''چیستان‘‘ Puzzle یا پہیلی کو کہتے ہیں، افغانستان کی صورتحال میں جو تبدیلی آ رہی ہے‘ وہ بھی ایک مُعَمَّا اور چیستان ہے۔ ایک صاحب جنہیں افغان امور پر بجا طور پر مہارت کا دعویٰ ہے‘ وہ افغانستان میں برسرِ زمین ہونے والی پیشرفت کو ''پراسرار‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ (نوٹ: ہمارے ہاں عام طور پر''معمہ ‘‘ لکھا جاتا ہے، یہ فارسی لفظ ہے اور اصل رسم الخط ''معما‘‘ ہے)۔ یہ حیرانی اس لیے ہے کہ جو کچھ رونما ہو رہا ہے، وہ عام اندازوں اور عقلِ عام کے خلاف ہے، مثلاً: چارج دینے اور لینے کی رسمی کارروائی کے بغیر رات کی تاریکی میں بگرام ایئر بیس سے امریکا کی رخصتی اور اس کے انخلا کے بعد وہاں لوٹ مار کے سلسلے کا جاری ہونا۔ یہ درست ہے کہ امریکا ناکامی کے تاثر کے ساتھ افغانستان سے رخصت ہو رہا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کی حربی طاقت نیست و نابود ہو گئی ہو۔
افغانستان پر امریکا بیس سال تک قابض رہا، کابل میں اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کے ہوتے ہوئے امریکا کی اس انداز سے رخصتی پر سوال اٹھنا بجا ہے۔ امریکا نے اپنا حساس اسلحہ بڑے بڑے آرمی ایئرکیریئرز کے ذریعے افغانستان سے واپس بھیج دیا ہے، ابھی یہ معلوم نہیں کہ امریکا کا اگلا مستقر کیا ہو گا، کچھ تیسرے درجے کا سامان وہ افغان فورسز کے لیے چھوڑے جا رہا ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق‘ امریکی افواج کچھ حساس فوجی سامان تلف کر کے جا رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنے جانشین افغان سیکورٹی اداروں اور حکومت پر پورا اعتماد نہیں ہے اور انہیں اندیشہ ہے کہ یہ حساس اسلحہ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو گا اورآخرکار طالبان کے ہاتھ لگ جائے گا۔ امریکا بخوبی جانتا ہے کہ اڑتالیس ممالک کی اتحادی افواج، تمام تر کروفر، جدید ترین ٹیکنالوجی، سامانِ حرب اور مہارت کے باوجود جب خود طالبان کو زیر نہ کر سکا، تو اُن کی جانشین افغان افواج انہیں زیادہ عرصے تک کیسے روک سکیں گی۔ عام توقع یہ تھی کہ امریکی انخلا کے ساتھ ساتھ یا انخلا کے بعد طالبان اپنا نفوذ پاکستانی سرحد سے متصل افغان اضلاع اور صوبوں سے کریں گے، کیونکہ ان علاقوں میں پشتون آبادی کا غلبہ ہے اور یہاں انہیں معتدبہ حمایت بھی حاصل ہے، لہٰذا انہیں زیادہ مزاحمت کا سامنا بھی نہ کرنا پڑتا۔ اس کے برعکس انہوں نے شمال مغرب کی جانب تاجکستان، چین، ازبکستان اور ایران کی سرحدوں کے ساتھ ملحق اضلاع میں تیز رفتاری سے پیش قدمی کی، انہیں کسی بھاری مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، حالانکہ بظاہر انہیں یہ اندیشہ لاحق ہونا چاہیے تھا کہ شمال مغربی اضلاع میں اُن کی مؤثر مزاحمت ہو سکتی ہے لیکن جب وہاں کوئی مؤثر مزاحمت نہیں ہوئی تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آگے کی منزل اُن کے لیے آسان ہو گی۔ اس بار ان کی حکمتِ عملی یہ معلوم ہو رہی ہے کہ حسنِ تدبیرکے ساتھ پیشرفت کی جائے تاکہ افغان سکیورٹی افواج اور سول انتظامیہ کے ساتھ اُن کی مزاحمت کم سے کم ہو اور جانی ومالی نقصان بھی زیادہ نہ ہو، کیونکہ زیادہ جانی نقصان کی صورت میں عالمی سطح پر اُن کو بدنام کیا جا سکے گا اور مہاجرین کا سیلاب بھی ہمسایہ ممالک کی طرف رخ کرے گا۔ تاحال اس حکمتِ عملی میں وہ کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ بظاہر اُن کی حکمتِ عملی یہ معلوم ہوتی ہے کہ صوبائی ہیڈکوارٹرز، جنہیں افغان اصطلاح میں ''ولایت‘‘ کہتے ہیں، کے اردگرد اضلاع پر قبضہ کر کے اُن کی رسد اور رابطوں کو منقطع کیا جائے تاکہ مقامی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز اپنے آپ کو محصور پا کر پُرامن طریقے سے سپر انداز ہو جائیں۔ افغانستان کے معروضی حالات سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ امریکی، نیٹو اور اُن کی اتحادی افواج کی ناکامی نے تحریک طالبان افغانستان کو بہت بڑا حوصلہ دیا ہے، اُن میں حد درجے کا اعتماد ہے اور مخالفین پر اُن کی دھاک اور ہیبت بھی چھائی ہوئی ہے اور اب تو امارتِ اسلامیہ افغانستان کے امیر کانام بھی ''ملا ھبۃ اللہ اخوندزادہ‘‘ہے، یعنی وہ اللہ کی عطا ہیں۔
جمعرات 8 جولائی کی صبح ٹیلی وژن پر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کا یہ بیان چل رہا تھا: ''ہمیں پڑوسی ممالک اور پاکستان سے تعاون مل رہا ہے اور ہمیں پاکستان سے مزید تعاون کی ضرورت ہے، کیونکہ افغانستان میں ہمارے مفادات مشترک ہیں‘‘، واللہ اعلم بالصواب۔ امریکیوں کی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے ساتھ کوئی رشتہ داری تو ہے نہیں، انہیں کابل میں ایسا اقتدار چاہیے کہ اُن کے مفادات محفوظ رہیں اور افغانستان میں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کا اگر وجود ہے، تو انہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دنیا میں کہیں بھی کارروائیوں کی چھوٹ نہ ملے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تحریک طالبان بیس برسوں پر مشتمل مزاحمت کے طویل عرصے میں کئی تجربات سے گزرے ہیں، بے بہا قربانیاں دی ہیں، انہوں نے یقینا اپنی خوبیوں اور خامیوں، قوت وضُعف اور حکمتِ عملی کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ جائزہ لیا ہوگا اور یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس بار اگر انہیں کابل میں اقتدار ملا تو اُن کا طرزِ حکومت ماضی سے یقینا مختلف ہو گا۔ عصری تعلیم اور طالبات کی تعلیم پر شاید وہ ماضی جیسی پابندیاں نہ لگائیں، نیز اندورنی و بیرونی ذرائع ابلاغ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں۔ دوحہ میں امریکا کے ساتھ ڈائیلاگ میں وہ اپنی مکالماتی مہارت کا سکہ جما چکے ہیں، کیونکہ مذاکرات کا کوئی فریق اگر عجلت میں ہو تو تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شاید اس پر کوئی دبائو ہے، لیکن طالبان مذاکرات کاروں نے بڑے تحمل اور اعتماد کے ساتھ معاہدے کو انجام تک پہنچایا۔ ان مذاکرات میں اُن کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ وہ امریکا کے روبرو بیٹھے اور امریکا نے انھیں اصل فریق مان لیا۔ کابل میں براجمان حکومت کو الگ تھلگ رکھنے سے یہ واضح پیغام چلا گیا کہ وہ سرے سے فریق ہی نہیں ہیں۔ یہی طالبان کا موقف تھا کہ ہم افغانستان میں مسندِ صدارت پر رونق افروز بے اختیار امریکی نمائندے سے مذاکرات کرنے کے بجائے اصل فیصلہ کن اتھارٹی سے گفتگو کریں گے۔
عید الفطر کے بعد ہمیں چند دوستوں کے ہمراہ ناران جانے کا اتفاق ہوا، ہم سرِ راہے گاڑی میں بیٹھے تھے کہ فیصل آباد کے چند نوجوان قریب آئے، وہ کافی پُرجوش نوجوان تھے۔ انہوں نے میرے برابر کھڑے ہوکر کورَس میں یہ اشعار پڑھے، اس منظر کو کئی ملین افراد نے سوشل میڈیا پر دیکھا:
نہ نظریں چرا کے جئے، نہ سر جھکا کے جئے
ستم گر کی نظروں سے نظریں ملا کے جئے
ہم اگر دو دن کم جئے، تو کوئی بات نہیں
ہم اُن کے ساتھ جئے، جو شمع جلا کے جئے
پس تاریخ میں سربلند و سرفراز شخصیات ہی کا نام وقار و افتخار کی علامت قرار پاتا ہے اور طاقت کے آگے سرنگوں ہونے والے ذلت وملامت کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ ہم بجا طور پر امریکا کی بیوفائی کا گلہ کرتے رہتے ہیں، مگر طالبان سے جو بے وفائی کی گئی، اس کا اعتراف نہیں کر پاتے۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو 2001ء میں پکڑ کر امریکا کے حوالے کر دیا گیا تھا، پھر وہ وقت آیا کہ وہی ملاضعیف گوانتاناموبے کے اذیت خانے سے گزر کر آج پھر طالبان رہنمائوں میں شامل ہے:
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
بگرام ایئر بیس کوئی عام قسم کا فوجی اڈا نہیں تھا، یہ ستّر مربع میل پر مشتمل امریکی ہیبت اور سطوت وشکوہ کا ایک شاہکار تھا۔ اس میں دس ہزار فوجی مقیم تھے، اس میں فضائی اور بری افواج کا جدید ترین سامانِ حرب، دنیا کے تباہ کن ایئرکرافٹ، ڈرونز، راکٹس اور بہت کچھ تھا۔ نیز امریکی ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کے لیے سوئمنگ پولز، مساج سنٹر اور عشرت کے سارے سامان تھے۔ تمام امریکی فرنچائز کی برانچیں وہاں موجود تھیں۔ ذرا سوچیے! رات کی تاریکی میں یہ اڈا خالی کرتے ہوئے امریکیوں کے دل و دماغ پر کیا گزری ہو گی، صدرِ امریکا جوبائیڈن فقط اتنا کہہ سکے: ''ہم نے سلامتی کے ساتھ منظم انداز میں انخلا کیا‘‘، یعنی ''جان بچی سو لاکھوں پائے‘‘۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
بندگانِ صحرائی تو سرِ دست باطل کے آگے سرنگوں ہیں، لیکن مردِ کہستانی پوری قامت کے ساتھ بے سرو سامانی کے عالَم میں باطل کے مقابل کھڑے ہیں۔ انہوں نے عہدِ حاضر میں مثالی عزیمت واستقامت کا مظاہرہ کیا بالآخر قدرت نے ان کی یاوری فرمائی اور وہ سربلندی و سرفرازی سے فیض یاب ہوئے۔ بائیڈن کی 27 منٹ پر مشتمل پریس کانفرنس امریکا کی بے بسی کی تصویر تھی، اُن سے جب سوال ہوا: ''آپ کابل میں مستحکم حکومت قائم کیے بغیر نکل آئے؟‘‘، انہوں نے کہا: ''اسامہ بن لادن کی موت کی صورت میں ہم اپنا ہدف 2011ء میں حاصل کر چکے تھے، منتشر افغانوں کو ایک قوم بنانا ہماری ذمہ داری نہیں ہے‘‘۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے: ''2 مئی 2011ء کو مقصد حاصل کرنے کے بعد آپ مزید دس سال افغانستان میں کیوں ٹھہرے، کیا کرتے رہے، اتنے طویل قیام کی قیمت کتنی ادا کی اور آخر اُس کا ماحصل کیا نکلا؟‘‘۔ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکی صدر بائیڈن نے اپنا تازہ ترین حریف چین کو قرار دیا ہے اور غالباً اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر وہ چین کا تجارتی، اقتصادی اور سیاسی محاصرہ کریں گے۔ بظاہر یہ ہدف بھی اتنا آسان نہیں ہے۔ سابق امریکی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے مشورہ دیا ہے: ''امریکا اور چین اپنے مسائل مذاکرات سے حل کریں، اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، سفارت کاری کے متبادل جو بھی حل ہو گا، وہ ان دونوں ممالک اور دنیا کے لیے تباہ کن ہوگا‘‘۔
ہمارے اہلسنّت کے لوگ اگر طالبانِ افغانستان یا افغانستان کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو انہیں برصغیر کی مسلکی خلافیات اور اپنے شعائر کے تناظر سے ہٹ کر حنفیت کی بنیاد پر ان کو سمجھنا ہو گا۔ اس کے نتیجے میں آپ کو افغانستان کی شمال مغربی سرحد سے ملحق ممالک ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان کو بھی سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ہماری فقہ وفتاویٰ کی کتابوں میں ''ماوراء النھر‘‘ کا حوالہ ملتا ہے، افغانستان کی سرحد پر دریائے آمو، جسے دریائے جیجوں بھی کہتے ہیں، کے اُس پار کا سارا علاقہ ماوراء النہر ہے، جو اب کئی ممالک پر مشتمل ہے۔