تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     14-07-2021

قربانی کی روح !

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو اپنی بندگی اورعبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس حقیقت کا ذکر سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56 میں یوں فرمایا گیا ہے : ''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ (صرف) میری عبادت کریں‘‘۔
بندگی اور عبادات میں جہاں پر نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، دعا، ذکر‘ اذکاراور صدقات شامل ہیں‘ وہیں پر حلال جانوروں کو اللہ کے راستے میں قربان کرنا بھی عبادات میں شامل ہے؛ چنانچہ سورہ حج کی آیات 34 تا 35میں ارشاد ہوا: '' اور ہر اُمت کے لیے ہم نے مقرر کی ہے قربانی تاکہ وہ ذکر کریں اللہ کے نام کا ان پر جو اس نے دیے انہیں پالتو چوپایوں میں سے۔ پس تمہارا معبود ایک ہے تو اسی کے فرمانبردار ہو جاؤ اور خوشخبری سنا دیجئے عاجزی کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب ذکر کیا جائے اللہ کا‘ ڈر جاتے ہیں ان کے دل اور صبر کرنے والے ہیں اس (تکلیف) پر‘ جو پہنچے انہیں اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور اس میں سے جو ہم نے رزق دیا انہیں‘ وہ خرچ کرتے ہیں‘‘۔ قربانی کا فقط کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میںاس کی قبولیت بھی ضروری ہے۔ دیگر اعمال کی قبولیت کی طرح قربانی کے لیے بھی خلوص اور تقویٰ کا ہونا ضروری ہے۔ اُممِ سابقہ میں قربانی کی قبولیت کی ایک نشانی یہ بھی ہوا کرتی تھی کہ آسمان سے آنے والی آگ قربانی کو کھا جایا کرتی تھی اور قربانی کرنے والا اس منظر کو دیکھ کر سمجھ جایا کرتا تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی قربانی کو قبو ل فرما لیا ہے۔
اس حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت 183میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''وہ لوگ جنہوں نے کہا بے شک اللہ نے پختہ عہد لیا ہے ہم سے کہ ہم نہ ایمان لائیںکسی رسول پر یہاں تک کہ وہ لائے ہمارے پاس ایسی قربانی (کہ) کھا جائے اُسے آگ، کہہ دیجئے بلاشبہ آ چکے ہیں تمہارے پاس کئی رسول مجھ سے پہلے واضح دلائل کے ساتھ اور اس (معجزے کے) ساتھ جو تم نے کہا ہے‘ پھر تم نے کیوں قتل کیا اُنہیں اگر تم سچے ہو‘‘۔
قرآنِ مجیدکے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا اختلاف بھی درحقیقت قربانی کے مسئلے پر ہی ہوا تھا۔ ایک بھائی کی قربانی کو قبول کر لیا گیا جبکہ دوسرے بھائی کی قربانی قبول نہ ہوئی تو وہ اپنے اس بھائی کے قتل پر آمادہ ہو گیا جس کی قربانی قبول ہوئی تھی۔اس پر جس بھائی کی قربانی قبول ہوئی تھی‘ اس نے دوسرے بھائی کو تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیات 27 تا 30 میں اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور پڑھ کر سنائیے اِن کو آدم کے دو بیٹوں کی خبر حق کے ساتھ، جب دونوں نے قربانی پیش کی تو قبول کر لی گئی ان دونوں میں سے ایک کی (قربانی) اور نہ قبول کی گئی دوسرے سے (تو) اس نے کہا: میں ضرور بالضرور قتل کروں گا تمہیں۔(پہلے نے )کہا: بے شک قبول کرتا ہے اللہ تعالیٰ متقین سے؛ البتہ اگر تو نے بڑھایا میری طرف اپنا ہاتھ تاکہ تو مجھے قتل کرے (تو) میں نہیں بڑھانے والا اپنا ہاتھ تیری طرف تاکہ میں قتل کروں تجھے۔ بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں (جو) تمام جہانوں کا رب ہے۔ بے شک میں چاہتا ہوں کہ تو سمیٹ لے میرے گناہ کو اور اپنے گناہ کو‘ پس تو ہو جائے اہلِ دوزخ میں سے اور یہی بدلہ ہے ظالموں کا۔ پس آمادہ کیا اُس کو اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر تو اس نے قتل کر دیا اُسے۔ پس ہو گیا خسارہ پانے والوں میں سے‘‘۔
اس کے بعد بھی قربانی کو پیش کرنے کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ قربانی کی اس تاریخ میں نیا رنگ اس وقت بھرا گیا جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کا حکم دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ صافات کی آیات 100 تا 108میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''(ابراہیم علیہ السلام نے دُعا مانگی ) اے میرے رب تُو عطا فرما مجھے (ایک لڑکا) نیکوں میں سے تو ہم نے خوشخبری دی اسے ایک بردبار لڑکے کی۔ پھر جب وہ پہنچا اس کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو، اس نے کہا: اے میرے بیٹے! بے شک میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ میں ذبح کر رہا ہوں تجھے‘ پس تو دیکھ‘ تو کیا خیال کرتا ہے؟ اس نے کہا: اے میرے ابا جان! آپ کر گزریے جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے‘ آپ عنقریب ضرور پائیں گے مجھے اگر اللہ نے چاہا تو صبر کرنے والوں میں سے۔ پھر جب وہ دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے لٹا دیا اسے پیشانی کے بل۔ اور ہم نے پکارا اسے کہ اے ابراہیم! یقینا تو نے سچ کر دکھایا (اپنا) خواب بے شک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو۔ بے شک یہی کھلی آزمائش ہے اور ہم نے بدلے میں دیا اس (اسماعیل) کے ایک عظیم ذبیحہ۔ اور ہم نے (باقی) چھوڑا اس پر (یعنی اس کا ذکرِخیر) پیچھے آنے والوں میں‘‘۔
جب ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت وکردار پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی زندگی کو وقف کیا ہوا تھا۔ آپ نے جوانی میں بت کدے میں کلہاڑا چلا دیا، دربارِ نمرود میں صدائے توحید بلند فرما ئی،نمرود کی جلائی ہوئی آگ میں اترنا گوارا کرلیا، حضرت ہاجرہ اور ننھے اسماعیل علیہ السلام کو وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے حکم پر اپنے لخت جگر کو قربان کرنے پر بھی آمادہ وتیار ہو گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ قربانی اللہ تبارک وتعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے لیے اس کو امر فرما دیا۔
اُمت مسلمہ ہر سال عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے اس عظیم فریضے کو انجام دیتی ہے۔ اس موقع پر اونٹوں، گائیوں، بکروں، دنبوں اور چھتروں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ لوگ منڈیوں میں قربانی کے جانوروں کی خریداری کے لیے جاتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ جذبہ جس جذبے کے تحت حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے پر آمادہ وتیار ہو گئے تھے‘ کیا وہ جذبہ آج مسلمانوں کے دلوں میں موجود ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ قربانی کرنے والے بہت سے لوگ اُس خلوص، تقویٰ اور قربانی کے جذبے سے محروم ہیں کہ جس جذبے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس موقع پر انسانوں سے طلب کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قربانی کی غرض وغایت کو سورہ حج کی آیت 37میں کچھ اس انداز میں بیان فرماتے ہیں: ''ہر گز نہیں پہنچتے اللہ کو ان (قربانیوں) کے گوشت اور نہ ان کے خون لیکن پہنچتا ہے اس کو تقویٰ تمہاری طرف سے۔ اسی طرح (اللہ نے) تابع کر دیا ان (چوپایوں) کو تمہارے لیے تاکہ تم بڑائی بیان کرو اللہ کی اس پر کہ اس نے ہدایت دی تمہیں اور خوشخبری سنا دیجئے نیکی کرنے والوں کو‘‘۔
قربانی کے نتیجے میں اگر انسان کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اور محبت پیدا ہو جائے اور اس کے اعمال خالصتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے ہو جائیں تو قربانی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے اوراس کے برعکس اگر قربانی کے موقع پر انسان محض نمودونمائش کا مظاہرہ کرتا رہے اور اس قربانی کے بعد حاصل ہونے والے گوشت کو مستحقین، غربا اور مساکین میں تقسیم کرنے کے بجائے فقط تعلقات میں اضافے کے لیے متمول اور صاحبِ حیثیت لوگوں کو ہی بھیجتا رہے تو اس سے قربانی کا اصل مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الانعام میں عبادات کی اصل کو بیان فرماتے ہیں کہ انسان کی جملہ عبادات درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے لیے ہونی چاہئیں۔ سورہ انعام کی آیت 162میں ارشاد ہوا: ''کہہ دیجئے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔ اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر عبادات کی طرح قربانی فقط اللہ کی رضاہی کے لیے ہونی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تقویٰ اور للہیت والی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، آمین !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved