افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا 95 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے لیکن کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ افغانستان میں کیا ہونے والا ہے؟ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟ طالبان اعلان پر اعلان کرتے جا رہے ہیں کہ ان کی پیشقدمی جاری ہے، کابل حکومت مزاحمت کا عندیہ دے رہی ہے۔ بعض اوقات پُرجوش اور پُرعزم الفاظ بھی زبان پر آجاتے ہیں، لیکن غیرجانبدار مبصرین ان کے کھوکھلے پن سے آگاہ ہیں۔ اشرف غنی نے ازبکستان میں الزام عائد کیاکہ پاکستان سے دس ہزار جنگجو افغانستان میں داخل ہوچکے ہیں، اور یوں طالبان کوکمک فراہم ہورہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور سختی سے تردید کردی۔ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے‘ جو موقع پر موجود تھے، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان سے پاکستان آنے والے دہشتگردوں کی نشاندہی کی کہ مداخلت افغان سرزمین سے ہو رہی ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہے، اور وہ اسے اپنے انداز سے بیان کررہا ہے۔ جس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا‘ یہ ہے کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہوا ہے۔ افغانستان میں استحکام ہوگا، کشت و خون ختم ہوگا تو سب سے زیادہ سکون اور اطمینان کا سانس پاکستان ہی میں لیا جائے گا‘ جہاں آج بھی لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں، جو واپس وطن جانے پر تیار نہیں کہ انہیں وہاں تحفظ کا احساس نہیں ہوپائے گا۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد اڑھائی ہزار کلومیٹر طویل ہے، جس پر باڑ لگانے کا انتہائی مشکل کام بڑی حد تک مکمل کرلیا گیا ہے۔ پانچ سو کے قریب فوجی چوکیاں اس پر قائم ہیں، یوں افغانستان سے آنیوالے انسانی ریلوں کی بڑی حد تک روک تھام ممکن ہوگی، لیکن سو فیصد انتظام نہ تو ہوسکا ہے، اور نہ شاید ہوسکے گا۔ اتنی طویل اور پیچیدہ سرحد پر کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طور کوئی شگاف پڑسکتا ہے یا ڈالا جا سکتا ہے، پھر یہ کہ سرحد کے دونوں طرف لوگ ایک دوسرے سے مذہبی، ملی، لسانی، ثقافتی اور قبائلی تعلق رکھتے ہیں، اس لیے انہیں ایک دوسرے سے جدا رکھنا ناممکنات میں سے ہے۔ کسی نہ کسی طور، کسی نہ کسی انداز میں ان کے درمیان رابطے موجود رہتے ہیں، اور قانونی طور پر بھی آمدورفت کو محدود کرنے سے پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ پاکستان سے زیادہ کوئی ملک اِس بات کا خواہشمند نہیں ہو سکتا کہ افغانستان میں امن قائم ہو، وہاں ایسا نظام وضع ہوجائے، جسے سب تسلیم کریں اوراس کے تحت اپنا اپنا کردار کرنے پرتیار ہوں۔ کوئی طاقت کے استعمال سے اپنے اہداف حاصل کرنے کے بارے میں نہ سوچے کہ طاقت کا جواب طاقت ہی سے ملتا ہے، اور اس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ افغانستان کی سرحدی لمبائی علی الترتیب 144 اور 1344 کلومیٹر ہے۔ ترکمانستان کے ساتھ یہی طوالت 804 کلومیٹر ہے۔ قازقستان اور کرغستان سے افغان سرحد نہیں ملتی، اس کے باوجود یہاں پُرتشدد رجحانات پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔ چین سے افغانستان کی سرحد اگرچہ آٹھ کلومیٹر ہے، تاہم اس پر اس کا صوبہ سنکیانگ واقع ہے، جہاں مسلمان آبادی کی بڑی تعداد ہے۔ اس میں پائی جانے والی بے چینی کی خبریں موضوعِ بحث بنی رہتی ہیں۔ ایران کے ساتھ افغانستان کی ہمسائیگی کی طوالت921 کلومیٹر کو محیط ہے۔ اس حوالے سے افغانستان کے حالات کئی ممالک پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے مابین تجارتی روابط کے خواب جتنے بھی دیکھے جائیں، افغانستان کی کشادگی کے بغیر ان کی تعبیر ڈھونڈنا ممکن نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان اگر افغانستان آگ کا گولہ بنا رہے گا، تو دونوں خطے ایک دوسرے کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکیں گے۔ اس آگ میں ان کا کچھ نہ کچھ جھلس کررہے گا ...از فسادِ او فسادِ آسیا... یعنی بقول اقبال اس خطے کے فساد سے پورا ایشیا فساد کی زد میں آ جاتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان اس بات پر شکوہ سنج ہیں کہ امریکہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین معاملہ کرائے بغیر کیوں رخصت ہوگیا؟ سازشی کہانیاں بیان کرنے والے اِس میں سے اپنی اپنی مرضی کا مطلب نکال رہے ہیں، کوئی اسے طالبان امریکی سازباز قرار دے رہا ہے توکوئی چین کے خلاف اقدام سازی کا ذریعہ، کوئی پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کارروائی قرار دے رہا ہے، کس کہانی میں کس حد تک حقیقت ہے، اس میں سرکھپانے کے بجائے بنیادی بات یہ ہے کہ افغانستان اپنے مسائل خود حل کرے۔ سوویت اور امریکی افواج اربوں ڈالر خرچ کرنے اور ہر طرح کے ہتھیار آزمانے کے بعد وہاں کے داخلی حالات کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکیں، تو پاکستان سے اس کی توقع عبث ہے۔ پاکستان اس خوش فہمی میں مبتلا ہے، نہ کسی دوسرے کواس غلط فہمی کا شکار ہونا چاہئے۔
امریکی اور نیٹو افواج نے 20 سال افغانستان میں جنگ لڑتے گزارے۔ افغان فوج اور سکیورٹی اداروں کو منظم کرنے پر 80 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کئے گئے ہیں، ان کوتربیت دی گئی ہے۔ اسلحہ دیا گیا ہے، اب بھی افغان معیشت امریکی نظرکرم کی محتاج ہے۔ اسکے باوجود کابل حکومت طالبان کی یلغار کا سامنا نہیں کرپا رہی تو پاکستان اس بوجھ کو کیسے اٹھا سکتا ہے؟ اشرف غنی اور ان کے ہمنوائوں کی پاکستان پر الزام تراشی ان کی داخلی کمزوری کی عکاس ہے، پاکستان کو اس ''بلیک میلنگ‘‘ میں آئے بغیر عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہنا چاہئے۔ افغان طالبان کو پاکستانی طالبان کے ساتھ نتھی کرنے سے بھی کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ افغان طالبان کی اس یقین دہانی پریقین کرنا ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستانی طالبان ایک بڑی محدود اقلیت ہیں، پاکستانی دفاعی ادارے ان سے نمٹنے کی صلاحیت دکھا چکے ہیں، اور آئندہ بھی دکھا سکتے ہیں۔ پانچ ہزار کے لگ بھگ لوگ افغانستان میں ''پناہ‘‘ لیے ہوئے ہیں، انہیں پاکستان کے سپرد کرنا ہوگا، یا ہاتھ پائوں باندھ کررکھنا ہوگا۔ طالبان کو یہ نکتہ اچھی طرح ذہن نشین کرایا جا سکتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ افغان عوام کواپنے ملک کا نظام وضع کرنے کا ویسا ہی حق حاصل ہے جیسا پاکستان، ایران، سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک کے رہنے والوں کو۔ اس حق کو چیلنج کرنے کا شوق نہیں پالنا چاہئے۔ یہ بات البتہ واضح ہے کہ افغانستان میں برسرپیکار عناصر ایک دوسرے کا خون بہانے کے بجائے ایک دوسرے سے مکالمہ کریں، جرگہ کریں، اور مستقبل کو سنوارنے کی سعی کریں تو یہ انہی کے حق میں بہتر ہوگا۔ پاکستانی حکومت اور عوام کو اسی ایک نکتے سے جڑا رہنا ہوگا۔
صدر ممنون حسین مرحوم
سابق صدر ممنون حسین 80 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے۔ انہیں کچھ عرصہ قبل کینسر کا عارضہ لاحق ہوا تھا۔ ان کا ایک بڑے کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ 7 سال کی عمر میں ہجرت کرکے (والدین کے ہمراہ) آگرہ سے کراچی پہنچے تھے۔ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ سردوگرم موسموں میں پوری یکسوئی کے ساتھ کھڑے رہے۔ نواز شریف نے انہیں ''باوفا ساتھی‘‘ کہہ کر خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ وہ ایک سچے مسلمان اور کھرے انسان تھے‘ اخلاقی اور تہذیبی اقدار کا نمونہ۔ انہوں نے ایوان صدر کو ثقافتی اور ادبی اجتماعات کے ذریعے رونق بخشی، اور پاکستان کے اہلِ دانش سے خصوصی اور قریبی روابط رکھے۔ وہ گورنر سندھ بھی رہے۔ اُن کی خوشگوار یادیں ماحول کو معطر کرتی رہیں گی، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پاکستانی سیاست کو انکے سے تہذیب یافتہ چند افراد ہی عطا کردے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)