تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-07-2021

جتنی آساں اُسی قدر مشکل

زندگی کو چاہے کوئی بھی نام دیجیے‘ کسی بھی چیز سے مشابہ قرار دیجیے، ایک بات تو طے کہ کسی بھی مثال سے اُسے بیان کرنے کا حق ادا نہیں ہو پاتا۔ ہر انسان مرتے دم تک سوچتا ہی رہتا ہے کہ اُس نے جو کچھ بھی سوچا‘ وہ کیوں سوچا، جو کچھ بھی کیا‘ وہ کیوں کیا۔ سانسوں کا دریا کبھی کچھ دیر کے لیے رُکے تو انسان ایک طرف بیٹھ کر کچھ سوچے اور سمجھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کسی طور ممکن نہیں۔ سانسوں کے درمیان وقفے کا مطلب ہے موت۔ جب جان ہی نہ رہی تو کیسی سوچ اور کہاں کا تجزیہ۔ زندگی امتحان بھی لیتی ہے اور گریڈز بھی عطا کرتی ہے۔ جو زندگی کے امتحان میں کامیاب ہوئے وہی کامیاب ہوئے۔ ہاں! یہ طے کرنا بھی آسان نہیں کہ ہم کس طور زندگی کے امتحان میں کامیاب رہتے ہیں اور کب ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اس حقیقت کو کبھی نظر انداز نہ کیا جائے کہ جب زندگی امتحان لیتی ہے تب ہمارے لیے پنپنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ سب کچھ آسان چل رہا ہو تو معاملات مشکلات کی طرف لے جاتے ہیں۔ اصغرؔ گونڈوی کہتے ہیں ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
بحرانی کیفیت ہی انسان کو کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ اگر معاملات آسانی سے شروع ہوکر آسانی پر ختم ہوں تو انسان کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور اُن میں نکھار پیدا کرنے کی گنجائش کم ہی نکلتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بادِ مخالف ہی پتنگ کو زیادہ اونچا اڑاتی ہے ؎
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے
یہ سب کچھ ذہن کے پردے پر تب اُبھرا جب برونائی کے بارے میں ایک مضمون پڑھا۔ آصف خان کا یہ مضمون برونائی میں قدرے پوشیدہ مگر پنپتے ہوئے معاشی بحران سے متعلق تھا۔ برونائی جنوب مشرقی ایشیا کی ایک چھوٹی سی ریاست بلکہ سلطنت ہے۔ اس سلطنت کا مجموعی رقبہ 5765 مربع کلو میٹر اور آبادی 4 لاکھ 60 ہزار سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ اس سلطنت کا شمار دنیا کی خوش حال ترین ریاستوں میں ہوتا آیا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کی بدولت برونائی نے خوب کمایا۔ آمدنی غیر معمولی رہی اور آبادی کم‘ بہت ہی کم۔ برونائی کے سلطان دنیا کے امیر ترین فرد کی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ ان کی فیاضی کا بھی جواب نہیں۔ ملک میں تعلیم مفت ہے اور علاج کی سہولتیں بھی۔ اشیائے خور و نوش بہت سستی ہیں کیونکہ حکومت بہت بڑے پیمانے پر زرِ اعانت دیتی ہے۔ رہائش کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ لیکن اب دنیا بھر میں پٹرولیم سے ہونے والی آمدن میں رونما ہونے والی کمی اور کورونا وائرس کی وبا کے پھیلنے پر عالمی معیشت پر مرتب ہونے والے شدید منفی اثرات نے برونائی کو بھی نہیں بخشا۔ آمدن میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے اور لوگ خود کو اس تبدیلی سے ہم آہنگ کرنے میں ناکام ہیں۔
یہ ناکامی کیوں ہے؟ سیدھی سی بات ہے، لوگ آسانیوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ ملک کی آبادی اگرچہ کم ہے اور غیر معمولی پریشانی کا باعث نہیں مگر ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ خود کو حالات کے مطابق بدلنے کی طرف اب تک مائل نہیں ہوئے۔ ایک زمانے سے انہیں حکومت کی طرف سے سب کچھ بہت آسانی سے میسر رہا ہے۔ آج بھی بہت حد تک یہی کیفیت ہے۔ حکومت کے لیے البتہ مشکلات ضرور پیدا ہوئی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی برونائی میں ہوا کرتی تھی۔ اب وہ کیفیت نہیں رہی۔ عالمی معیشت میں پیدا ہونے والی خرابیوں نے برونائی کو بھی لپیٹ میں لیا ہے۔ بہت کچھ ہے جسے جاری رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔ پھر بھی حکومت کسی نہ کسی طور معیشت و معاشرت کی گاڑی کو دھکیل رہی ہے۔ برونائی کے عوام کو آسانیوں کی عادت پڑچکی ہے۔ حکومت نے انہیں خوب پالا ہے۔ بات بات پر زرِ اعانت کا دیا جانا عوام کو مشکلات سے دوچار کرگیا ہے۔ دنیا سمجھ رہی ہے کہ برونائی کے لوگ بہت خوش نصیب ہیں کہ انہیں سب کچھ حکومت کی مہربانی سے مل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی فیاضی نے عوام کو مشکلات سے لڑنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ وہ ہر معاملے میں آسانی کے عادی ہوچکے ہیں۔ ملک میں پٹرول اور ڈیزل چونکہ بہت سستا رہا ہے اس لیے اوسطاً ہر گھر میں تین گاڑیاں پائی جاتی رہی ہیں۔ حکومت نے عوام کو اعلیٰ معیارِ زندگی دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہ عمل قابلِ ستائش سہی مگر ایک غلطی ضرور ہوئی۔ عوام کو کسی بھی مشکل صورتِ حال کے لیے تیار کرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا۔
اب مسئلہ یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ حکومت کی آمدنی کم ہوتی جارہی ہے اور عوام کے اللّے تللّے وہیں کے وہیں ہیں۔ وہ اب بھی حکومت سے ہر معاملے میں زرِ اعانت کی توقع لگائے رہتے ہیں۔ حکومت کی فیاضی نے انہیں بہت حد تک ناکارہ بنا ڈالا ہے۔ مطلوبہ حیثیت کا حامل نہ ہونے پر بھی لوگ جدید ترین ٹیکنالوجی کے شاہکار خریدنے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ کم و بیش ہر باشندے کو آئی فون چاہیے۔ جس کی حیثیت اتنی مستحکم نہیں کہ آئی فون خرید سکے وہ بینکوں سے ادھار لے کر اپنا شوق پورا کرتا ہے۔ حکومت نے عوام کو بدلتی ہوئی دنیا سے ہم آہنگ کرنے کے بارے میں سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ اس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ معاملات الجھن سے شروع ہوکر الجھن پر ختم ہو رہے ہیں۔ لوگ ادھار کے بل پر جینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ رجحان نئی نسل نے مغرب میں تعلیم پانے کے دوران سیکھا ہے۔
برونائی ایک واضح کیس ہے جس سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب کسی ملک میں حکومت یا قیادت لوگوں کو بدلتی ہوئی دنیا سے ہم آہنگ رکھنے پر متوجہ نہیں ہوتی تب کیا ہوتا ہے، کیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ برونائی میں لوگ معاشی مشکلات کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اُن کی جنت یونہی بسی رہے گی، کبھی کوئی بحران سر اٹھائے گا ہی نہیں۔ ایسا کب ہوا ہے جو اب ہوتا! ہر فرد کی طرح ہر معاشرے اور ہر ریاست کو بھی مشکلات میں سے حصہ ملتا ہے۔ یہ بھی قدرت کا انتظام ہے۔ قدرت اِسی طور بحرانی کیفیت سے آشنا کرکے اُس سے نبرد آزما ہونے کا ہنر سکھاتی ہے اور جذبۂ عمل کو مہمیز دیتی ہے۔ کوئی ایک معاشرہ یا ملک قدرت کے اس امتحان یعنی بحرانی کیفیت سے محفوظ نہیں رہا۔ جو معاشرے خود کو بحرانوں سے مکمل طور پر محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ کسی بھی حقیقی امتحان کی گھڑی میں دیکھتے ہی دیکھتے ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ فطری طور پر ابھرنے والی بحرانی کیفیت ہی تو فرد اور معاشرے کو کچھ کرنے کی مہمیز دیتی ہے۔ زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے کی کوشش میں کوئی قباحت نہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آسانی کسی بھی قیمت پر یقینی بنائی جائے۔ آزمائش کے دور میں انسان پر اپنا وجود کھلتا ہے۔ ترقی اور خوش حالی اگر محنت کے نتیجے میں یقینی بنائی گئی ہو تو حقیقی سُکھ دیتی ہے۔ محض نصیب سے کچھ مل بھی جائے تو انسان کو زیادہ یا حقیقی سُکھ نہیں دیتا۔ بالکل آسان زندگی زیادہ مشکل ثابت ہوتی ہے۔ ہر معاملے میں آسانی انسان کو عجیب سی الجھنوں سے دوچار کرتی ہے۔ اللہ کی طرف سے ہمارے حصے میں لکھی جانے والی مشکلات کھانے میں نمک کی طرح ہوتی ہیں۔ یہ نہ ہوں تو زندگی پھیکی سی رہ جائے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مشکلات کو آگے بڑھ کر گلے لگایا جائے۔ ایسی ہر کوشش خرابی لاتی ہے۔ حالات کے بدلنے اور پلٹنے سے جو بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے اُس سے نبرد آزما ہونے کی صورت میں انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ زندگی کا حُسن اِسی بات میں ہے کہ ہم کسی بھی مشکل سے نظر چُرانے کے بجائے ڈٹ کر اُس کا سامنا کریں اور اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق بھرپور جذبۂ عمل کا مظاہرہ کریں۔
زندگی کو آسان بنانا ہم سب پر لازم ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے ہم دوسرا بہت کچھ داؤ پر لگادیں۔ جو کچھ ہو رہا ہو اُس پر صابر و شاکر رہتے ہوئے تگ و دَو کرنے ہی میں حقیقی آسانی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved