ہم سب ایک خاص مدت کے لیے اس دنیا میں ہیں۔ کسی کے حصے میں زیادہ وقت لکھا ہے اور کسی کے حصے میں برائے نام وقت آیا ہے۔ جسے بھی یہاں بھیجا گیا ہے اُس کا جانا بھی ٹھہرادیا گیا ہے۔ ہر جاندار کو ایک دن موت کا مزا چکھنا ہے۔ یہ ''مزا‘‘ کیسا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے‘ ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جب تک موت کا مزا چکھنے کا لمحہ نہیں آ جاتا تب تک ہمیں زندگی کا مزا تو بہرحال چکھتے ہی رہنا ہے۔ زندگی کس طور گزرنی چاہیے، اِس کا انحصار بہت حد تک ہماری اپنی سوچ اور اُس سے تعلق رکھنے والے عمل پہ ہے۔ ہماری زندگی اپنے آپ میں کوئی حقیقت نہیں۔ ہم جس طرزِ فکر و عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں زندگی اُسی کے مطابق ہوتی جاتی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی معاملہ اور مجموعی طور پر پوری زندگی کسی کے لیے بھی متعین معاملے کا درجہ نہیں رکھتی۔ اس حقیقت کا ادراک ہی انسان کو حقیقت پسندی کی بنیاد پر کچھ سوچنے اور اُس سے مطابق رکھنے والے عمل کی طرف مائل ہونے کی تحریک دیتا ہے۔ بہت سے معاملات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے نقاب ہوتے جاتے ہیں۔ ہمیں بہت کچھ پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔ اگر پہلے سے بہت کچھ معلوم ہو تو اچھا خاصا لطف غارت ہو جاتا ہے۔ یہ تجسّس ہی تو ہے جس کے دم سے زندگی کے میلے کی رونق برقرار ہے۔
دنیا کے ہر انسان کو یومیہ چوبیس گھنٹے ملتے ہیں۔ ان چوبیس گھنٹوں میں سے کتنے وقت کو زندگی میں تبدیل کرنا ہے یہ انسان کے اپنے بس میں ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ کسی نہ کسی طور دن گزارتے ہیں اور رات کی آمد پر کھا پی کر سو رہتے ہیں۔ اور پھر یہی معمول روز و شب کے سلسلے کو زندگی بننے سے روکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اِس دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو روز و شب کے سلسلے کو زندگی میں بدلنے کے حوالے سے واقعی سنجیدہ ہوتے ہیں۔ زندگی کے حوالے سے بالی وڈ کے ایک مشہور فلمی گیت کا مکھڑا ہے ع
اِک پیار کا نغمہ ہے، موجوں کی روانی ہے
اِسی گیت کے ایک انترے میں ایک بڑی حقیقت کو انتہائی خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ع
دو پل کے جیون سے اِک عمر چُرانی ہے
زندہ تو سبھی رہتے ہیں یعنی کسی نہ کسی طور جی ہی لیتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ کوئی معمول کے شب و روز کو زندگی میں بدل کر دکھائے۔ معمول کے مطابق جینے میں کمال کی کوئی بات نہیں۔ ایک دنیا ہے جو معمول کی غلام ہے اور جی ہی رہی ہے۔ جس نے معمولات کی غلامی اختیار کی وہ کچھ نہ بن پایا۔ محض جینے کو زندگی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کام تو حیوانات بھی بخوبی کرلیتے ہیں۔ اپنے ماحول میں پائے جانے والے جانوروں کو دیکھیے۔ وہ کس طور صبح کو شام اور شام کو صبح میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اُن کا معمول ہے کھانا پینا اور سو رہنا۔ اگر کسی جانور سے کوئی کام لیا جارہا ہے تو اس کام کے اختتام پر پیٹ بھر چارا کھانا اور سو رہنا ہی اُس کا معمول ہے۔ اِس سطح سے ذرا بھی بلند ہوکر کچھ کرنا اُس کے بس میں نہیں۔ جانوروں کو ایک خاص سطح پر جیتے ہوئے دیکھ کر ہم ملامت نہیں کرسکتے کیونکہ قدرت نے اُن کے لیے یہی لکھا ہے۔ ہاں! کوئی انسان اگر حیوانی سطح پر زندگی بسر کرے تو اسے ضرو ر شرم محسوس ہونی چاہیے۔ قدرت نے اُسے تو کسی بھی طور محض اس لیے خلق نہیں کیا کہ ایک لگے بندھے، محدود سے معمول کے مطابق جیے اور اِس دنیا سے چلا جائے۔ ہر انسان کو قدرت نے مختلف النوع صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانا فریضے کا درجہ رکھتا ہے۔ سانسیں گنتی کی ہیں۔ گنتی کی اِن سانسوں سے ہمیں زندگی کشید کرنی ہے، ایک عمر چُرانی ہے۔ پل دو پل کی مہلت کو ایسی زندگی میں تبدیل کرنا ہے جسے سراہا جائے‘ یاد رکھا جائے۔ یہ گویا شیشے سے پتھر کو توڑنے کا ہنر ہے۔ کسی بھی دور میں معمولات کے پنجرے سے خود کو رہائی دلاکر گنتی کی چند سانسوں کو بامقصد زندگی میں تبدیل کرنا آسان نہ تھا۔ فی زمانہ یہ کام مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ آج کا ہر انسان الجھنوں کا مجموعہ ہے۔ قدم قدم پر مسائل ہیں۔ مشکلات ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ معاملات روز بروز پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ بامقصد زندگی یقینی بنانا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ آج کا انسان مقصد کی تلاش میں عمر بھر سرگرداں رہتا ہے۔ اہداف و مقاصد کے بغیر بسر کی جانے والی زندگی حقیقی مفہوم میں زندگی نہیں کہی جاسکتی۔ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اُسے یاد رکھا جائے اور اُس کی زندگی کی مثال دی جائے تو لازم ہے کہ وہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامقصد بنانے پر توجہ دے۔ یعنی یہ کہ دو پل کے جیون سے ایک عمر چُراکر دکھائے۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ میرؔ نے کہا تھا ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
عمومی سطح سے بلند ہونا کبھی آسان نہ تھا۔ ہر دور کے انسان کو اس مقصد کا حصول یقینی بنانے میں غیر معمولی دشواری اور پریشانی کا سامنا رہا ہے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ زندگی کو مقصدیت سے ہم کنار کرنے میں عمر کھپ جاتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں کیریئر بنانا جتنا جاں گُسل ہے اُتنا ہی جاں گُسل معمولات سے بلند ہوکر دو پل کے جیون سے عمر چُرانے کا معاملہ بھی ہے۔ مقصدیت نہ ہو تو سو سال کی عمر بھی کسی کام کی نہیں ہوتی اور اگر مقصدیت یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کرلی جائے تو چند روزہ حیات بھی لوگوں کو یاد رہتی ہے۔ ہر شعبے میں ایسے افراد ملیں گے جو اس دنیا میں زیادہ دن نہ رہے مگر لاکھوں، کروڑوں دلوں میں اب تک بسے ہوئے ہیں۔ بروس لی محض بتیس سال کی عمر میں دنیا سے گزر گیا تھا مگر دلوں سے اب تک نہیں گیا۔ سعادت حسن منٹو نے 43 سال کی عمر پائی مگر لوگ اُنہیں آج تک نہیں بھولے۔ ناصرؔ کاظمی بھی کم و بیش 46 سال کی عمر میں گئے۔ بالی ووڈ کے معروف اداکار اور فلم میکر گرو دت نے محض 39 سال کی عمر پائی مگر اتنی چھوٹی عمر میں بھی وہ اِتنا کچھ کرگئے کہ لوگ اب تک اُنہیں نہیں بھولے۔ اہمیت اس بات کی نہیں کہ کوئی روئے ارض پر کتنے دن رہا۔ اصل وقعت اس بات کی ہے کہ جو بھی عمر ملی اُس میں کچھ کیا بھی یا بس یونہی وقت ضائع کیا۔ اگر کوئی مقصد نہ ہو تو سو سال جینے والے بھی کسی کو یاد نہیں رہتے۔ چند روزہ حیات کو مقصدیت سے ہم کنار کرنے والے لوگوں کو تادیر یاد رہتے ہیں۔ ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو بہت چھوٹی عمر سے فعال ہو جاتے ہیں اور مرتے دم تک فعال رہتے ہیں۔ اُن میں کچھ بننے اور کر گزرنے کی لگن غیر معمولی ہوتی ہے اس لیے کم وقت میں اتنا کچھ کر جاتے ہیں کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا۔
جینے کا اصل مزا صرف اُس وقت ہے جب انسان روئے ارض پر محض وقت نہ گزارے بلکہ اِس دنیا کو کچھ دے کر جانے کی ذہنیت کو بھی پروان چڑھائے۔ ہمیں دنیا سے بہت کچھ ملتا ہے۔ اِسی سے ہماری زندگی میں معنویت پیدا ہوتی ہے۔ اخلاقی سطح پر بھی ہمارا فرض ہے کہ اپنی صلاحیت اور سکت سے اِس دنیا کو کچھ دینے کی کوشش کریں۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ دوسروں نے بھی ہمارے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ اگر ہم اس دنیا کو کچھ دیں گے تو کوئی احسان نہیں کریں گے بلکہ محض احسان کا بدلہ چکائیں گے۔ چارن دن کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ قابلِ رشک بنانے کی کوشش ہی مقصدیت کا حق ادا کرتی ہے۔ گنتی کے لمحات سے ایک عمر کشید کرنا بجائے خود ایک دلچسپ، اور کبھی کبھی سنسنی خیز، عمل ہے۔ اس کا لطف وہی جانتے ہیں جو کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں، دنیا کو کچھ دے کر جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ دو پل کے جیون سے ایک عمر چُرانے کا فن کم ہی لوگ سیکھ پاتے ہیں کیونکہ اِس میں محنت بہت لگتی ہے۔ اِتنی محنت وہی لوگ کر پاتے ہیں جو زندگی کا حق ادا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ کیا آپ میں ہے مطلوبہ جوش اور جنون؟