تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-07-2021

’’ایجنڈا‘‘ آخر ہے کیا؟

توجہ دلا دلاکر مر جائیے، کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ کتنا ہی سوچیے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ہو کیا رہا ہے یا کیا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کسی بھی معاملے کا کوئی سِرا دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا بھر میں عوام کو بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ مکمل انصاف تو کسی بھی معاشرے میں ممکن نہیں۔ دنیا کا نظام اتنا پیچیدہ ہوچکا ہے کہ اب کسی بھی معاشرے میں ہزار خوبیوں کے باوجود بہت سی ایسی خرابیاں برقرار رہتی ہیں جو انسان کو کسی نہ کسی حوالے سے تکلیف پہنچاتی ہی ہیں۔ پھر بھی اتنا تو ہے کہ لوگ بنیادی سہولتوں کے لیے ترستے نہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اس بات کا پورا خیال رکھا جاتا ہے کہ عوام کو تمام بنیادی سہولتیں آسانی سے اور وافر مقدار میں میسر ہوں۔ ہاں! بلند تر معیار کی زندگی بسر کرنے کے لیے تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ یہ توفطری بات ہے۔ ترقی پذیر معاشروں میں بھی یہ بات یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ لوگوں کو بنیادی سہولتیں آسانی سے اور ضرورت کے مطابق میسر ہوں۔ ہمارے ہاں معاملہ بالکل اُلٹا ہے۔ انتظامی اور ریاستی مشینری کی‘ بظاہر‘ کوشش ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اذیت سے دوچار رکھا جائے، انہیں ایسی کوئی بھی سہولت آسانی سے میسر نہیں ہونی چاہیے جو زندگی کو آسان بناتی ہو۔ بہت غور کرنے پر بھی لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ ایسا کیوں ہے۔ آخر وہ کون سا ''ایجنڈا‘‘ ہے جس کی تکمیل کے لیے عوام کو مشکلات اور مسائل سے دوچار رکھنا لازم ٹھہرا ہے؟ حالات کی چکّی میں پسنے والے عوام نے آخر ایسا کون سا گناہ کیا ہے جس کی اِتنی کڑی سزا ہے کہ انتہائی بنیادی نوعیت کی سہولتوں کے لیے بھی اُنہیں یوں ترسایا جائے کہ زندگی اجیرن ہو جائے؟
عوام کو سہولتوں سے محروم رکھنے کا معاملہ تو خیر پورے ملک کا ہے۔ چند چھوٹے شہر خوش نصیب ہیں کہ معیاری حکمرانی کی بدولت وہاں کے مکینوں کے لیے ڈھنگ سے جینا ممکن ہوسکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام بڑے شہروں کا حال یکساں ہے یعنی عام آدمی رُل ہی رہا ہے۔ شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے شعوری طور پر ایسی کوئی کوشش نہیں کی جارہی جس کا مقصد دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف نقلِ مکانی روکنا ہو۔ بہتر معاشی امکانات کی تلاش لوگوں کو شہروں کی طرف دھکیل رہی ہے۔ شہروں کی آبادی بے ہنگم بڑھتی ہے تو بنیادی ڈھانچے کا تیا پانچا ہو جاتا ہے۔ یہ تو فطری امر ہے کہ آبادی میں غیر معمولی رفتار سے ہونے والا اضافہ شہروں یا بستیوں کے بنیادی ڈھانچے کو غیر مستحکم کردیتا ہے مگر کیا کیجیے کہ ہر سطح کی حکومت عوام کے لیے زندگی آسان بنانے کے عمل سے دانستہ فاصلہ رکھے ہوئے ہے۔
کراچی کی مثال بہت واضح ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے حوالے سے اس پر نقل مکانی کا سب سے زیادہ دباؤ بھی ہے۔ ملک بھر کے لوگ بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں کراچی آتے ہیں۔ شہر کی آبادی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ساری کی ساری ٹاؤن پلاننگ صریحاً غیر مؤثر ہوکر رہ گئی ہے۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام بڑھتی ہوئی خرابیوں کے باعث اب تقریباً خاتمے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ بدعنوانی کے بلند ہوتے ہوئے گراف نے ہر شعبے میں مافیا کو پروان چڑھایا ہے۔ مافیا راج نے عام آدمی کو خاص طور پر خوار کیا ہے۔ پانی جیسی بنیادی سہولت بھی خریدنا پڑے تو پھر رہ کیا گیا؟ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے جنریٹر اور یو پی ایس مافیا کو جنم دیا ہے۔ جہاں سارے معاملات مفادات کے گرد گھومنے لگیں وہاں اصلاحِ احوال کے بارے میں سوچنے کا تصور بھی داؤ پر لگ جاتا ہے۔
کراچی میں بنیادی ڈھانچے کی حالت اب خستہ ہے۔ متعلقہ اداروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عوام پر کیا بیت رہی ہے۔ ایک طرف پانی کی قلت ہے اور دوسری طرف بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ۔ بے روزگاری بھی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ سرکاری سطح پر روزگار کے مواقع بڑھانے والے اقدامات خال خال ہیں اور رہی سہی کسر لوگوں کو بے روزگار کرنے کے اقدامات نے پوری کردی ہے۔ معیشت اگر کسی نہ کسی طور چل رہی ہے تو اس میں حکومت کا کوئی کمال نہیں‘ لوگ ہی کچھ نہ کچھ کرکے روزگار کے مواقع میں اضافے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ کراچی کم و بیش ایک عشرے سے انتہائی پیچیدہ مسائل کا شکار ہے۔ وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت بالعموم سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کے نتیجے میں وفاق اور صوبے کی کشمکش روز بروز زور پکڑتی گئی ہے اور اس کشمکش کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا ہے۔ کراچی کے معاملات پر اظہارِ خیال کرنا اور شہریوں کو دلاسوں سے بہلانا بھی اب فیشن کا حصہ ہے۔
کئی سال سے ایک معمول سا بن گیا ہے کہ کراچی میں جب معاملات زیادہ بگڑ جاتے ہیں تب وفاقی شخصیات کراچی آتی ہیں اور دو تین دن قیام کے دوران وعدوں اور دعووں کا بازار گرم کرکے چل دیتی ہیں۔ اہلِ شہر ترستے ہی رہتے ہیں کہ جو کچھ اُن کے کانوں نے سُنا اُس پر عمل بھی کیا جائے۔ جوشِ گفتار تو محسوس کیا جاسکتا ہے، جذبۂ عمل کہیں نظر نہیں آتا۔ شہرِ قائد کے مکینوں کے آنسو پونچھنے کی خاطر چند ایک نمائشی نوعیت کے اقدامات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ پندرہ دن سے شور مچایا جارہا تھا، دعوے کیے جارہے تھے کہ بارش سے نمٹنے کی تیاریاں کرلی گئی ہیں، سامان تیار ہے۔ پیر کو کراچی میں موسم کی پہلی بارش ہوئی اور کچرے کے ساتھ ساتھ حکومتی دعوے بھی بہا لے گئی۔ صوبائی وزیر اطلاعات و بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے یہ کہتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش کی کہ محکمۂ موسمیات نے خبردار نہیں کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ محکمۂ موسمیات کی تو اب کچھ خاص ضرورت رہی بھی نہیں۔ اب تو موبائل فون کے ذریعے بھی موسم کے بدلتے تیور پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بارش کے ہاتھوں سرکاری ملمع ایک ہی رگڑ سے اُتر گیا۔ ملمع ہوتا تو ایک ہی رگڑ سے اُترتا‘ یہاں تو ملمع کاری تک کی زحمت گوارا نہیں کی گئی!
پیر کو ہونے والی بارش کے حوالے سے ایک ''شاہکار‘‘ جملہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کی طرف سے آیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ قبل از وقت بارش سے ہمیں متحرک ہونے میں مدد ملی ہے! دعوے بہت کیے گئے ہیں کہ مون سون کے حوالے سے تیاریاں کرلی گئی ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ شہر میں برساتی نالوں کی صفائی تاحال نہیں کی جاسکی۔ چند ایک مقامات پر نالوں کی صفائی کے نام پر اُن کا سارا کچرا نکال کر سڑک یا کسی کھلی جگہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ یہ غلاظت پہلے تعفن پھیلاتی ہے اور پھر سوکھ کر گزرنے والوں کے لیے مزید الجھن پیدا کرتی ہے۔ چند گھنٹوں کی بارش کا پانی بھی نالوں میں نہیں جاسکا کیونکہ وہ کچرے سے بھرے ہوئے ہیں اور پانی کے روانی سے گزرنے کی گنجائش برائے نام ہے۔
کبھی کبھی تو گمان گزرتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے اور قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے شہر کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا کسی ایجنڈے کا حصہ تو نہیں! کہیں ایسا تو نہیں کہ شہر کے معاملات کو اِس حد تک بگڑنے دیا جائے کہ وہ ایسے مقام تک پہنچ جائیں کہ واپسی ممکن نہ ہو؟ آخر کیا سبب ہے کہ اُس شہر کے مسائل حل کرنے سے گریز کیا جارہا ہے جس کی خرابی معیشت ہی نہیں معاشرت کو بھی خرابیوں سے دوچار کرتی ہے؟ کراچی میں ملک بھر کے لوگ بستے ہیں۔ یہاں کی خرابی سے ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں گھرانے متاثر ہوتے ہیں جو یہاں رہتے بھی نہیں۔ یہ شہر پھلتا پُھولتا رہے گا تو ملک کے ہر حصے میں خوش حالی ممکن بنائے گا۔ اب تو حد ہوچکی ہے۔ شہرِ قائد میں حقیقی اصلاحِ احوال کے حوالے سے اب تو سنجیدگی اختیار کی جائے۔ کیا لازم ہے کہ معاملات کو اُس مقام تک پہنچنے دیا جائے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو؟ اِتنے بڑے شہر کو ایسے بھونڈے انداز سے نظر انداز نہ کیا جائے کہ عام آدمی بھی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو کہ دال میں کچھ کالا ہے، کوئی ''ایجنڈا‘‘ ہے جس کی تکمیل مقصود ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved