تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     17-07-2021

ہماری افغان پالیسی

امریکی صدر بائیڈن تو دامن جھاڑ کر افغانستان سے دستبردار ہو گئے، البتہ انہوں نے تعیُّن کے ساتھ اشرف غنی حکومت کا نام لینے کے بجائے یہ کہا: ''ہم افغان عوام کی حمایت جاری رکھیں گے‘‘۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طالبان نے امریکا کو درونِ خانہ کچھ یقین دہانیاں کرائی ہیں، اسی لیے امریکی انخلا کے دوران نہ طالبان کی جانب سے کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا اور نہ امریکا نے ڈرون حملے یا فضائی بمباری کی، گویا فریقین نے غیر عَلانیہ مفاہمت پر خوش اسلوبی سے عمل کیا۔ صدر بائیڈن نے یہ بھی تسلیم کیا: ''افغانستان میں طالبان پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہیں‘‘، انہوں نے مزید کہا: ''اب ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنی توجہات نئے محاذ کی طرف مبذول کریں گے‘‘، اس سے اُن کی مراد چین کے معاشی تسلّط اور عالمی تجارت پر چین کے غلبے اور مستقبل کی ایک برتر حربی قوت بننے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہیں۔ آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے ساتھ جنوبی کوریا کو ملا کر ایک بڑا الائنس بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یورپی ممالک تو پہلے ہی نیٹو اتحاد میں امریکا کے حلیف ہیں اور ان سب ممالک کے ذہنوں میں چین کی تیز رفتار معیشت اور ٹیکنالوجی بالخصوص خلائی ٹیکنالوجی میں روز افزوں ترقی کا خوف ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے بھی چین کو اپنا ہدف بنا رکھا تھا، ترقی یافتہ ممالک کا سیاسی کلچر ''ہر کہ آمد عمارت نو ساخت‘‘ کے مصداق ہماری طرح نہیں ہوتا یعنی ''جو بھی آیا، اُس نے ایک نئی عمارت بنائی‘‘۔ ہمارے ہر دور کے اہلِ اقتدارکی اپنے سابقین سے نفرت انتہا کو پہنچی ہوتی ہے، وہ ان کا نام ونشان مٹا دینا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس برتر عالمی قوتوں کا کلچر جدا ہوتا ہے، وہ اپنے پیش روئوں کا ہر نقش مٹانے کے درپے نہیں ہوتے، اُن کی پالیسیاں قومی مفاد کے تحت بنتی اور جاری رہتی ہیں۔ جارج بش سینئر نے 1991ء میں کویت پر قبضے کی پاداش میں عراق پر حملہ کیا، پھر بش جونیئر نے 2003ء میں بڑے پیمانے پر تباہ کن اسلحے کا جھوٹا الزام لگا کر عراق پر دوبارہ چڑھائی کی، اسی طرح بش جونیئر نے 2001ء میں افغانستان پر چڑھائی کی، لیکن ان کے بعد آنے والے صدور نے ان پر لعن طعن نہیں کی بلکہ اُن کی پالیسیوں کو لے کر آگے چلے؛ چنانچہ بائیڈن نے کہا: ''ہم نے ٹرمپ حکومت کے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے افغانستان سے انخلا پر عمل کیا‘‘۔
امریکا نے یہ بھی فیصلہ کیا اور تقریباً ایسے بیس ہزار افراد‘ جنہوں نے افغانستان میں مختلف حیثیتوں میں امریکی فوج کی مدد کی، ان میں ترجمان امریکی انٹیلی جنس کے کارندے اور ان کے خفیہ مخبر وغیرہ سب شامل ہیں‘ کو امریکا اور مغربی ممالک کے سپیشل امیگرنٹ ویزے دیے جارہے ہیں، کیونکہ اندیشہ ہے کہ طالبان کے غلبے کے بعد ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ امریکی اب تک اپنے ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے تحفظ سے بھی دستبردار نہیں ہوئے۔
یہ پس منظر اس لیے بیان کیا گیا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کے حوالے سے ہماری پالیسیاں ابہام کا شکار ہیں۔ سرکاری سطح پر جاری کیے گئے بیانات مبہم ہیں، مثلاً: 3 جون کو چین، پاکستان اور افغانستان (اشرف غنی حکومت) کے وزرائے خارجہ کے درمیان استنبول میں مذاکرات ہوئے تو اس کے اعلامیے میں کہا گیا: ''طالبان دہشت گرد ہیں‘‘، نیز کہا گیا: ''تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا: ''جو حکومت افغانستان میں طاقت کے ذریعے آئے گی، اُس کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘، ہماری دانست میں اس اجلاس اور اس اعلامیے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کچھ معلوم نہیں کہ آئندہ کابل کی مسندِ اقتدار کی صورت گری کیا ہو گی، کیا ہمارے اس بیان سے طالبان خوش ہوں گے، اگر مستقبل میں وہ کابل میں اقتدار پر فائز ہوتے ہیں، تو کیا ہمیں اُن سے معاملات طے نہیں کرنے ہوں گے۔ برطانیہ نے پالیسی بیان دے دیا ہے کہ اگر کابل میں طالبان برسرِ اقتدار آتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پس ہمیں یہ گردان چھوڑ دینی چاہیے: ''کابل میں طاقت کے زور پر قائم حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے،جمہوری حکومت کو تسلیم کریں گے‘‘، حالانکہ یہ نوشتۂ دیوارہے کہ آخر کار فیصلہ طاقت کے بل پر ہی ہوگا، پُرامن طریقے سے اقتدار کو کوئی نہیں چھوڑتا۔ پس اس کے برعکس ہمیں یہ کہنا چاہیے: ''کابل میں جو بھی حکومت قائم ہو گی، ہم اُسے تسلیم کریں گے اور اُن کے ساتھ تعاون کریں گے‘‘، کیونکہ پہلے بیان سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اگر طالبان طاقت کے بل پر کابل میں مسندِ اقتدار پر فائز ہوتے ہیں، تو ہم انہیں تسلیم نہیں کریں گے، اس سے طالبان کو منفی پیغام جاتا ہے، اس سے ہمارے اداروں کی عشروں کی محنت ضائع ہو جائے گی اور ہم ایک نئی مشکل صورتِ حال سے دوچار ہو جائیں گے۔ خود امریکا بھی طاقت کے بل پر ہی کابل میں متمکّن ہوا اور بالترتیب حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کا اقتدار بھی امریکی طاقت ہی کا مرہونِ منت رہا، آج امریکا ہاتھ اٹھا لے تو ڈاکٹر اشرف غنی ہمارے معین قریشی اور شوکت عزیز کی طرح بستر بوریا سمیٹ کر امریکا جا پہنچیں گے۔ البتہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں: ''ہم افغانستان میں امن کے حامی ہیں، پُرامن افغانستان ہمارے، پورے خطے اور دنیا کے مفاد میں ہے‘‘۔
افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے ٹی وی انٹرویو کے اہم نکات یہ ہیں: ''ہم معاملات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنا چاہتے ہیں، دوحہ کے کامیاب مذاکرات اور ان پر عمل درآمد اس کا واضح ثبوت ہے۔ پاکستان ہمارا پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ہے، وہ ہمیں مشورہ دے سکتے ہیں، لیکن کوئی ہمیں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا، یہ ہمارے اور مسلّمہ عالمی اصولوں کے خلاف ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہیں، ٹیکنالوجی سے استفادہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔ جو اضلاع ہمارے قبضے میں ہیں، وہاں اخبارات اور میڈیا کے ادارے فعال ہیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ البتہ ہماری اقدار اور روایات کی پاسداری کرنی ہو گی۔ اسلام انسانی آزادی کا محافظ ہے، موسیقی اور اس جیسے معاملات کا فیصلہ علما کریں گے‘‘۔ انہوں نے کہا: ''زیادہ تر علاقوں میں لوگ خود ہمارے ساتھ آ کر مل گئے ہیں، افغان فوجی سرنڈر نہیں کر رہے، بلکہ ہمیں جوائن کر رہے ہیں، ہم اکثر جگہ مقامی انتظامیہ کو برقرار رکھ رہے ہیں، ہم نے امارتِ اسلامی کی بیعت کی ہے، ہم نے بیس سال جہاد کیا ہے اور امارتِ اسلامی کی منظوری سے دوحہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں‘‘۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے طالبان بیسویں صدی کے آخری عشرے کے طالبان سے مختلف ہیں، سفارتی زبان سمجھتے ہیں اور اس کا بخوبی استعمال کرتے ہیں، یہ ''وہ آ گیا، وہ چھاگیا‘‘ والا انداز اختیار نہیں کر رہے، منصوبہ بندی اور ٹھہرائو کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ان کے اندر بلا کا اعتماد ہے، یہ اپنے آپ کو افغانستان کے اقتدار کا حقیقی وارث سمجھتے ہیں اور ماضی کی طرح عجلت میں نہیں ہیں، یہ امریکا کے ساتھ اس معاہدے پر بھی قائم ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یہ مستقبل قریب میں افغانستان میں رونما ہونے والے مواقع اور امکانات سے بھی واقف ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چین اور روس سے بھی ان کے معاملات اور مذاکرات چل رہے ہیں، یہ ایران سے بھی مخاصمت نہیں چاہتے، جب وہ یہ کہتے ہیں: ''کوئی ایک طبقہ افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکتا، سب کو ملا کر چلنا ہو گا ‘‘، تو ہماری دانست میں ان کی مراد اشرف غنی حکومت نہیں ہے، بلکہ افغانستان میں موجود تاجک، ازبک، ترکمان اور ہزارہ الغرض تمام طبقات اور قبائل مراد ہیں۔ لگتا ہے: یہ ان کے حقیقی نمائندوں سے معاملات طے کریں گے اور سب کو ان کی جسامت اور حیثیت کے مطابق شریکِ اقتدار کریں گے، لیکن مؤثر کنٹرول اور پالیسی سازی ان کے ہاتھ میں ہو گی، وہ پہلے ہی مزاحمت سے دستبردار ہونے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر چکے ہیں۔
طالبانِ افغانستان کے ساتھ بھی باوقار انداز میں معاملات طے کرنے چاہئیں۔ بہرحال طالبان اپنے آپ کو فاتح سمجھنے میں حق بجانب ہیں، سی پیک کی کامیابی کی کلید افغانستان کے امن میں ہے۔ امید ہے کابل میں مسندِ اقتدار پر براجماں ماضی کی حکومتوں کے برعکس طالبان کو بھارت اپنی شرائط ڈکٹیٹ نہیں کر سکے گا، اسے بھی برابری کی سطح پر معاملات طے کرنے ہوں گے۔
چند دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ طالبان کو وحشی سمجھنے والے لبرل اب قدرے حقیقت پسند بنتے جارہے ہیں، ان کی برتر حیثیت کو تسلیم کر رہے ہیں اور اس بات کے لیے آمادہ ہیں کہ ان کے ساتھ برابری کی سطح پر معاملات طے کیے جائیں، کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اس کے اپنے ملک میں بے امنی اور دہشت گردی فروغ پائے۔ صرف امریکا اور اس کے اتحادیوں سے خطرہ ہے کہ شاید وہ افغانستان میں دیرپا امن کو اپنے مفاد میں نہ سمجھیں، کیونکہ طالبان برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پڑوسیوں کو ہم سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان کے مرکز کا رخ کرنے کے بجائے پڑوسی ممالک سے ملنے والے سرحدی اضلاع کو پُرامن انداز میں کنٹرول کر رہے ہیں تاکہ وہ ممالک طالبان کے اقتدار کو اپنے لیے خطرے کی علامت نہ سمجھیں۔
وزیراعظم پاکستان نے بجا طور پر دو ٹوک انداز میں کہا ہے: ''ہم اپنی سرزمین پر کسی دوسرے ملک کے خلاف کارروائی کے لیے اڈے نہیں دیں گے‘‘، یہ پوری قوم کے دل کی آواز ہے اور اس پر لفظاً ومعناً عمل ہونا چاہیے۔ ہماری دعا ہے کہ کوئی ملک ہماری فضائی حدود کو بھی افغانستان میں کارروائی کے لیے استعمال نہ کرے، کیونکہ امریکا کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ وہ ڈرون حملے کر سکتا ہے، نیز اس کے پاس فضا میں جہاز میں ایندھن بھرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے، اس لیے وہ بحرین، قطر یا دور دراز سے بھی فضائی حملے کر سکتا ہے، بمباری کر سکتا ہے، لیکن دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ افغان جنگ سے نکلنے کے بعد دوبارہ اس میں ملوث نہ ہو، طالبانِ افغانستان کا امتحان ہے کہ وہ تحریک طالبانِ پاکستان کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی سے کیسے روکتے ہیں، اسی پر دونوں ممالک کے تعلقات کا انحصار ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved