تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-07-2021

آپ ماشاء اللہ خود سمجھدار ہیں!

بعض لوگ بہت ہی مثبت سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ انہیں گاڑھی اردو میں ''رجائی‘‘کہتے ہیں۔ انگریزی میں ایسے شخص کے لیے Optimistic کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہمہ وقت کسی تصویر کے تاریک رخ کو ہی دیکھتے رہنے والے کو ''قنوطی‘‘ یعنی Pessimistic کہتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ دنیا میں ہر طرف ہرا ہرا نہیں‘ لیکن معاملات اتنے بھی خراب نہیں کہ پورے دن میں کسی ایک بات پر بھی خوش نہ ہوں، کسی چیز کی داد نہ دیں اور ہمہ وقت منہ بسورے، شکل پر بارہ بجاتے ہوئے گلے شکوے میں لگے رہیں۔ اگر کوشش کی جائے تو بری سے بری اور خراب سے خراب شے میں بھی کوئی نہ کوئی خوبی تلاش کی جا سکتی ہے۔
ہمارے ایک دوست جب کوئی بہت ہی بری غزل سنتے یا پڑھتے ہیں تو اس کا مقطع پڑھ یا سن کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ اگر مشاعرے میں خود موجود ہوں تو مقطع سن کر خوشی سے بے حال ہو جاتے ہیں، داد دے دے کر گلا بٹھا لیتے ہیں اور تالیاں پیٹ پیٹ کر ہاتھ لال کر لیتے ہیں۔ ان کی اس بدذوقی اور شعر ناشناسی پر ان کو شرمندہ کرنے کی غرض سے ایک دن عرض کیاکہ صاحب! آپ نہ صرف نہایت ہی عامیانہ، بے وزن اور نامعقول قسم کی غزل نہایت ہی صبروحوصلے سے سنتے ہیں بلکہ اس کے مقطعے پر باقاعدہ داد کے ڈونگرے برسانے پر آجاتے ہیں اور غزل کے آخری شعر پر اس زوروشور اور گرمجوشی سے داد دیتے ہیں کہ ہمیں شک گزرتا ہے کہ آپ کو اچھے برے شعر کی پہچان ہی نہیں ہے۔ وہ صاحب مسکرائے اور کہنے لگے: دراصل آپ کو ایک نہایت ہی باریک بات کا علم نہیں ہے۔ حیرانی سے پوچھا کہ وہ باریک بات کیا ہے جس کا انہیں علم ہے اور وہ اس باریک بات کی بنیاد پر نہایت بودے قسم کے اشعار کو برداشت کرتے ہیں اور بالکل اسی نوعیت کے فارغ سے مقطع پر داد دے کر بے حال ہوجاتے ہیں۔
وہ کہنے لگے: وہ باریک بات یہ ہے کہ ہر اچھی غزل میں ایک شعر بہت خراب اور نامعقول ہوتا ہے اور ہر خراب غزل میں ایک شعر بہت اچھا ہوتا ہے بلکہ ایسی غزل جتنی خراب اور واہیات ہوگی اس کا یہ شعر اتنا ہی شاندار اور خوش کن ہوگا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اپنے اس دوست کی یہ منطق بالکل بھی پلے نہ پڑی کہ آخر ہر اچھی غزل میں ایک شعر شرطیہ خراب اور ہر واہیات اور فضول غزل میں ایک شعر لازماً عمدہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مزید وضاحت مانگی تو فرمانے لگے: دراصل یہ شعر مقطع ہوتا ہے‘ یعنی ہر اچھی، بہترین اور شاندار غزل کا مقطع بہت ہی فضول شعر ہوتا ہے اور ہر بے وزن، عامیانہ، نامعقول اور واہیات غزل کا مقطع نہایت ہی خوش کن، شاندار اور لاجواب ہوتا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اپنے اس دوست کی یہ بات میرے پلے نہیں پڑ رہی تھی۔ میں نے تنگ آکر اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہاکہ براہ کرم مجھے مزید پریشان اور کنفیوز کرنے کے بجائے اگر اپنی اس بات کی وضاحت کردیں تو بندہ آپ کا شکر گزار رہے گا۔ وہ دوست مسکرایا اور کہنے لگا: دراصل مقطع غزل کا آخری شعر ہوتا ہے‘ جب کسی شاندار اور لاجواب غزل کا مقطع آتا ہے تو دل افسردہ ہو جاتا ہے کہ اب اس عمدہ غزل کا اختتام ہوگیا ہے‘ لہٰذا اچھی غزل کا مقطع کم از کم مجھے تو کبھی اچھا نہیں لگتا۔ یہ کسی اچھی غزل کے اختتام کا اعلان ہوتا ہے اور اسی لیے برا لگتا ہے۔ اس کے برعکس کسی فضول، واہیات اور نکمی غزل کا مقطع اس بات کی خوشخبری ہوتی ہے کہ طبیعت کو مکدّرکردینے والی اور شاعرانہ ذوق کو برباد کر دینے پر تلی ہوئی یہ فضول غزل اختتام پذیر ہو رہی ہے۔ سو میں اس غزل کے مقطع کو اپنی رہائی کا اعلان تصور کرتا ہوں‘ اس واہیات غزل سے جان چھوٹنے کی خوشخبری جانتا ہوں اور اس فرحت کا اظہار مقطع پر داد کی صورت میں کرتا ہوں۔
وہ دوست بتانے لگا کہ ایک بار اسے امجد اسلام امجد صاحب نے کراچی کے ایک مشاعرے کا حال سناتے ہوئے بڑا مزیدار واقعہ بیان کیا۔ مشاعرہ بڑے زوروشور سے جاری تھا‘ اور صاحب ذوق مجمع ہر شاعر کو اس کے اشعار پر حسب استطاعت داد یا بے داد سے نواز رہا تھا۔ نکیلے اشعار پر داد کا سلسلہ چل رہا اور پھسپھسے اشعار پر مجمع خاموش رہ کر اشعار کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر رہا تھا۔ اس دوران ایک بزرگ شاعر تشریف لائے اور غزل سنانی شروع کر دی۔ امجد اسلام امجد صاحب نے تو ان بزرگ شاعر کا نام بتایا تھا مگر ہمارے دوست کے ذہن سے وہ نام نکل چکا تھا۔ کہنے لگے: بزرگ شاعر نے آکر مطلع عرض کیا‘ یعنی پہلا شعر پڑھا۔ مجمع خاموش رہا۔ دوسرا شعر پڑھا۔ مجمع سے کسی قسم کا کوئی ردعمل نہ آیا۔ اس شاعر نے تیسرا شعر پڑھا مگر حالات جوں کے توں رہے۔ شاعر نے ثابت قدمی سے کام لیتے ہوئے چوتھے شعر کا پہلا مصرعہ پڑھا مگر مجمع بھی گویا خاموش رہنے کی قسم کھائے بیٹھا تھا۔ چوتھے شعر کے پہلے مصرعے پر بھی مجمعے کے خاموش رہنے پر اس شاعر نے اپنی ہاتھ میں پکڑی ہوئی غزل کو تہہ کرکے جیب میں رکھا اور کہنے لگا: حضور! اب اجازت چاہوں گا‘ میری غزل کے بقیہ اشعار بھی اسی طرح کے ہیں۔
اسی رجائی پن سے یاد آیا بعض اوقات کتابوں پر ہونے والے تبصرے بڑا لطف دیتے ہیں‘ مثلاً ایک جگہ مرحوم مشفق خواجہ نے لکھا کہ یہ کتاب ایسی نہیں کہ اسے پڑھ کر آپ ایک طرف رکھ دیں‘ اسے اٹھا کر بہت دور پھینکنے کو دل کرتا ہے۔ اسی طرح ایک اور کتاب کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس کتاب کا ہر باب دوسرے باب سے جڑا ہوا ہے لیکن یہ مصنف کا نہیں، جلد ساز کا کمال ہے؛ تاہم مشفق خواجہ کے درج بالا ان دو نکیلے اور کٹیلے جملوں سے قطع نظر بعض لوگ خراب سے خراب کتاب کے اندر سے بھی کوئی ایسی خوبی تلاش کر لیتے ہیں جسے تلاش کرنا ہما شما کا کام نہیں‘ مثلاً ایک صاحب نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ زیر نظر کتاب کی شاعری کا میعار نہ صرف یہ کہ نہایت گھٹیا ہے بلکہ شاعر کے خیالات بھی بہت ہی عامیانہ ہیں۔ مضامین نہایت فضول ہیں اور اتنے گھسے پٹے کہ شاعری میں تازگی تو رہی ایک طرف باقاعدہ بساند سی محسوس ہوتی ہے۔ یوں سمجھیں گویا پھپھوندی لگی شاعری ہے۔ ایک ایک غزل میں تین تین چار چار بحریں استعمال ہوئی ہیں بلکہ اکثر اشعار تو اس تکلف سے سرے سے ہی آزاد ہیں۔ فنی اسقام اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو شمار کرنے کی سعی کرنا بھی کار لاحاصل ہے۔ مجموعی طور پر کتاب ایسی ہے کہ اس کی اشاعت کی ایک بھی معقول وجہ نظر نہیں آتی اور اس کتاب کو پڑھنے کی کوشش وقت کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ خاص طور پر اس کی قیمت کو مدنظر رکھیں تو کتاب کو پڑھتے ہوئے کلیجہ پھٹنے کو آ جاتا ہے‘ لیکن ان باتوں کے قطع نظر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کتاب میں ایک چیز ایسی ہے جس کی تعریف نہ کرنا از حد زیادتی ہوگی اور وہ اس کتاب کی کمپوزنگ کے دوران استعمال کیا جانے والا موٹا فونٹ ہے جو کمزور نظر والے قارئین کیلئے پڑھنے میں نہایت سہولت کا باعث ہے۔
قارئین! درج بالا دو تین مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر انسان کوشش کرے تو خراب سے خراب صورتحال کے اندر سے بھی کوئی نہ کوئی اچھی اور خوش کن بات نکالی جا سکتی ہے۔ جب ہمہ وقت رونے پیٹنے سے کوئی نتیجہ نہ نکل رہا ہو تو کم از کم اس بری سچوایشن سے تسلیٔ قلب کے لیے کوئی نہ کوئی چیز نکالنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ میں یہ کوشش کرتا رہتا ہوں، آپ بھی کیجیے۔ جب رونے پیٹنے سے سوائے گلا بیٹھنے کے کچھ حاصل نہ تو کسی بہانے سے دل کو خوش کرنے کی کوشش کیا کریں۔ میرا خیال ہے آپ میرا مقصد سمجھ تو گئے ہوں گے ؟ آپ ماشاء اللہ خاصے سمجھدار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved