تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-07-2021

شکریہ جنابِ وزیراعظم! لیکن…

گو کہ میری درخواست کی قبولیت کو بہت عرصہ لگا ایک برس کے بعد ہی سہی۔ وزیراعظم عمران خان سے بنی گالا میں محترم ڈاکٹر بابر اعوان کی موجودگی میں ہونے والی پینتالیس منٹ کی تفصیلی ملاقات میں مَیں نے اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی جنم بھومی‘ اپنے قصبے کھڈیاں کی باعزت خواتین، بزرگوں اور بچوں کے حوالے سے دو انتہائی ضروری گزارشات کی تھیں۔ وزیراعظم سے میں نے کہا تھا کہ مجھے کسی عہدے کی کوئی خواہش نہیں حالانکہ اگلی ایک میٹنگ میں سات وفاقی وزرا کی موجودگی میں مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے‘ ملک و قوم کیلئے سچے جذبے اور اپنے نظریے کیلئے میری کمٹمنٹ دیکھتے ہوئے اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی گئی تھی لیکن میں نے ان سے یہی کہا تھا کہ مجھے صرف دو چیزیں چاہئیں؛ ایک‘ میرے قصبے کو تین اطراف سے ملانے والی سڑکیں اور پھر رنگ روڈ‘ جسے ہم سر کلر روڈ بھی کہتے ہیں‘ ان کی تعمیر کیلئے فنڈز اور دوسری‘ کھڈیاں ہائی سکول‘ پولیس سٹیشن اور بلدیہ چوک کے درمیان خالی پڑی سرکاری اراضی پر پچاس بستروں کا ہسپتال‘ جس میں جنرل ہسپتال اور ساتھ ہی زچہ بچہ کیلئے علیحدہ اور جدید میڈیکل سہولتوں سے آراستہ چلڈرن ہسپتال بھی ہو۔ میں نے وزیراعظم صاحب سے یہی درخواست کی تھی کہ یہ میری زندگی کی دو بڑی خواہشات ہیں۔ تحریک انصاف کے مخالفین کی جانب سے بار بار کی جانے والی درجنوں پیشکشوں کے باوجود میرے تحریک انصاف کے مشن کے لیے اپنے نظریات سے جڑے رہنے کے عمل کا اگر کوئی اعتراف کرنا چاہتے ہیں تو ان دو مطالبات کو پورا کر دیجئے۔ ملاقات کے بعد جب وزیراعظم صاحب میانوالی جلسے میں جانے کیلئے اٹھے تو میرے دوبارہ درخواست کرنے پر انہوں نے میرا ہاتھ اپنے دو ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ''بلوچ صاحب! آپ کے یہ دونوں کام ہوں گے اور اب تو ہمیں ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز کی کمی کی بھی کوئی فکر نہیں کیونکہ ہمارے پاس موجود ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کے ہر شہر اور ہر قصبے میں اتنی سرکاری زمین خالی پڑی ہے کہ اس کو بیچ کر اسی جگہ خرچ کیا جا سکے گا‘‘۔
وزیراعظم صاحب سے اس سلسلے میں متعدد مرتبہ میری میسجز پر بات چیت ہوئی، انہوں نے مجھے کچھ دیر انتظار کرنے کا کہا۔ ان کا یہ پیغام میرے لیے خاصی تسلی کا باعث بنا اور پھر جب لاہور بھوبتیاں میں وہ بے گھروں کیلئے ایک ہزار گھروں کی تکمیل کے پروجیکٹ کیلئے تشریف لائے تو وزیر مملکت برائے اطلاعات اور پندرہ برس کی عمر سے عمران خان کیلئے دن رات ایک کر دینے والے پارٹی کے دیرینہ کارکن فرخ حبیب اور وزیراعظم ہائوس سے ملنے والے دعوت نامے پر جب شرکت کیلئے میں وہاں پہنچا تو وزیراعظم کو سردار عثمان بزدار کی موجودگی میں ان کا وعدہ یاد دلایا اور شکر ہے باری تعالیٰ کا کہ چند دنوں بعد ہی پنجاب حکومت نے کھڈیاں خاص کیلئے رنگ روڈ کی منظوری دیتے ہوئے اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔ کھڈیاں پچاس‘ ساٹھ برس پہلے جہاں کی گلیوں، چوباروں اور کھیل کے میدانوں میں اپنے دوستوں اور مخالفین کے ساتھ ہنستے‘ کھیلتے‘ لڑتے جھگڑے گزارے ہیں‘ میری جنم بھومی ہونے کے ساتھ ساتھ میرے لیے اس لیے بھی اہم ہے کہ میرے آبائو اجداد اور بزرگوں کے جسد خاکی اور اس کی مٹی میں مدفون ہیں۔ اس کے بازاروں اور اردگرد کے علاقوں میں ہی میرا بچپن اور لڑکپن گزرا، یہیں میں نے اپنی زندگی کی تیس سے زائد بہاریں حاجی اسلم مرحوم، حکیم جاوید، خالد سیف اﷲ، حنیف، اکرم، اشرف، حسن اور جونیجو جیسے لنگوٹیے دوستوں کے ساتھ کرکٹ، ہاکی اور گلی ڈنڈا کھیلتے ہوئے گزار دیں۔ مجھے آج احساسِ تفاخر ہوتا ہے کہ اس کیلئے کچھ کرنے میں میں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان آپ کا بہت بہت شکریہ! کھڈیاں میں عوامی سہولتیں مہیا کرنے پر یہاں سے گزرنے والی ہر روح‘ جس کا دل بغض سے پاک ہو گا‘ ہمیشہ آپ کیلئے دعاگو رہے گی۔ عوام کو یہ سہولتیں مہیا کرنے پر یہاں کے عوام یقینا آپ کو اور پی ٹی آئی کو اچھے الفاظ میں یاد رکھیں گے... لیکن جناب! ابھی آپ کی جانب سے مجھ سے ایک برس قبل محترم ڈاکٹر با بر اعوان کی موجودگی میں کیے گئے وعدے کی آدھی تکمیل ہوئی ہے۔ پچاس بستروں کے ہسپتال کی تعمیر ابھی باقی ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے سرکلر روڈ (رنگ روڈ) کی تعمیر کا حکم تو جاری کر دیا گیا لیکن حویلی سے کھڈیاں تھانے تک، ریلوے سٹیشن سے جنازہ گاہ تک اور محلہ ڈوگراں تک کی محض تین کلومیٹر کی کھڈیاں خاص قصبے کو ملانے والی رابطہ سڑکوں کا وعدہ ایفا ہونا ابھی باقی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے بھی اس سلسلے میں زبانی طور پر گزارش کر چکا ہوں کہ اگر کھڈیاں قصبے تک پہنچنے کیلئے سڑک نہیں ہو گی‘ ہر طرف بڑے بڑے گڑھے ہوں گے جو بارشوں کی وجہ سے جوہڑ اور تالاب کا منظر پیش کریں گے تو سرکلر روڈ کس کام کی؟ میرے قصبے کی بیٹیوں‘ مائوں اور بہنوں کو‘ جنہوں نے گھروں کی ضروریات کیلئے ہر سامان لینے کیلئے کھڈیاں کے بازاروں میں جانا ہوتا ہے‘ بچیوں نے قصبے سے باہر سکولوں اور لاری اڈے پر جانا ہوتا ہے‘ انہیں جب اپنے لباس اٹھا کر ان پانی سے بھرے ہوئے گڑھوں سے گزرنا پڑتا ہے تو سوچیے کہ ان کی کیا حالت ہوتی ہو گی؟ ذرا سی تیز بارش میں یہ گڑھے دریا کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں‘ لہٰذا اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رنگ روڈ (سرکلر روڈ) کے ساتھ رابطہ سڑکوں کی تعمیر بھی ضروری ہے وگرنہ صحیح معنوں میں اس منصوبے کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پائیں گے اور یہ بہترین تعمیراتی کام بھی آدھا تیتر‘ آدھا بٹیر بن کر رہ جائے گا۔
جس وقت میں یہ آرٹیکل لکھ رہا تھا تو کھڈیاں کے حوالے سے ایک عجیب قسم کا فیصلہ سامنے آ گیا جسے دیکھ اور سن کو ہر کوئی حیران رہ جاتا ہے۔ یہ فیصلہ اسی طرح کا ہے کہ کالج امرتسر میں بنا دیا جائے اور اس کا ہاسٹل لاہور میں۔ بجلی کی ترسیلی کمپنی کا یہ فیصلہ سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ عوامی سہولت مہیا کرنے والا کوئی محکمہ نہیں بلکہ کسی بنیے کی دکان ہے۔ کھڈیاں خاص شہر میں بجلی کے نئے کنکشن کیلئے جمع کرائی جانے والی درخواستوں پر جب سائل کو ڈیمانڈ نوٹس جاری کیا جاتا ہے تو اسے اربن ایریا کے شیڈول کے مطابق تیار کیا جاتا ہے اور کھڈیاں قصبے کو اربن ایریا ظاہر کیا جاتا ہے شاید اس کی وجہ زیادہ سے زیادہ مال پانی کا حصول ہے، جب بجلی کے چارجز اور دوسرے واجبات کی بات ہوتی ہے تو اس وقت بھی اس کیلئے اربن ایریا کے شیڈول اور اخراجات تیار کیے جاتے ہیں، اعتراض پر کہا جاتا ہے کہ ادارے نے کھڈیاں شہر کو اربن ایریا ڈکلیئر کر رکھا ہے‘ اس لیے اربن ایریا کے حساب سے ہی اخراجات اور واجبات وصول کیے جائیں گے لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ جب لوڈ شیڈنگ کا شیڈول تیار کیا جاتا ہے تو کھڈیاں کو رورل ایریا میں شامل کر لیا جاتا ہے۔کیا یہ صریح ناانصافی نہیں ہے؟ کیا اسے کسی بھی طریقے سے جائز کہا جا سکتا ہے؟ کیا وزیر توانائی کھڈیاں خاص کے بجلی صارفین کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس فریب اور دھوکا دہی کا محاسبہ کریں گے؟
آخر میں جناب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا شکریہ کہ پنجاب کی نئی اعلان کردہ چودہ یونیورسٹیوں میں قصور کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس وقت پتوکی، چونیاں اور کوٹ رادھا کشن کو تحصیلوں کا درجہ دیا جا چکا ہے اور ضلع کا صدر مقام ہونے کی وجہ سے قصور میں ڈپٹی کمشنر آفس، ڈی پی او آفس اور سیشن کورٹس سمیت تمام ضلعی محکمہ جات کے دفاتر موجود ہیں اور کھڈیاں‘ جو اب چہار اطراف میں پھیل چکا ہے‘ اسے بھی ضلع قصور کے ایک اہم قصبے کی حیثیت حاصل ہے۔ منظور کی گئی یونیورسٹیز میں یقینا یہ سب سے زیادہ مناسب جگہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved