا کردار ادا کر رہا ہے۔ اہلِ کراچی تو منتظر ہی ہیں کہ کہیں سے کوئی آئے اور اُن کے مسائل حل کرکے لاکھ دعائیں پائے۔ اب تک تو ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ صدر علوی کی باتیں خوش آئند ہیں۔ کراچی کے تمام بنیادی مسائل تیزی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے بہت کچھ کرنا لازم ہے۔ اہلِ کراچی کو کرائی جانے والی تازہ ترین یقین دہانیوں کو بھی ایک سال ہوچکا ہے۔ بہتری کے آثار اب تک نہیں۔
کراچی کے طول و عرض میں اب بھی مسائل کے انبار ہیں۔ سڑکیں شکستہ حالت میں ہیں۔ پانی کی فراہمی کا معاملہ بھی رُلا ہوا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے شہرِ قائد کے مکینوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ شہر بھر میں تجاوزات کا بازار اب بھی گرم ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر شہر کے کئی علاقوں سے تجاوزات کا خاتمہ کردیا گیا ہے مگر لوگوں کا مزاج اب بھی نہیں بدلا۔ جہاں بھی تھوڑی سی گنجائش دکھائی دیتی ہے، لوگ کیبن یا ٹھیا لگا لیتے ہیں۔ لاک ڈاؤن نے شہر میں بہت کچھ پلٹ دیا ہے۔ معاشی الجھنوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شہر کے بعض علاقوں کو صاف کرنے سے متعلق اقدامات نے بے روزگاری کا دائرہ بھی وسیع کردیا ہے۔ نعمت اللہ خان جب سٹی ناظم تھے تب انہوں نے شہر کے کئی علاقوں میں کے ایم سی کے تحت کیبن الاٹ کیے تھے۔ ان کیبنز کا کرایا کے ایم سی کے اکاؤنٹ میں جاتا تھا۔ چند ایک مقامات پر کیبن اب بھی موجود ہیں۔
شہر کو مثبت تبدیلیوں سے ہم کنار کرنا ہے تو لازم ہے کہ لوگوں کو بے روزگار ہونے سے بچایا جائے۔ اس کی ایک اچھی صورت تو یہ ہے کہ کیبن اور ٹھیلوں کے لیے جگہ مختص کردی جائے۔ اس سے ٹریفک کا مسئلہ بھی حل ہوگا اور لوگوں کو پائیدار روزگار بھی میسر ہوسکے گا۔ جامع منصوبہ سازی کے تحت شہر بھر میں کیبن الاٹ کیے جاسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں لوگوں کا روزگار بھی سلامت رہے گا اور کسی کو تکلیف کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ کے احکام کی روشنی میں بہت سے مقامات پر تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا ہے۔بعض معاملات میں بھاری جرمانے کے ساتھ ریگولرائزیشن یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ اگر کسی نے سرکاری زمین پر غیر قانونی طریقے سے مکان تعمیر کیا ہے تو مکان کو گرانے کے بجائے سرکاری زمین کی پوری موجودہ قیمت وصول کرکے مکان کو ریگولرائز بھی کیا جاسکتا ہے۔ ہر معاملے میں انہدام سے شہر کے مسائل بڑھیں گے۔ اس حوالے سے سٹیک ہولڈرز کو مل کر حکومت سے بات کرنے ساتھ ساتھ عدلیہ سے بھی رہنمائی لینی چاہیے۔
اہلِ کراچی کو اُس دن کا انتظار ہے جب شہر کو پانی مطلوبہ مقدار میں فراہم ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ اُس کی تقسیم بھی منصفانہ ہوگی۔ شہر کے بیشتر بڑے یعنی گنجان آباد علاقے پانی کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ متعلقہ ادارے سے کتنی ہی شکایت کیجیے، کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ لوگ پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ عام آدمی کے گھریلو بجٹ کا اچھا خاصا حصہ پانی کا انتظام کرنے پر خرچ ہو جاتا ہے۔ پینے کا صاف پانی تو خیر ہر حال میں خریدنا پڑتا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے شہر بھر میں گھریلو سطح پر الجھنیں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ کاروباری سطح پر بھی مشکلات بڑھائی ہیں۔ صنعتی علاقوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بیشتر یونٹس بند پڑے رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھتی ہے اور افلاس زدہ طبقہ مزید افلاس کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب بہت سے علاقوں میں گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ خواتینِ خانہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ صنعت کار بھی شِکوہ سنج ہیں کہ گیس کی لوڈ شیڈنگ سے اُن کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے باعث برآمدی آرڈرز بروقت مکمل کرنا اب بہت بڑے دردِ سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔
کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کو حتمی شکل دے کر اُس پر عمل کی ابتداء جلد از جلد کی جانی چاہیے۔ محض برساتی اور عمومی نالوں کی صفائی سے شہر کا حلیہ بہتر ہونے والا نہیں۔ شہر بھر میں سڑکوں کا حال بُرا ہے۔ معمولی سا پیچ ورک بھی نہیں کیا جارہا۔ کہیں اگر کوئی گڑھا پڑ گیا ہے تو اُسے پُر کرنے کا نہیں سوچا جارہا۔ کہیں نالے کی چھت بیٹھ گئی ہے یعنی بڑا سُوراخ ہوگیا ہے تو اُس کی بھی تعمیر نو کی کسی کو فکر لاحق نہیں۔ معاملات کو جوں کا توں چھوڑنے کی بیماری عام ہوتی جارہی ہے۔ شہر بھر میں کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ کچرا معیاری طریقے سے ٹھکانے لگانے کا انتظام قابلِ رحم حالت میں ہے۔ کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے معاملات کو مزید الجھادیا ہے۔ لاکھوں افراد کا روزگار داؤ پر لگنے سے شہر کے معاملات مزید بگڑے ہیں۔ چوری چکاری اور لوٹ مار بڑھ گئی ہے۔ صوبائی حکومت کو بظاہر اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں شہریوں کا کیا حال ہوتا ہے۔ ایک حکم جاری کرکے کاروبار بند کرادیئے جاتے ہیں اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ بہتر حکمرانی کا حق ادا کردیا گیا۔
کراچی کو محض تبدیلی نہیں بلکہ جامع تبدیلی درکار ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ کبھی نہ کبھی حالات خود بہتر ہوجائیں گے۔ وعدوں اور دعووں سے کچھ نہیں ہوتا۔ صوبائی حکومت نے شہرِ قائد کے معاملات درست کرنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرنا ترک کردیا ہے۔ اس حوالے سے پی پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان رسہ کشی بھی پائی جاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرکے وقت گزار رہی ہیں۔ ان کے درمیان لڑائی سے عوام کو کیا غرض؟ انہیں تو اپنے مسائل کا حل چاہیے۔ صدرِ مملکت نے کراچی آکر اجلاس کی صدارت کی ہے تو امید رکھنی چاہیے کہ کچھ نہ کچھ ہوگا، معاملات درست کرنے کی سمت سفر کا آغاز ہوگا اور شہرِ قائد کے مکین یہ سوچنا ترک کریں گے کہ (بقولِ داغؔ دہلوی) ؎
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا