تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     16-07-2021

کشمیر: اِدھر انتخابی معرکہ، اُدھر تحریکِ مزاحم

اِن دنوں آزاد کشمیر کے چنار اور مرغزار شعلہ بیانی اور گل افشانی کی زد میں ہیں۔ انتخابی جلسوں سے خطاب کے دوران بلاول بھٹو زرداری اپنی دو دھاری تلوار کے کئی روز تک جلوے دکھاتے رہے۔ وہ اپنی تقاریر میں ایک طرف اپنی سیاسی حریف تحریک انصاف پر تو دوسری طرف ماضی قریب کی حلیف مسلم لیگ (ن) پر تابڑ توڑ حملے کرتے رہے۔ غالباً مسلم لیگ (ن) نے خوب سوچ سمجھ کر اور باہمی مشاورت سے انتخابی مہم کی کمان پارٹی کی نائب صدر مریم نواز کے سپرد کی ہے۔
مریم نواز اپنے زوردار بیانیے اور وزیراعظم عمران خان کے بارے میں جارحانہ خطابت کے کمالات دکھا رہی ہیں۔ وہ آزاد کشمیر کے جس انتخابی حلقے میں جاتی ہیں وہاں لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں۔ غالباً مریم نواز کے جوشِ خطابت کے توڑ کیلئے تحریک انصاف کے چیئرمین خود متحرک ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب کشمیر میں سردھڑ کی بازی لگانے والے جانباز کشمیریوں کو کوئی امید افزا پیغام بھیجتے ہیں یا نہیں۔ یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ خان صاحب کشمیر میں سردھڑ کی بازی لگانے والے برہان وانی کے لاکھوں بھائی بہنوں کو یہ بتا پاتے ہیں یا نہیں کہ ان کے دور میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جو جارحانہ اقدامات کیے ان کا پاکستان نے کیا توڑ کیا ہے؟
جناب عمران خان سے پہلے ان کے مقدمۃ الجیش کے طور پر پہنچنے والے نوجوان دستے میں علی امین گنڈاپور اور مراد سعید وغیرہ شامل ہیں۔ علی امین گنڈاپور نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر اور جونیئر قائدین کے بارے میں وہ زبان استعمال کی ہے جس کی کسی ذمہ دار شخص سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ وفاقی وزیر نے ناصرف جوشِ خطابت سے کام لیا بلکہ کھلم کھلا ووٹوں کی خریداری کے لیے انتخابی جلسے میں رقوم بھی تقسیم کیں۔ پیسے تقسیم کرتے ہوئے اُن کی ویڈیو کا چیف الیکشن کمشنر آزاد کشمیر جسٹس (ر) عبدالرشید سلہریا نے شدید نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی طرح کے دبائو کو خاطر میں لائے بغیر یہاں صاف شفاف الیکشن کروائیں گے۔ آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کے تیور یہی بتاتے ہیں کہ وہاں بھی پاکستان کے ضمنی انتخابات کی طرح دھاندلی سے پاک الیکشن منعقد ہو گا۔
ممتاز کشمیری رہنما اور آزاد کشمیر کی اسمبلی کے سابق رکن جناب رشید احمد ترابی نے مجھے دعوت دی کہ آزاد کشمیر آ کر بچشم خود انتخابی گہماگہمی اور سرگرمی کا مشاہدہ کروں۔ ترابی صاحب کی دعوت قبول کر کے میں نے اسلام آباد میں اپنے دیرینہ دوست قاضی شوکت صاحب سے بات کی تو انہوں نے کشمیر کی دعوت کو دو آتشہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ مجھے اپنا ہمسفر ہونے کا شرف بخشیں گے اور کشمیر کا پہاڑی سفر ان کی بڑی گاڑی میں طے ہو گا۔ ابھی ایک دو روز پہلے حکومتِ کشمیر نے اگلے دس روز کے لیے سیاحت پر پابندی عائد کر دی ہے کیونکہ کورونا ایک بار پھر سر اُٹھانے لگا ہے۔ اس پابندی کے بعد میں نے دل پر بھاری پتھر رکھ کر دونوں صاحبان سے معذرت کی اور کشمیر جانے کا ارادہ ترک کر دیا؛ تاہم میں آزاد کشمیر کے بہت سے دوستوں سے رابطے میں ہوں۔
جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے ترجمان راجہ ذاکر نے مجھے بتایا کہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے کل 45 حلقوں میں سے 31 سیٹوں پر انتخاب لڑ رہی ہے۔ راجہ صاحب کا کہنا ہے کہ جماعت انتخابی اکھاڑے میں بغیر کسی الائنس یا اتحاد کے، اپنے بل بوتے پر اُتر رہی ہے اور اس کا اپنا انتخابی نشان ہو گا۔ راجہ صاحب نے مزید کہا کہ رشید احمد ترابی کے مدِ مقابل ایل اے 15 وسطی باغ سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر تنویر الیاس ہوں گے۔ جماعت کے ترجمان کے بقول یہاں ترابی صاحب کی پہلی پوزیشن ہے۔ میں نے راجہ صاحب سے سوال کیا کہ آزاد کشمیر میں جماعت کو کتنی کامیابی کی امید ہے؟ اس سوال کا راجہ صاحب نے نہایت محتاط اور ڈپلومیٹک جواب دیا اور کہا کہ ایوان میں ہمارا مؤثر پارلیمانی گروپ ہو گا۔
اِن دنوں امیر جماعت اسلامی پاکستان آزاد کشمیر میں موجود ہیں۔ انتخابی جلسے جناب سراج الحق کی گھن گرج سے گونج رہے ہیں۔ انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے تقریباً 42 اور لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں تحریک انصاف کے امیدوار انتخابی اکھاڑے میں موجود ہیں۔ دونوں بڑی جماعتوں نے الیکٹ ایبلز کو ہی انتخابی ٹکٹ دیئے ہیں۔ اس بار جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نا صرف آزاد کشمیر بلکہ سارے پاکستان میں اپنے ہی پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے گی۔ اس لحاظ سے آزاد کشمیر کے الیکشن میں لٹمس ٹیسٹ ہو جائے گا کہ جماعت کی سولو فلائٹ کہاں تک کامیاب رہتی ہے۔
کشمیر کے اِس طرف نوع بہ نوع انتخابی ہنگامے برپا ہیں جبکہ کشمیر کے اُس طرف کشمیری جیلوں میں پابندِ سلاسل ہیں۔ اسی طرح ٹارچر سیلوں میں ہزاروں نوجوانوں اور بچوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں، اُن کے اہلِ خانہ کو اتنا بھی معلوم نہیں۔ کوئی دن خالی نہیں جاتا کہ جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیں کسی نہ کسی شہر یا گائوں میں تلاشی لینے کے بہانے کشمیری نوجوانوں کو موت کے گھاٹ نہ اُتارتی ہوں۔ اِدھر ایک ہم ہیں جو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا بیٹھے ہیں۔ ہم سب کشمیریوں کو بھلا چکے ہیں۔ بقول شاعر؎
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا
گزشتہ ماہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے ان لیڈروں کو دہلی میں بلایا تھا‘ جو بڑی حد تک حکومت کے وفادار ہیں تاکہ ان سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں کوئی بات چیت کی جائے۔ اس میٹنگ سے یہی تاثر ملتا تھا کہ مودی کو شاید احساس ہو گیا ہے کہ اس کے تمام تر ظالمانہ حربے اور ہتھکنڈے کشمیریوں کو جھکانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس میٹنگ میں بھی مقبوضہ کشمیر کی ایک سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بطورِ خاص سیاسی قیدیوں کا مسئلہ اٹھایا اور انہیں فوری طور پر رہا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
گزشتہ ہفتے کے روز ایک طویل خاموشی کے بعد آل پارٹیز حریت کانفرنس کے ایک گروپ کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے ایک بیان جاری کیا جس میں مسئلہ کشمیر کے فوری حل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ میر واعظ نے کہا کہ اگرچہ اس سال کے اوائل سے ہی لائن آف کنٹرول پر پاکستانی اور بھارتی فوجوں کے مابین سیز فائر معاہدے کی تجدید ہو گئی تھی‘ مگر ابھی تک کشمیر کے معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ میرِ واعظ نے تمام کشمیری سیاسی نظربندوں کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کیا ہے‘ جن میں یاسین ملک اور شبیر شاہ بھی شامل ہیں۔ یاسین ملک دل کے عارضے میں مبتلا ہیں۔
میرِ واعظ کے بیان کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ انڈیا کشمیر کی حدود میں کسی غیر کشمیری کو آباد کر کے ہماری آبادی گھٹانے کا خیال دل سے نکال دے‘ کشمیری اس بات پر سو فیصد متفق ہیں کہ وہ کسی غیرکشمیری گھس بیٹھیے کو برداشت نہیں کریں گے۔ میرِ واعظ نے یہ بھی کہا کہ کورونا کی پیدا کردہ ہلاکتوں سے بچنے کیلئے انڈیا کو مقبوضہ کشمیر میں نرمی کرنی چاہئے تھے مگر اس نے چھوٹی جیلوں سے لے کر ساری وادی پر مشتمل بڑی جیل میں سختی بڑھا دی ہے۔ یہ سراسر غیرانسانی رویہ ہے۔ اگرچہ میرواعظ جیسے جہاندیدہ کشمیری رہنما کا روئے سخن مودی کی طرف ہے مگر ساتھ ہی کوئی اور بھی اُن کا مخاطب ہے۔ جناب وزیراعظم کو چاہئے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران پاکستانی اپوزیشن پارٹیوں کو برا بھلا کہنے کے بجائے آزادیٔ کشمیر کا روڈمیپ پیش کریں۔ آزاد کشمیر کے ووٹروں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس پارٹی کو بڑھ چڑھ کر ووٹ دیں جس کے بارے میں انہیں یقین ہو کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے محصور کشمیریوں کو آزادی سے ہمکنار کرے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved