تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     15-07-2021

چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بودوباش اچھی

شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ۔ تحمل۔ برداشت۔ سپورٹس مین سپرٹ۔ تہذیب۔ یہ الفاظ آپ نے بہت بار سنے ہوں گے۔ میں نے بھی بکثرت سنے اور گوری اقوام کی طرف سے تو بارہا‘ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت سی مثالیں ہیں جن میں ان سب الفاظ کے عملی معنی گوری اقوام نے دنیا کو سکھائے ہیں۔ دولت، ٹیکنالوجی اور تمدن میں سب اقوام پر فائق ہونا اگرچہ مرعوب کن ہے لیکن سب سے مرعوب کن تحمل‘ برداشت‘ نظم و ضبط کے وہ مظاہرے ہیں‘ جن کے سبق پڑھ پڑھ کر ہم پاگل ہوئے پھرتے ہیں۔ جن دیرینہ مظاہر کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ دماغ میں اور دو دن پہلے کے حالیہ مظاہرے نظر میں گھوم رہے ہیں۔ ایسا تفاوت؟ ایسا تضاد؟ ایسی دو رنگی ؟
یورو کپ فٹ بال ایونٹ 2021 امسال لندن میں ہورہا تھا۔ فٹ بال صرف یورپ ہی نہیں، دنیا بھر میں مقبول ترین کھیل ہے۔ تماشائیوں کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔ پسندیدہ ٹیموں کی شرٹس پہن کر اور چہرے پر قومی پرچم پینٹ کروا کر میچ دیکھنے کیلئے پہنچنے والے بہت بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔ اس سال اس کی خاص بات یہ تھی کہ کورونا کی زد میں آئے ہوئے دو ہولناک سالوں نے میدانوں کی رونق چھین لی تھی، جوش و خروش پر یخ پانی انڈیل دیا تھا، اور سپورٹس شرٹس الماریوں کے خانوں میں دھری رہ گئی تھیں۔ اب یہ ٹورنامنٹ منعقد ہوا تو تماشائیوں کی گویا عید آ گئی۔ کل 24 ٹیموں نے ٹورنامنٹ کے لیے خود کو ثابت کیا جن میں بہت طاقتور ٹیمیں بھی شامل تھیں‘ اس طرح یہ فٹ بال کے بڑے ٹورنامنٹس میں سے ایک بن گیا۔ انگلینڈ اس کا میزبان تھا، اور مقامی شائقین کیلئے اس میں جوش و خروش کا ایک عنصر یہ بھی تھاکہ سابق ٹرافی انگلینڈ کے پاس تھی، گویا وہ دفاعی چیمپئن تھا۔ جیسے جیسے انگلینڈ ٹورنامنٹ میں آگے بڑھتا گیا اور بالآخر فائنل میں پہنچ گیا، (Coming Home) کا نعرہ وہاں بلند سے بلند ترہوتا گیا۔ دوسری طرف اٹلی بھی تمام حریف ٹیموں کو شکست دے کر فائنل میں آگیا اور اب مقابلہ ویمبلے سٹیڈیم، لندن، انگلینڈ میں 11جولائی 2021 کو یورپ کی ان دو بہترین ٹیموں کے درمیان ہونا تھا۔
ابھی میچ شروع نہیں ہوا تھاکہ لندن کی سڑکوں اور ویمبلے سٹیڈیم سے مظاہروں اور توڑپھوڑ کی اطلاعات آنے لگیں۔ سینکڑوں بے ٹکٹ لوگوں نے پہلے تو سکیورٹی کی رکاوٹیں پھلانگ کر اور توڑ کر سٹیڈیم میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ جو یہ نہ کر سکے وہ ہزاروں کی تعداد میں لیسٹر سکوائر پر جمع ہوگئے۔ بیئر کین، شیشے اور پلاسٹک کی بوتلیں، ڈبے۔ کون سی چیز ایسی تھی جو اس چوک پر پھینک مارنے سے بچی ہو۔ نشانہ پولیس تھی۔ آپ وہ ویڈیو کلپس اور تصویریں دیکھیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ کچرے اور کوڑے کے اس ڈھیر میں سڑک نام کی چیز کم کم ہی نظر آئے گی۔ طوفان بدتمیزی میں ایک دو نہیں، سینکڑوں نہیں، ہزاروں لوگ شریک تھے، کیا نشے میں دھت، کیا جہالت میں لت پت۔ اس معاملے میں سب ایک تھے۔
باہر یہی ہنگامہ تھاکہ سٹیڈیم میں میچ شروع ہوگیا۔ انگلینڈ نے شروع ہی میں ایک گول کی برتری لے لی۔ کمنگ ہوم کے نعرے اور تیز ہوگئے لیکن یہ برتری زیادہ دیر نہ رہی۔ اٹلی کی طرف سے گول برابر کردیا گیا۔ میچ کا وقت، زائد وقت ختم ہوا تو میچ پینلٹی شوٹس پر آگیا۔ دونوں فریق برابر تھے۔ میچ کسی طرف بھی جا سکتا تھا‘ لیکن انگلینڈ کے تماشائی یہ توقع کیے بیٹھے تھے کہ جیت بالآخر انگلینڈ کی ہوگی اورٹرافی کی گھر واپسی آئے گی۔ پینلٹی شوٹس پر گولوں کی تعداد برابر چل رہی تھی لیکن انگلینڈ کے تین کھلاڑیوں نے یکے بعد دیگرے پینلٹی کے تین گول ضائع کردئیے۔ گول ضائع کرنیوالے تینوں سیاہ فام تھے‘ لہٰذا نسلی منافرت کا ایک نیا دروازہ کھل گیا۔ اٹلی کی فتح، اور اٹلی کے حامیوں کا جشن منانا انگلینڈ کے تماشائیوں کیلئے نہایت صدمے کی بات تھی اور غیرمتوقع بھی۔ تمام تو نہیں لیکن بہت بڑی تعداد وہ تھی جو شکست تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔
شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ۔ تحمل۔ برداشت۔ سپورٹس مین سپرٹ۔ تہذیب۔ یہ الفاظ آپ نے بہت بار سنے ہوں گے۔ انہیں ایک بار پھر ذہن میں تازہ کرلیں اور اس کے بعد وہ ویڈیو کلپس اور تصویریں دیکھیں جن میں انگلینڈ کے تماشائی اطالوی تماشائیوں پر حملے کرتے، گالی گلوچ کرتے اور بری طرح مار پیٹ کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ ان جاہلوں کو سپورٹس مین سپرٹ تودور کی بات، انسانیت کی معمولی تمیز بھی ہے؟ یورو کپ لندن، یوکے میں ہورہا تھا۔ اطالوی تماشائی وہاں مہمان تھے۔ ان کے ساتھ یہ سلوک کون سی اخلاقیات میں آتا ہے؟ وہ لوگ کس غار میں چھپے بیٹھے ہیں جو ہم بھارتیوں، پاکستانیوں کی عام طور پر اور مسلمانوں کی خاص طور پر معمولی سی حرکت بھی برداشت نہیں کرتے اور کسی ایک کی حرکت پوری قوم کے سر مڑھ دیتے ہیں؟
ویڈیو کلپس دیکھتے ہوئے مجھے وہ ان گنت میچ یاد آنے لگے جو دو دشمنوں یعنی پاکستان اور بھارت کے مابین ہوئے تھے۔ میچ ہاکی کے ہوں یا کرکٹ کے۔ پاکستان میں ہوں، بھارت میں، عرب ممالک میں یا کسی اور ملک میں۔ میچ پاکستان میں ہو تو بھارتی بھی کثیر تعداد میں شریک ہوا کرتے تھے۔ بھارت میں ہوتو پاکستانی بڑی تعداد میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ جذبات اور جوش و خروش اپنے عروج پر ہوتے تھے۔ دشمنی پوری شدت کے ساتھ اور حامی بھی پڑھے لکھے، ان پڑھ، امیر، غریب، ہر طبقے سے۔ ہارنے والوں کو صدمہ بھی شدید ہوتا تھا، اور ہم بحیثیت مجموعی ایک جذباتی قوم بھی ہیں۔ دشمنی بھی جنگوں کی تاریخ والی ہے۔ علاقوں کے تاریخی تنازعات بھی ہیں اورمذہبی مخاصمت بھی لیکن کوئی ایک مثال بھی نہیں ہے کہ کسی نے تماشائیوں پر حملہ کردیا گیا ہو۔ ہندوستانی تماشائی ہمیشہ پاکستانیوں کی مہمان نوازی سے متاثر ہوکر گئے‘ اور پاکستانی ہندوستان کی تعریفیں کرتے لوٹے۔ کسی ایک شخص کو خراش بھی نہیں آئی۔
انگلینڈ اور اٹلی کو لے لیجیے۔ دونوں کی اکثریت ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ دونوں گوری نسل کی قومیں۔ دونوں مہذب، متمدن اور تعلیم یافتہ قوموں میں شمار ہوتی ہیں۔ دونوں کی سرحدیں آپس میں نہیں ملتیں۔ دونوں کے درمیان کوئی سرحدی، علاقائی تنازع نہیں۔ کوئی تناؤ نہیں۔ ان دونوں نے کبھی ایک دوسرے پر دہشت گردی کو سپورٹ کرنے اور داخلی طور پر ایک دوسرے کو غیر مستحکم کرنے کے الزامات نہیں لگائے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے علیحدگی پسندوں کی کبھی مدد نہیں کی۔ دونوں کی کھیلوں میں خاص طور پر فٹ بال میں نمایاں شرکت ہے۔ اس دن میں نے دیکھا کہ میچ کے بعد ویمبلے سٹیڈیم کے باہر انگلینڈ کے ایک گورے نے اٹلی کے اپنے ایک ہم مذہب ہم نسل گورے کو زمین پر لٹا کر ٹھڈے مارے‘ اور اس کارخیر میں مدد کیلئے دو تین مزید گورے شریک ہوگئے۔ اس دن جب اطالوی لڑکے نے کرسی اٹھا کر انگریز نوجوان کے سر پر دے ماری اور دونوں کے منہ میں چار حرفی الفاظ کی مشین گنیں فراٹے سے چالو تھیں۔ اس دن جب سفید شرٹ پہنے ایک ہٹے کٹے مرد نے بچ کر بھاگتے نیلی شرٹ والے شخص کو ٹانگ اڑا کر منہ کے بل زور سے گرادیا تو میں سوچ رہا تھاکہ یہ محض ایک کھیل کی ہارجیت کا شاخسانہ ہے‘ اگر ان دونوں کے درمیان، مذہبی منافرت، نسلی تفریق، زمین پر جھگڑے اور ہتھیاروں میں ایک دوسرے پر برتری کے قضیے بھی شامل کر دئیے جائیں۔ ان کی سرحدیں کسی طرح آپس میں ملا دی جائیں۔ ان کا ایک دوسرے کی مٹی پر قدم رکھنا ناممکن بنا دیا جائے تب یہ ایک دوسرے کا کیا حشر کریں گے؟ میں نے ان کی تہذیب اور روایات کا اپنی دیسی تہذیب اور روایات سے موازنہ کیا تو دونوں ملک، دونوں تہذیبیں اور دونوں کے رہنے والے اچھے لگنے لگے۔ کیا بات تھی خیام الہند حضرت حیدر دہلوی کی۔ کیا مصرعہ کہہ گئے: ع
چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بودوباش اچھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved