صوتی پیغام واضح تھا۔ اردو انگریزی مخلوط الفاظ کے ساتھ وہی گجراتی لہجہ جو ہندوستانی میمن گجراتی مسلمانوں کی پہچان ہے۔ یہی لہجہ جب جنوبی افریقہ میں جا بستا ہے تو اس میں کچھ حروف کی منفرد ادائیگی کی تبدیلی آجاتی ہے۔ جنوبی افریقہ کے بڑے شہر جوہانسبرگ کے ایک مسلم گھرانے کے سربراہ اپنے حالاتِ زار سناتے ہوئے دعاؤں کی التجا کر رہے تھے۔ بیان کرتے کرتے صوتی پیغام کی آواز رندھ گئی۔ پیغام کا اختتام سسکیوں، ہچکیوں پر ہوا یا اللہ حافظ کے الفاظ پر۔ بولنے والے کو معلوم نہ ہوسکا کہ کتنے سننے والوں کی آنکھوں میں بھی آنسو ہیں۔ سنانے والا بھی بے بس ہے اور سننے والے بھی۔
جنوبی افریقہ جل رہا ہے۔ لفظی طور پر نہیں عملی طور پر۔ جوہانسبرگ، ڈربن سمیت کئی بڑے شہروں میں لوٹ مار، عمارتوں کو آگ لگانے، قتل کرنے کے ان گنت واقعات ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر ویڈیوز اور تصویروں کا انبار ہے۔ ایک فساد زدہ شہر میں خوف کے ماحول میں ان واقعات کے بیچ رہ کر انہیں دیکھنا بالکل اور ہے، اور محفوظ و مامون گھروں میں بیٹھ کر دیکھنا بالکل اور‘ لیکن پھر بھی بہت کچھ دل تھام کر دیکھنا پڑتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں آگ اور خون کی بنیادیں تو گوری قوم نے بہت پہلے رکھ دی تھیں۔ اس وقت جب 80 فیصد سیاہ فام اکثریت کے اس ملک پر 7.9 فیصد گوری اقلیت نے بندوق کے زور پر قبضہ کیا تھا‘ لیکن یہ حالیہ واقعات سابق سیاہ فام صدر اور سیاستدان جیکب زوما کی حراست اور قید سنائے جانے کی وجہ سے ہیں۔ 79 سالہ جیکب زوما نے صدارت کی کرسی پر 2009تا 2018 لگ بھی 9 سال گزارنے کے بعد فروری 2018 میں کرسی چھوڑ دی تھی۔ ان پر اسلحے کی خرید میں تین ارب ڈالر کمانے کے علاوہ بڑے تاجروں کے ساتھ مل کر ان کی مرضی کے قوانین بنانے سے لے کر غیرقانونی اقدامات تک بے شمار الزام ہیں۔ جیکب زوما ان الزامات کو سیاسی مظالم سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان الزامات کی تحقیقات کیلئے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں کارروائی شروع ہوئی لیکن جیکب زوما بار بار نوٹس کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوئے حتیٰ کہ 29 جون 2021 کو توہینِ عدالت کے جرم میں انہیں 15 ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔ یاد رہے کہ یہ کرپشن کی سزا نہیں، توہینِ عدالت کی سزا ہے‘ لیکن اس فیصلے نے وہ آگ اچانک بھڑکا دی جو جنوبی افریقہ کی مٹی میں ایک زمانے سے بوئی جا چکی ہے۔ سیاہ فام مظاہرین احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکل آئے لیکن جلد ہی مظاہرے لوٹ مار اور آتشزنی میں تبدیل ہوگئے۔ حکومت کے اپنے بیان کے مطابق اس دوران 212 لوگ جان سے گئے۔ صرف زوما کے آبائی علاقے کوا زولو نٹال میں آٹھ سو دکانیں لوٹ لی گئیں۔ اندازہ ہے کہ ایک ارب ڈالر کا سامان صرف اس علاقے میں لوٹا گیا۔ پورے ملک کے متاثرہ علاقوں میں سامان اور جائیدادوںکا نقصان کئی گنا زیادہ ہے۔ شاپنگ مالز اس طرح لوٹے جا رہے ہیں کہ ویرانی کے علاوہ کوئی چیز بچی ہی نہیں۔ بازاروں میں کیا بڑے اور کیا چھوٹے بازار‘ کیا برینڈڈ اور کیا گمنام دکانیں‘ کیا اشیائے ضرورت، کیا ریسٹورنٹس، کیا فوڈ چین، کیا سستی، کیا ہلکی اور کیا بھاری‘ ہر چیز لوٹ مار کی لپیٹ میں ہے۔ لوٹ کے ساتھ اردو محاورے میں ایک لفظ کھسوٹ بھی ہے۔ اگر اس لفظ کے ٹھیک معنی جاننے ہیں تو جوہانسبرگ کے شاپنگ مالز کی حالت دیکھیں۔ کھسوٹ کی اس سے بڑی بے لفظ تشریح نہیں مل سکے گی۔ ویڈیوز دہلا دینے والی ہیں۔ مسئلہ صرف لوٹ مار کا ہی نہیں، جلا دینے کا بھی ہے۔ سارا مال لوٹا اور عمارتوں کو آگ لگا دی۔ اس کے اوپر فلیٹوں میں رہنے والے آگ میں گھر گئے۔ پھر ساتھ جڑی ہوئی عمارت اور اس سے جڑے ہوئے گھر۔ نارنجی اور سرخ شعلوں میں گھرے ہوئے مرد عورتیں اور بچے۔ ایک ویڈیو میں ایک ماں اپنی ایک سالہ بچی کو پہلی منزل سے نیچے کھڑے مددگار ہجوم کے ہاتھوں میں پھینک رہی ہے کہ میں خود بچوں یا نہ بچوں، یہ بچی کسی طرح بچ جائے۔ جو لوگ آرام سے گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے وہ اچانک آگ کی لپیٹ میں آ گئے۔ جانیں بچ جائیں تو بڑی بات۔ ایسے میں مال اور سامان کی فکر کون کرے۔ جانیں بچ گئیں تو فٹ پاتھ پر بے سروسامان آ بیٹھے کہ سب کچھ تو جل کر راکھ ہوچکا۔ یہ قیامتیں جنوبی افریقہ میں روز بپا ہورہی ہیں اور کوئی پُرسان حال نہیں۔
آپ وہ کلپس دیکھیں جو شاپنگ مالز کی حالت زار بیان کر رہے ہیں۔ سیاہ فام مرد، عورتیں ہر چیز لوٹ رہے ہیں خواہ ان کے کام کی بھی نہ ہو۔ اس کا ڈبہ، کارٹن، پیکنگ میٹریل، ہر چیز وہیں نکال کر پھینک دیتے ہے کہ ان کا بوجھ کون اٹھائے۔ پیکنگ میٹریل کے سوا شاپنگ مالز اور دکانوں میں کچھ نہیں بچا۔ کوئی بڑے سائز کا ریفریجریٹر اٹھا کر سڑک پر دھکیلتا لے جارہا ہے۔ کوئی کمپیوٹر اٹھا کر بھاگا جارہا ہے۔ کسی کے ہاتھوں میں اتنی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں کہ اس کے بس سے باہر ہیں۔ وہ کچھ سامان وہیں سڑک پر چھوڑنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ الماریاں، ریک، شوکیس تک لوٹ لیے گئے ہیں۔ ہر طرف گوداموں میں آگ کے شعلے ہیں اور دھواں اٹھ رہا ہے۔ اس ساری غارت گری میں سیاہ فام گروہ پیش پیش ہیں۔ گورے اور ایشین نسلوں کے لوگ تو کسی جگہ دکھائی ہی نہیں دے رہے کہ انہیں تو سیاہ اکثریت کے ہاتھوں اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے، وہ کہاں باہر نکلتے۔ ایک ہفتہ یہ لوٹ مار، غارت گری چلتی رہی۔ انتظامیہ، پولیس تو جیسے ہوا میں تحلیل ہو چکی تھی۔ ایک ہولناک ہفتہ گزر جانے کے بعد پولیس سامنے آئی۔ کئی ویڈیوز ہیں جن میں پولیس اہلکار تنبیہ کر رہے ہیں، ربڑ کی گولیاں برسا رہے ہیں لیکن لٹیرے ہاتھوں میں اٹھایا ہوا مالِ غنیمت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سیاہ فام اس صورتحال کی ساری ذمہ داری پسے ہوئے طبقوں کی حالت اور طبقاتی تفاوت پر رکھتے ہیں۔ بس ان کے پاس یہی اپنی لاقانونیت کا جواز ہے اور یہی لوٹ مار کا۔
وحشت کی لہر کچھ تھمی تو دکاندار اپنی خاکستر دکانیں دیکھنے آئے۔ عمر بھرکی پونجی برباد دیکھنے کا حوصلہ کس میں ہوتا ہے؟ دھاڑیں مار کر رونے والے کس سے داد رسی طلب کریں؟ بس ہے تو صرف آنسو، سسکیوں، ہچکیوں پر۔ سو ہر بازار میں اس کی فراوانی ہے۔ موجودہ سیاہ فام صدر سیرل رامپوسا نے وہی کہا جو ایسے ہر ملک میں ایسی ہر صورتحال میں کہہ دیا جاتا ہے۔ یہی کہ ہنگامے منصوبہ بندی سے ہوئے اور یہ ملک کی جمہوریت کو نقصان پہنچانے کیلئے ہیں۔ منصوبہ بندی؟ جمہوریت؟ وہ لوگ جن کے پیارے اس ہنگامے میں جان سے چلے گئے۔ وہ لوگ جن کے گھر جلا دئیے گئے۔ وہ گھرانے جو کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے۔ وہ دکاندار جن کی عمر بھر کی پونجی خاکستر ہوگئی وہ کیا رامپوسا کے اس بیان کو چاٹیں؟ کیا وہ سب کچھ بھول کر جمہوریت کے اس نقصان پر ماتم کریں؟ موجودہ حکومت سے سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ وہ ایک ہفتے تک کہاں سوئی رہی؟ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ روزمرہ کی غذائی اشیا کا ہے کہ اس کی گاڑیاں نہ لوٹ لی جائیں؛ چنانچہ یہ گاڑیاں فوج کی حفاظت میں چلائی جا رہی ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اب ایک ارب ڈالر کی کرپشن پر کوئی کارروائی ہوگی؟ کوئی سزا سنائی جائے گی؟ جب محض توہین عدالت پر 15 ماہ کی جیل پر ملک میں قیامت برپا ہوگئی تو آگے کارروائی کی عدالت اور حکومت کی ہمت ہوگی؟
مجھے ڈر ہے کہ یہ حالیہ سکون عارضی ہے۔ نیلسن منڈیلا نے اپنی فراست اور قربانیوں سے اس آگ کو مٹی کی تہوں تلے وقتی طور پر دبا دیا تھا، جو تعصب، ظلم اور ناانصافی کا نتیجہ تھی۔ لیکن یہ آگ موجود ہے، یہ ختم نہیں ہوئی‘ اس لیے کہ وہ ظلم ختم نہیں ہوا جس کی ساری ذمے داری نسل پرست گوری اقلیت پر ہے۔ کیا سب کو پتہ نہیں کہ آگ کالی ہو یا سرخ‘ جلا کر بہرحال رکھ دیتی ہے۔