انسانی مزاج ہے کہ وہ سب کچھ چاہتا ہے لیکن وہ اپنا احتساب یا جواب طلبی نہیں چاہتا۔ وہ دوسروں پر تنقید کرتا ہے، کیڑے نکالتا ہے لیکن خود پر تنقید پسند نہیں کرتا۔ میں بھی انہی میں سے ہوں جو اپنا احتساب نہیں چاہتے‘ لیکن پھر میں نے ساری عمر کوشش کی کہ اگر میں دوسروں سے اپنا احتساب نہیں کرانا چاہتا تو مجھے ان کاموں سے بچنا ہو گا‘ جن کی وجہ سے احتساب ہو سکتا ہے۔ مجھے اپنی خواہشات کو کنٹرول میں رکھنا ہو گا۔ بائیس برس اسلام آباد میں ہو گئے لیکن میں دوستوں کے تمام تر دبائو کے باوجود کبھی صحافتی تنظمیوں یا پریس کلب یا پریس گیلری کا الیکشن نہیں لڑا کہ پھر اس عہدے سے جڑے لوازمات بھی پورے کرنے ہوں گے۔ سیاست کا شوق نہیں پالا‘ نہ ہی لیڈر یا بیوروکریٹ بننے کا شوق چرایا کہ عوام کے پیسے اور ٹیکس پر زندگی گزاری جائے اور جیب سے ٹکہ خرچ نہ ہو۔ وجہ وہی تھی کہ اگر تنقید اور احتساب سے بچنا ہے تو عوامی اور سرکاری عہدوں سے بچ کر زندگی کو ذرا سکھ سے گزارا جائے۔ یہ قناعت شاید میں نے نعیم بھائی سے سیکھی جنہوں نے ڈاکٹر بننے کے بعد کبھی اپنی سرکاری فائل کا ایک کاغذ بھی سنبھال کر نہ رکھا‘ نہ کبھی اے سی آر کے چکر میں پڑے‘ نہ کبھی اگلے گریڈ میں ترقی کا سوچا۔ کئی دفعہ کہا تو اتنا بولے: یار ڈاکٹر بننے کا شوق تھا بن گیا‘ شوق پورا ہو رہا ہے اگلا گریڈ لے کر کیا کرنا ہے۔ ان کے بعد یہ فقیری رانا اعجاز محمود میں دیکھی۔ وہ بھی انفارمیشن گروپ کے افسر تھے۔ ساری عمر لیہ کے ایک دفتر میں گزار دی۔ میں کبھی کہتا کہ مرشد! لیہ چھوڑیں کچھ آگے نکلیں‘ تو ہنس کر پنجابی میں کہتے: پُتر اتنی ترقی کا کوئی شوق نہیں ہے۔ نعیم بھائی اور رانا اعجاز محمود کو دیکھا جن کی خواہشات بہت کم تھیں۔ شاید انہوں نے گوتم بدھ کی وہ کہاوت پڑھ رکھی تھی کہ ایک دن چیلے آنند نے گوتم سے پوچھ لیا: گرو انسان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے؟ گرو نے جواب دیا تھا: انسان کا دشمن اور کوئی نہیں‘ اس کی اپنی خواہشات ہیں جو اسے تخت پر بھی لے جاتی ہیں اور تختہ پر بھی‘ خواہشات پر قابو پا لو تو سارے دکھ، غم اور درد ختم ہو جائیں گے۔
سمجھ نہیں آتی کہ جو شوق پالتے ہیں، بڑے بڑے عہدوں کیلئے ضمیر مارتے ہیں، پیسے پکڑتے ہیں، حرام کھاتے ہیں، مال بناتے ہیں، مشہوری کا شوق رکھتے ہیں‘ جن کو لوگوں پر راج کرنے کا شوق ہے، جو عوام کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں، انکی زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں، ہٹو بچو اور سرکاری پروٹوکول کے مزے لیتے ہیں‘ جب ان سے کوئی ان عہدوں سے جڑی ذمہ داری کا حساب کتاب مانگ لے تو وہ بھڑک کیوں جاتے ہیں؟ آج کل پھر وہی بڑے لوگ نیب پر ناراض ہیں کہ وہ ہم سے کیوں پوچھ گچھ کرتا ہے۔ سب اکٹھے ہو گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی 2008 میں اقتدار میں آئی تو اس وقت ملک کا وزیراعظم‘ یوسف گیلانی اور صدر‘ آصف زرداری‘ دونوں نیب کے ملزم کے طور پر جیل بھگت چکے تھے۔ انہوں نے نیب کے فنڈز ہی روک دیے۔ تنخواہوں تک کے پیسے نہ تھے۔ نواز شریف خاندان جنرل مشرف دور سے نیب کا ملزم تھا لہٰذا دونوں پارٹیوں نے نیب پر خوب تبرے پڑھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویز مشرف نے پاکستان میں احتساب کو شدید نقصان پہنچایا‘ جب انہوں نے پہلے تمام سیاستدانوں کو کرپشن کے نام پر پکڑا اور پھر سب کو چوہدری شجاعت حسین کے حوالے کر دیا جو خود بھی مقدموں کا سامنا کر رہے تھے۔ یوں ق لیگ بنوانے میں نیب نے رول ادا کیا۔ جو پرویز مشرف کے نام کا حلف لیتا گیا وہ نہ صرف نیب سے چھوٹ گیا بلکہ اسے وزیر تک بنا دیا گیا۔ سب سے بڑی مثال یہ کہ آفتاب شیرپائو‘ جو نیب کا ملزم تھا‘ کو لندن سے واپس لا کر وزیر داخلہ بنایا گیا۔ مشرف کے ان سیاسی کارناموں کی وجہ سے ہی پاکستان میں پہلی دفعہ کرپٹ اور کرپشن کے خلاف عوامی رد عمل ہمیشہ کیلئے کم ہونا شروع ہوا کہ کرپٹ ایلیٹ کو عہدے دے دیے گئے اور کرپٹ ہی عزت دار قرار پائے۔ پھر پورے معاشرے نے یہی راستہ اختیار کر لیا کہ خوب کرپشن کرو۔ اگر پکڑے گئے تو پلی بارگین کرکے چھوٹ جائیں گے۔
مجھے یاد ہے‘ پہلے اگر ایک سکینڈل کی چھوٹی سی خبر بھی چھپتی تھی تو سیاسی حکومتوں کو وختہ پڑ جاتا تھا‘ لیکن مشرف دور کے نیب نے جو سیاسی رول اختیار کیا اور ساتھ میں پلی بارگین کا جو کلچر متعارف کرایا اس نے تباہی پھیر دی۔ اس کے بعد کرپٹ کیخلاف معاشرے میں وہ نفرت نہ رہی‘ جو پہلے تھی۔ اب وہ منہ چھپانے کے بجائے وکٹری کے نشان بناتا باہر آیا اور وہ سب جو اسے چور اچکا سمجھتے تھے وہ اسے کندھوں پر بٹھاتے رہے۔
پرویز مشرف کے بعد اگر کسی نے کرپشن کے خلاف معاشرتی دبائو کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تو میری نظر میں وہ عمران خان ہیں۔ آپ حیران ہو کر پوچھیں گے‘ عمران خان کا اس میں کیا قصور؟ انہوں نے تو سب سے زیادہ کرپٹ اور کرپشن کے خلاف تحریک چلائی بلکہ تحریک انصاف بنائی۔ وہی تو بیس برس تک مسلسل پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور ق لیگ کے کرپٹ لیڈروں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے اور آخر کامیاب ہوئے اور میں انہیں ذمہ دار سمجھتا ہوں کہ ان کی وجہ سے کرپٹ اور کرپشن کے خلاف اب وہ جذبہ نہیں رہا‘ جو پہلے تھا۔ میرا خیال ہے‘ خان صاحب کے دور میں لوگ اب کرپٹ اور کرپشن کے خلاف ردِ عمل دینے کے بجائے اس کا جواز تلاش کرتے ہیں۔ اس کا دفاع کرتے ہیں۔ وہ کرپٹ اور کرپشن کو اب برا نہیں سمجھتے۔
نواز شریف، زرداری یا چوہدریوں نے کبھی اقتدار میں آنے کے لیے کرپشن کا نعرہ نہیں لگایا۔ وہ خود اس کام میں ملوث تھے لہٰذا انہیں سوٹ نہیں کرتا تھا کہ عوام میں کرپشن اور کرپٹ کے خلاف شعور پیدا کریں۔ یہ کام پچھلے بیس سالوں میں دو لوگوں نے کیا۔ ایک جنرل مشرف نے‘ جنہوں نے کرپشن اور کرپٹ کے خلاف نعرہ لگایا کہ سب کا احتساب کروں گا‘ کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ اور مزے کی بات ہے‘ پھر پرویز مشرف نے سب کو ہی چھوڑ دیا اور ان سب کو اپنی کابینہ میں وزیر بنایا یا پھر انہیں اعلیٰ عہدے دیے اور پھر نہ کرپشن یاد رہی نہ کرپٹ۔ سب کرپٹ مشرف دور میں ہی عزت دار قرار پائے۔ مشرف کے بعد احتساب کا نعرہ عمران خان صاحب نے لگایا اور بڑی کامیابی سے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ لوگوں کو لگا‘ جو کام پرویز مشرف نہ کر سکے یا وہ کرنا نہیں چاہتے تھے‘ وہ عمران خان کریں گے۔ لگتا تھا کہ عمران خان زیرو ٹالرنس سے کام لیں گے۔ مصلحتوں کا شکار نہیں ہوں گے۔
اب پتہ چلا ہے کہ خان صاحب نے بھی وہی روٹ لے لیا ہے جو جنرل مشرف نے لیا تھا۔ پرویز مشرف کو بھی کچھ عرصے بعد احساس ہو گیا تھا کہ کرپٹ اور کرپشن کے بغیر وہ اقتدار میں نہیں رہ پائیں گے۔ خان صاحب کو بھی یہی احساس ہوا۔ حالت یہ ہے کہ وہ عمران خان‘ جو اس وقت نیب کے دفاع میں ڈٹ گئے تھے جب نواز شریف دور میں اس پر ان کے وزرا حملے کر رہے تھے‘ آج خود نیب کے خلاف ہیں کیونکہ اب ان کے اپنے وزیر اس میں پھنس چکے ہیں۔ اب ان کے وزیر کہتے ہیں کہ نیب کی وجہ سے سرکاری افسران کام کرنے کو تیار نہیں‘ کام ٹھپ ہو گیا ہے‘ ملک چلانا ہے تو سب کو کرپشن کرنے دو۔ وزیرخزانہ شوکت ترین کہتے ہیں: اب نیب کو لگامیں ڈالنے کا وقت آ گیا ہے۔ پتہ چلا‘ شوکت ترین خود پیپلز پارٹی دور میں 180 ارب رینٹل پاور سکینڈل میں نیب کے ملزم تھے۔ اس کے علاوہ اومنی گروپ کے انور مجید‘ جو آصف زرداری کے فرنٹ مین ہیں‘ شوکت ترین کے قریبی رشتے دار ہیں۔اب بتائیں‘ جو نیب اور ایف آئی اے کے ملزم ہیں وہ آج کل نیب کا مکو ٹھپنے کا کام کررہے ہیں۔ ترین صاحب نے خود ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ نیب کے پر کاٹنے کے لیے قوانین پر کام کر رہے ہیں۔ ایسا معاشرہ، ایسے عوام اور حکمران بھلا کہاں ملیں گے۔