تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     17-07-2021

آزاد جموں و کشمیر کی انتخابی سیاست

آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 25 جولائی کو ہو رہے ہیں اور آزاد جموں و کشمیر الیکشن کمیشن کی نرمی کے سبب انتخابی مہم گالی گلوچ کے آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ 1950ء سے 1973ء تک ایک دور ایسا رہا جب چودھری غلام عبا س کی ''کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس‘‘، کے ایچ خورشید کی ''جموں کشمیر لبریشن لیگ‘‘ اور چوہدری محمد حسین کی ''آزاد مسلم کانفرنس‘‘ ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتی تھیں۔ ان کے لیڈر تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اپنے اپنے سنجیدہ منشور پیش کرتے، علامہ عنایت اللہ مشرقی کی خاکسار تحریک سیز فائر لائن توڑنے کی تحریک چلاتی، چوہدری غلام عباس بھی سیزفائر لائن کراس کرنے کے لیے کشمیری عوام کے جذبات بھڑکاتے اور سردار عبدالقیوم خان سری نگر جانے کا اعلان جاری کرتے ۔ یہ رہنما مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ہونے والے مظالم کی تفصیلات بتاتے تھے اور آزاد کشمیر کے عوام کو ان کی مدد کے لیے پکارتے تھے۔ اسی طرح کشمیری قیادت مخالف امیدواروں کی کمزوریوں کا ذکر کرتی۔
راؤ عبدالرشید خان پاکستان کی پولیس سروس میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ بتایا تھاکہ جب وہ 1956ء میں آزاد جموں و کشمیر کے انسپکٹر جنرل پولیس تھے تو انہی دنوں سردار عبدالقیوم خان نے صدر اسکندر مرزا کی ایما پر یومِ شہدائے کشمیر (13 جولائی) کے حوالے سے سیزفائر لائن کو کراس کرنے کے لیے احتجاجی کال دیتے ہوئے ایک لاکھ افراد کو مظفرآباد پہنچنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ مبینہ طور پر دراصل اسکندر مرزا اس افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی لگانا چاہتے تھے اور خان عبدالقیوم خان کی سیاسی قوت کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔ بقول راؤ عبدالرشید خان‘ انہوں نے صدرا سکندر مرزا کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے چوہدری غلام عباس کی خدمات حاصل کیں اور انہوں نے اس احتجاجی تحریک سے لاتعلقی کا اعلان کر کے سردار عبدالقیوم خان کو آگے بڑھنے نہیں دیا اور انتظامیہ نے سردار عبدالقیوم خان کو گرفتار کر لیا۔ کشمیریوںکی بدقسمتی کہ ان کوصحیح قیادت میسر نہ آ سکی۔ کے ایچ خورشید، سردار ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان اور سردار سکندر حیات آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں نمایاں کردار ادا نہ کر سکے اور مرکزی حکومت کی پالیسیوں سے آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں کئی لابسٹ متحرک ہو گئے۔ جولائی 1972ء میں شملہ معاہدہ کے بعد خاموشی سے تبدیل کر کے سیز فائر لائن کی جگہ لائن آف کنٹرول کے فارمولے کو تسلیم کر کے آزاد جموں و کشمیر کی حقیقی روح کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا اور شملہ معاہدہ کے فوراً بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آزاد کشمیر میں پہلی مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور مسلم لیگ کنونشن کے آفس سیکرٹری شیخ منظر مسعود کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ اسی تناظر میں چوہدری محمد حسین کو آگے لایا گیا۔
سردار عبدالقیوم خان نے آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو داخل کرنے کی شدید مخالفت کی تو ان کو گرفتار کر کے دولائی جیل بھجوا دیا گیا۔ عبدالقیوم خان کو وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا اور مسلم کانفرنس کے دفاتر منجمد کر دیے گئے۔ اس سیاسی جنگ میں آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں مثبت نتائج حاصل کرنے کیلئے شملہ معاہدہ کے مطابق ایک انتخابی فارمولہ ترتیب دیا گیا اور کامیابی اسی پارٹی کو نصیب ہونے لگی جوپاکستان میں برسرِ اقتدار ہو۔ علاوہ ازیں امیدوار کی ذات برادری کو اولیت دی گئی۔ مبینہ طورپر ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدہ کی خفیہ شق کے مطابق آزاد کشمیر کو پانچواں صوبہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا جسے سردار عبدالقیوم خان نے ناکام بنا دیا تھا۔اس طرح 1972ء کے بعد آزاد جموں و کشمیر کی سیاست کا رُخ بدل گیا اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی آزاد کشمیر میں اپنی شاخیں قائم کر کے آزاد جموں و کشمیر میں جذبہ حریت کے نصب العین والی سیاست کے بجائے پاکستانی سیاست کا بازار گرم کر دیا۔
یہ بھی خدشہ ہے کہ 25جولائی کو ہونے والے انتخابات میں الیکشن کمیشن اہم کردار ادا کرنے میں ناکام رہے گا کیونکہ مبینہ طور پر چیف الیکشن کمیشن آزاد جموں و کشمیر کے ریاستی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں اور ان کے چیف سیکرٹری سے بھی خوشگوار تعلق نظر نہیں آتا۔ اس کی جھلک یوں نظر آئی جب وفاقی وزیر برائے ناردرن ایریا کھلم کھلا رقوم تقسیم کر رہے تھے تو سٹیج پر پولیس حکام اور ڈپٹی کمشنر بھی موجود تھے، لیکن کوئی خاص کارروائی نہ کی جا سکی۔ قانونی طور پر چیف الیکشن کمشنر آزاد جموں و کشمیر کو انہیں فوری طور پر الیکشن مہم سے علیحدہ کرنا چاہیے تھا اور وزیراعظم پاکستان کو خط لکھنے کے بجائے آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم کو ہدایت دینی چاہیے تھی کہ علی امین گنڈاپور کو ریاست بدر کیا جائے۔ اگرجموں و کشمیر کی عدلیہ ان کو سزا دے دیتی تو اس فیصلہ کی روشنی میں ان کو قومی اسمبلی کی نشست سے نااہل کرانے کا ریفرنس پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر کو بھجوایا جاسکتا تھا۔میری تجویز ہے کہ حالیہ الیکشن کے انعقاد کے بعد قانون ساز اسمبلی ایسا بل منظور کرے جس کے تحت پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر آزاد جموں و کشمیر میں اپنے دفاتر قائم کرنے اور الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی جائے۔ یہ سیاسی بدعت ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں شروع کی تھی۔ آزاد جموں و کشمیر میں حقیقی معنوں میں کشمیری قیادت کی ہی سیاسی جماعتیں کشمیری عوام کے عظیم تر مفادات اور مدد کیلئے آگے بڑھنی چاہئیں۔
یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے حکم پر ریٹائرڈ ججز اور بیوروکریٹس کا پروٹوکول ختم کر کے ان سے سکیورٹی پروٹوکول بتدریج واپس لیا جائے گا۔ وفاقی وزرا، وزرائے مملکت اور گورنروں کے علاوہ سابق حکمرانوں کو بھی پروٹوکول سے ہاتھ دھونے پڑیں گے جبکہ عوام کو زحمت سے بچانے کے لیے وزیر اعظم خود بھی سکیورٹی اور پروٹوکول کے ہمراہ کسی تقریب میں نہیں جائیں گے۔ مگر وزیراعظم صاحب کی خواہشات ٹویٹ کے ذریعے جاری کی جاتی ہے جو سرکاری رولز آف بزنس کے تحت محض مشاورت کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر ٹویٹ کے ذریعے ہی احکامات دیے جائیں تو بیوروکریسی اس پرعمل کرانے کی پابند نہیں‘ جب تک کیبنٹ ڈویژن کی طرف سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جاتا۔ مذکورہ انتظامات کو وقت کے تقاضوں کے مطابق حقیقت پسندانہ بنانا یقینا ملکی ضرورت ہے۔ اسی طرح کے احکامات 1975ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی جاری کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے بھی وزراء کو پابند کیا تھا کہ وہ سرکاری طور پر ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر آنے سے پہلے کیبنٹ سیکرٹری سے اجازت حاصل کریں۔ انہوں نے گاڑیوں پر قومی پرچم لگانے کی بھی مخالفت کر دی گئی تھی اور سکیورٹی بھی واپس لے لی گئی تھی۔ اس کے برعکس وزیراعظم عمران خان نے سادگی کی ابتدا اپنی ذات سے کی اور وزیراعظم آفس کے اخراجات میں کمی کرنے کے علاوہ نجی و سماجی مصروفیات بھی انتہائی کم د یں لیکن ان کے جذبے کو وفاقی وزرا نے اپنے طور پر نہیں اپنایا اور منتخب نمائندوں نے اپنی شان و شوکت کا عوام میں اظہار کرنے کے لیے مقامی پولیس سے ازخود معاملات طے کر لیے۔ وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کے لیے وزیراعظم کو براہ راست قدم اٹھانا ہوگا۔ ٹویٹ کے ذریعے اپنے احکامات سے ان کی خواہشات کو بیوروکریسی ہوا میں اُڑا دے گی۔ وزیراعظم کو آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اور اپنے ارکانِ اسمبلی کے حلقوں میں دفاتر قائم کر کے عوام سے رابطہ رکھنے کا جمہوری طریقہ اپنانے کیلئے کینیڈا کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جہاں ارکان پارلیمنٹ کا اپنے اپنے حلقوں میں ہفتہ وار جانا لازمی ہے ۔ بھارت اور سری لنکا میں بھی یہی روایت چلی آ رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے سابق بیوروکریٹس کی فہرست جاری کی جائے جن کو سکیورٹی پروٹوکول مہیا کیا جاتا ہے تاکہ قوم اپنے قیمتی ہیروں کے چہروں سے شناسائی حاصل کر سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved