تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     17-07-2021

افغانستان میں بغلیں جھانکتا بھارت

چند ہفتے پہلے تک ایسے لگ رہا تھا کہ افغانستان میں بھارتی سفارتخانے اور قونصل خانے کو کوئی خطرہ نہیں لیکن قندھار کا سفارت خانہ گزشتہ ہفتے خالی کرنا پڑ گیا۔ تقریباً 50 اہلکاروں اور کچھ پولیس والوں کو آناً فاناً جہاز میں بٹھا کر نئی دہلی لے جایا گیا۔ ویسے کابل‘ بلخ اور مزارِ شریف میں بھارتی سفارتکار ابھی تک ٹکے ہوئے ہیں لیکن تعجب کی بات نہیں کہ وہ سفارتخانے بھی طالبان کے گھیرے میں جلد ہی چلے جائیں۔ جو تازہ خبریں آ رہی ہیں ان سے تو ایسے لگتا ہے کہ افغانستان کے شمالی اور مغربی ضلعوں میں طالبان کا قبضہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک خبر یہ بھی تھی کہ طالبان حملے کا مقابلہ کرنے کے بجائے تقریباً ایک ہزار افغان فوجی تاجکستان کی سرحد کے پار جاکر چھپ گئے۔ روس کے دورے کے موقع پر طالبان کے وفد نے اعلان کیا تھا کہ 85 فیصد علاقے پر طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے جبکہ صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغان فوج اور پولیس طالبان کو پیچھے دھکیلتی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان کے مختلف ضلعوں میں روز تقریباً 200 سے 600 لوگ مارے جا رہے ہیں۔ یہ خانہ جنگی کی حالت نہیں ہے تو کیا ہے؟ جو چین پاکستان کا اچھا دوست ہے اور طالبان کا حامی ہے وہ بھی اتنا گھبرایا ہوا ہے کہ اس نے اپنے تقریباً 200 شہریوں سے کابل خالی کروا لیا ہے۔ چین ان برے حالات کا دوش امریکہ کے سر مڑھ رہا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ کابل میں پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے دنیا بھر کے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ افغان حکومت کی مدد کریں ورنہ لاکھوں پناہ گزین پاکستان میں داخل ہو جائیں گے۔ طالبان کے اس دعوے پر شک کیا جا سکتا ہے کہ 85 فیصد افغان علاقے پر ان کا قبضہ ہو گیا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ انہوں نے ایران کی سرحد پر واقع شہر اسلام قلعہ اور واخان کی پٹی سے جڑے افغان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان رہنماؤں نے چین کو یقین دلایا ہے کہ وہ سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کو نہیں بھڑکائیں گے اور ان کی سرکار چینی اقتصادی مدد کو بخوشی قبول کرے گی۔ یہ باتیں برسر اقتدار طاقت کے تحمل اور توازن کو ظاہر کرتی ہیں۔ افغان خانہ جنگی کا اگرچہ منفی اثر پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک پر پڑ سکتا ہے مگر فی الحال افغان صورتحال میں بھارت ہی بغلیں جھانک رہا ہے۔
سو سال میں چین کتنا بدلا؟
چینی کمیونسٹ پارٹی کو بنے سو سال پورے ہو چکے ہیں۔ اپنے تقریباً ساڑھے 9 کروڑ ارکان کے ساتھ وہ حقیقت میں دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور سب سے مضبوط پارٹی بھی۔ بھاجپا اپنے 12 کروڑ ارکان کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس کے نیتائوں کو پتہ ہے کہ جس دن ان کے نیچے سے کرسی کھسکی تو 12 میں سے دو کروڑ کو بھی بچانا مشکل ہو جائے گا۔ اس سال چینی پارٹی کی ممبرشپ کے لئے دو کروڑ عرضیاں آئیں لیکن ان میں سے صرف 20 لاکھ کو ہی ممبرشپ ملی۔ اس کے علاوہ اس پارٹی کی خوبی یہ ہے کہ پچھلے 72 سال سے یہ لگاتار اقتدار میں ہے۔ یہ ایک دن بھی اقتدار سے باہر نہیں رہی۔ چین میں اس کے مقابلے میں کوئی پارٹی پنپ نہیں سکی۔ اس پارٹی میں 1921ء سے لے کر اب تک اندرونی دھڑے بندی کبھی کبھی ہوئی ورنہ اس کا سربراہ پارٹی‘ سرکار اور فوج‘ تینوں کو ہمیشہ اپنے قبضے میں رکھتا رہا۔ 1917ء میں روس میں کمیونسٹ انقلاب سے متاثر ہو کر چار سال بعد 1921ء میں دو چینی دانشوروں Chen Duxiu اور Li Dazhao نے شنگھائی میں اس پارٹی کی بنیاد رکھی۔ مائوزے تنگ اس کے بانی ارکان میں سے تھے۔ مائو کی قیادت میں اس پارٹی نے Kuomintang اور بعد میں جاپانی حملہ آوروں سے تقریباً 30 سال جنگ لڑی اور 1949ء میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت بنائی۔ 1949ء سے 1976ء تک مائو کی حکومت رہی۔ مائو کے زمانے میں مارکس ازم کو کئی نئے روپ دیے گئے۔ غریبی موجود رہی اور عام لوگ پارٹی تانا شاہی میں پستے رہے لیکن تنگ شیا او فنگ نے چینی نظام میں ویسے ہی بنیادی بدلائو کئے جیسے نرسمہا رائو نے بھارت میں کئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلے 40 سال میں چین کی فی کس آمدنی 80 گنا بڑھ گئی جبکہ بھارت میں صرف سات گنا بڑھی ہے۔ تنگ نے مارکس ازم کے شکنجے کو ذرا ڈھیلا کیا اور یہ نظریہ دیا کہ بلی کالی ہے یا سفید ہے اس سے ہمیں مطلب نہیں‘ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ چوہا مار سکتی ہے یا نہیں۔ اسی نظریے نے چین کے 80 کروڑ لوگوں کو غربت کی لائن سے اوپر اٹھایا ہے۔ آج وہ دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور اور مالدار ملک بن چکا ہے۔ چین کے درجنوں شہروں اور سینکڑوں گائوں میں اپنے کئی دوروں کے دوران میں نے دیکھا ہے کہ اب وہ سسٹم سرمایہ دار بن گیا ہے لیکن اس کی سیاست اب بھی سٹالن ازم کی پٹڑی پر ہی چل رہی ہے اور اس کی غیرملکی پالیسی سے ایک نئے سامراجیہ واد کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ پچھلے 100 سال میں چین تو بدل گیا لیکن اس کے بنیادی نظریات میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا۔ نظریاتی اعتبار سے چینی سیاست جوں کی توں ہے۔
دو بچوں کی سیاست
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے آبادی کو کنٹرول کیلئے جو بل تجویز کیا ہے اس کی تنقید اپوزیشن جماعتیں اس بنیاد پر کر رہی ہیں کہ یہ مسلم مخالف ہے۔ اگر وہ سچ مچ مسلم مخالف ہوتا تو وہ صرف مسلمانوں پر ہی لاگو کیا جاتا‘ لیکن اس بل میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب کیلئے برابر ہے۔ کیا ہندو‘ کیا مسلم‘ کیا سکھ‘ کیا عیسائی اور کیا یہودی! یہ ٹھیک ہے کہ مسلمانوں میں آبادی کے بڑھنے کا تناسب زیادہ ہے لیکن اس کی اہم وجہ ان کی غربت اور ناخواندگی ہے۔ ہندوؤں میں بھی انہی برادریوں میں بچے زیادہ ہوتے ہیں جو غریب ہیں‘ غیر تعلیم یافتہ ہیں اور محنت کش ہیں۔ جو تعلیم یافتہ اور خوشحال مسلمان ہیں ان کے بھی پریوار آج کل اکثر محدود ہی ہوتے ہیں لیکن بھارت میں جو لوگ فرقہ وارانہ سیاست کرتے ہیں وہ اپنی اپنی قوت بڑھانے کیلئے لوگوں کو اکساتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے اتر پردیش کا یہ قانون بہت موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس بل میں ایک دفعہ یہ بھی شامل کی جانی چاہئے کہ اس طرح سے اکسانے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔ اس بل میں فی الحال جو اہتمام کئے گئے ہیں وہ ایسے ہیں جو عام لوگوں کو چھوٹا پریوار رکھنے کیلئے آمادہ کریں گے۔ جیسے‘ جن کے بھی دو سے زیادہ بچے ہوں گے انہیں سرکاری نوکری نہیں ملے گی‘ ان کی سرکاری سہولیات واپس لے لی جائیں گی‘ انہیں مقامی چناؤ میں امیدواری نہیں ملے گی۔ جس کا صرف ایک بچہ ہے اسے کئی خصوصی سہولیات ملیں گی۔ نس بندی کرانے والے مرد‘ عورت کو ایک لاکھ اور 80 ہزار روپے تک ملیںگے۔ یہ سبھی اقدامات ایسے ہیں جن کا فائدہ پڑھے لکھے شہری اور درمیانی طبقے کے لوگ تو ضرور اٹھانا چاہیں گے لیکن جن لوگوں کی وجہ سے آبادی بہت بڑھ رہی ہے ان لوگوں کو نہ تو سرکاری نوکریوں سے کچھ مطلب ہے اور نہ ہی چناؤ سے۔ اس قانون سے اگر وہ ناراض ہو گئے تو بھاجپا سرکار کو ووٹ تو ملنے سے رہے‘ غریب اور غیر تعلیم یافتہ ہندوؤں کے ووٹوں میں بھی سیندھ لگ سکتی ہے۔ دو بچوں کی یہ سیاست مہنگی پڑ سکتی ہے‘ لیکن بھاجپا اگر اس مدعے پر چالاکی سے کام کرے تو اترپردیش میں ہی نہیں پورے بھارت میں اسے بہت سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے اور لوک سبھا میں اس کی سیٹیں پہلے سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں۔ آبادی کنٹرول کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ شادی کی عمر بڑھائی جائے‘ عورت تعلیم کی طرف بڑھے‘ پریوار کنٹرول کے وسائل مفت بانٹے جائیں‘ جسمانی محنت کی قیمت اونچی ہو‘ ذات اور مذہب کے ووٹوں کی سیاست کا خاتمہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved