مخصوص جغرافیائی حالات کے جبر اور عالمی برادری کی سنگدلی کی وجہ سے ہماری قومی سیاست ہمیشہ دبائومیں رہی، اس لئے یہاں وہ سیاسی کلچر پروان نہیں چڑھ سکا جس میں کسی سویلین حکومت کو دوام ملتا یا منتخب سیاسی قیادت قومی امور پہ اپنی گرفت مضبوط کر پاتی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پچھلی پون صدی میں یہاں کوئی بھی سویلین حکومت کلیدی امور پر فیصلے کرنے میں پوری طرح خود مختار نہیں رہی، عوامی فلاح اور مملکت کی بقا سے جڑے تمام فیصلے پارلیمنٹ سے باہر ہوتے رہے بلکہ ملکی اور عالمی میڈیا میں بھی نہایت سائنسی طریقوں سے سیاستدانوں کے ناقابلِ بھروسا ہونے کے تاثر کو پختہ کیا گیا۔ دنیا بھر کی انسانی برادری کی اخلاقی حمایت سے محروم قومی قیادت ایسے طلسماتی پروپیگنڈا کا کوئی مؤثر توڑ پیش نہ کر سکی۔ خود فریبی کے اسی ماحول میں ہمارے اربابِ بست و کشاد آدھی مملکت گنوا بیٹھے لیکن یہ قوم سانحۂ بنگال کے ذمہ داروں کا تعین کر پائی نہ تلخ تجربات سے کوئی سبق سیکھ سکی۔ بدقسمتی سے حالات کی گرد سے نمودار ہونے والے ذوالفقارعلی بھٹو جیسے کرشماتی لیڈر نے بھی اپنی مقبولیت کو سقوطِ ڈھاکہ کے محرکات پہ پردہ ڈالنے اور اس گہری سازش کے عالمی کرداروں سے سودا بازی میں بروئے کار لانے میں عافیت تلاش کی۔ یہ بجا کہ بھٹو صاحب نے پاکستان کے انحطاط کے مظاہر سے نمٹنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس کے وجود کو مربوط رکھنے میں سنجیدہ نظر نہیں آئے۔ وہ مسلسل بولتے رہے لیکن اپنے کردار و عمل سے کوئی ایسی مثال قائم نہ کر سکے جس کے ذریعے اپنی دانش کو دوسروں تک منتقل کر پاتے حالانکہ وہ چاہتے تو باقی ماندہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور جمہوری روایات کو پختہ اساس فراہم کر سکتے تھے لیکن وہ بھی اپنی افتادِ طبع کے باعث صحیح راستہ پر چلنے کے خبط میں بھٹک گئے۔ ممکن ہے کہ اس وقت جنوبی ایشیا کا سیاسی ماحول اورعالمی تعلقات کی نزاکتیں جمہوری تقاضوں سے میل نہ کھاتی ہوں لیکن بہرحال وہ اس پوزیشن میں ضرور تھے کہ ایک ابھرتے ہوئے جمہوری تمدن کو مضبوط بنیادیں فراہم کر سکتے تھے، بعد میں ان کی موقع شناسی کی صلاحیت کے فطری نتائج نے ان کے فلسفۂ سیاست کو نگل لیا۔
گزشتہ بارہ تیرہ سالوں کے دوران ایک جمہوری طور پر منتخب گورنمنٹ سے اگلی حکومت میں نسبتاً پُرامن انتقالِ اقتدار کے باوجود پاکستانی سیاست سے پرویز مشرف کی طرزِ حکمرانی کے اثرات ختم نہیں کیے جا سکے، یہاں تک کہ پاکستان پیپلز پارٹی (2008 تا 2013) اور پاکستان مسلم لیگ نواز (2013 تا 2018) کی جمہوری حکومتیں بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ تلے کراہتی نظر آئیں۔ اگرچہ بظاہر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام اور برطانیہ میں مقیم سابق وزیر اعظم کو بیٹے سے تنخواہ لینے کے جرم میں نااہلی کا مزہ چکھایا گیا لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ایک کو اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں امریکی میرینز کے ہاتھوں ہلاکت پہ سوال اٹھانے اور دوسرے کو ڈان لیکس جیسی مبینہ جسارت لے ڈوبی ہو؛ تاہم میاں نوازشریف گردش حالات کے ہاتھوں بار بار زخم کھانے کے باوجود اپنے تیسرے عہد حکمرانی میں بھی روایتی قوتوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش سے باز نہ آئے تو 2018ء کے عام انتخابات میں پسِ چلمن حلقوں نے ایک بار پھر اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے قومی سیاست کی تطہیر کا بیڑا اٹھا لیا۔ ان حلقوں کا خیال تھا کہ اگر وہ آزادانہ سوچ رکھنے والے میاں نوازشریف کو سیاست سے آئوٹ کرنے کے علاوہ مرکزی دھارے کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کو سندھ میں اپنی روایتی اساس تک محدود کردیں تو اپنی کی مرضی کے برعکس پالیسیوں پر اصرارکرنے والے سویلین سیاستدانوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ تمام اندازے غلط ثابت ہوئے کیونکہ ان اقدامات سے نہ صرف ملک بھر میں نوازلیگ کے مزاحمتی بیانیے کو مقبولیت ملی بلکہ افغانستان میں امریکی شکست کے مضمرات سویلین بالادستی کی تحریک کو عالمی برادری کیلئے بھی قابلِ قبول بنا گئے ہیں۔ مغربی میڈیا میں اب ایک ایسے پاکستان کے خدو خال نمایاں کئے جا رہے ہیں جس میں غیر منتخب قوتوں کا کردار اضافی نظرآتا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں ''ہائبرڈحکمرانی‘‘ کا جو خاکہ تیار کیا گیا، اُس میں انتخابی طور پر ایک کمزور حکومت تشکیل دی گئی جسے اسمبلی میں آرام دہ اکثریت میسر نہیں۔ ایک واضح طور پہ سویلین چہرہ رکھنے والی حکومت ملک کے بے شمار مسائل کے حل میں ناکامی کا الزام تو اپنے سر لیتی ہے لیکن وہ فیصلہ سازی کے عمل سے لاتعلق اور حکومت چلانے کا جزوی استحقاق بھی نہیں رکھتی، اس پہ مستزاد یہ کہ اس وقت خلافِ معمول بیرونی امداد کی بندش اور عالمی مالیاتی اداروں کی محدود ہوتی معاونت حکومتی منشور پہ عمل درآمدکی راہ میں حائل ہے؛ تاہم کورونا وبا کے تدارک کیلئے بار بار کے لاک ڈائون اور مہمل سے ایس او پیز کے نفاذ نے بھی حکومتی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ شایدکووڈ کی چوتھی لہر کے ایس او پیز، پی ٹی آئی حکومت کا واٹرلو ثابت ہوں گے؛ چنانچہ ایک پیج کے تجربے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے۔
گورننس کی ناکامیوں کی کوکھ سے پی ایم ڈی جیسی وہ مزاحمتی تحریک نمودار ہوئی جو سایوں کا تعاقب کرنے کے بجائے براہِ راست طاقت کے مراکز پہ حملہ زن ہو رہی ہے، اسی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے نواز شریف نے براہ راست حملہ شروع کرکے پہلی بار پنجاب کو نامطلوب سیاسی کشمکش کا میدان کارزار بنا دیا لیکن سیاسی قوتوں سے سمجھوتا نہ کرنے والے عمران خان صاحب متحد حزب اختلاف کی یلغار سے خود کو بچانے میں ناکام رہے ہیں، ہرچند کہ محاذ آرائی پی ٹی آئی کے سیاسی ڈی این اے میں شامل تھی‘ حکمراں جماعت کی اصل طاقت‘ جب وہ حزبِ اختلاف کا حصہ تھی اور اب اقتدار میں بھی‘ نواز لیگ کے ساتھ محاذآرائی میں پوشیدہ تھی لیکن اب وہ اپنے اہداف کے تعین میں کنفیوز ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی سیاسی شناخت کو بدعنوانی، اقربا پروری اورقومی دھارے کی موروثی سیاست کے خلاف لڑنے والے ناقابل تسخیر جنگجو کے طور پہ نمایاں کیا، جب وہ حزبِ اختلاف میں تھے تو ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے بنیادی اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کریں گے لیکن وقت کے ساتھ ان کے الفاظ کی تکرار روح و معنی سے خالی ہوتی گئی۔ لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ان کے سیاسی ایجنڈے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کومسخر کرنے کے بجائے ملکی سیاست سے مکمل طور پر آئوٹ کر دینے کا مقصد ان کے اپنے اصولی موقف کی تردید کرتا ہے لیکن اب انہی پیش پا افتادہ جماعتوں کی مزاحمتی حکمت عملی تحریک انصاف کے لئے سب سے بڑا جال ثابت ہوئی ہے۔ بسا اوقات تقدیرظاہری طور پہ غیر مربوط واقعات کی مدد سے کرداروں کو آگے بڑھاتی جاتی ہے اور ان کی مرضی کے بغیر انہیں ان دیکھے گڑھے میں پھنسا دیتی ہے۔ علی ہٰذا القیاس، اپنے اقتدار کے ابتدائی تین سال گزار لینے کے باوجود تحریک انصاف حزبِ اختلاف سے ورکنگ ریلشن شپ بنا سکی نہ ہی داخلی اور خارجہ پالیسی جیسے سنجیدہ معاملات پر عقلی فیصلے کرنے کے لئے ابھی تک کوئی ادارہ جاتی میکنزم تشکیل دینے میں کامیاب ہو پائی ہے۔ پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف اور حکومت کے مابین تلخ تعلقات کی وجہ سے قانون سازی جیسے اہم معاملات آرڈیننس تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ ایک نیا سیاسی تمدن ہے جو پاکستانی جمہوریت کے لیے انتہائی غیر صحت بخش تجربہ ثابت ہو گا۔ جیسے ہی پارلیمنٹ میں بحث مباحثہ کی گنجائش کم ہوئی، پی ٹی آئی حکومت اپوزیشن کو سیاسی منظر نامے سے دور دھکیلنے کی کوشش میں سرگرداں ہو گئی، اس سے تو موجودہ حکومت ضیا گورنمنٹ کی توسیع نظر آتی ہے۔