آزاد کشمیر میں بھی تبدیلی لائیں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''آزاد کشمیر میں بھی تبدیلی لائیں گے‘‘ اور آزاد کشمیر کے عوام کو بروقت آگاہ بلکہ خبردار کیا جا رہا ہے کہ اگر اس کا کوئی تدارک ہو سکے تو کر لیں کیونکہ ہمیں ان سے پوری پوری ہمدردی ہے جبکہ خطرے سے آگاہ کرنا خطرے سے بچنے کی نصف کامیابی ہے اور ہمارے خبردار کرنے کے بعد نصف خطرہ باقی رہ جائے گا جس کا بندوبست کرنا ان کے لیے نسبتاً آسان ہوگا جبکہ ہم شروع سے ہی پاکستان کے عوام کو ایسی آسانیاں فراہم کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن چونکہ ہر آسانی میں کوئی مشکل بھی پوشیدہ ہوتی ہے اس لیے اسے قدرت کی منشا سمجھیں اور گھبراہٹ میں مبتلا نہ ہوں۔ آپ اگلے روز آزاد کشمیر میں انتخابی مہم کے جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اگر ن لیگ کے راستے میں رکاوٹ
ڈالی گئی تو بہت بُرا ہو گا: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''اگر ن لیگ کے راستے میں رکاوٹ ڈالی گئی تو بہت بُرا ہو گا‘‘ اور اگر کوئی رکاوٹ نہ ڈالی گئی تو اس سے بھی برا ہوگا کیونکہ پھر ہم اپنی شکست کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکیں گے، اس لیے حکومت سے درخواست ہے کہ ہمارے راستے میں رکاوٹ ڈال کر ہمیں سرخرو ہونے کا موقع فراہم کرے جیسا کہ ہم مقدمات میں بھی سزایاب ہونے کے بعد سرخرو ہوتے چلے آئے ہیں کیونکہ ہمارے خلاف ہر فیصلے کا مطلب یہی ہوتا تھا کیونکہ اس تندیٔ بادِ مخالف کا مطلب یہی ہوتا تھا کہ
یہ تو چلتی ہے ''ہمیں‘‘ اونچا اڑانے کے لیے
آپ اگلے روز آزاد کشمیر میں جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
تحریک انصاف کشمیر کے الیکشن میں فاتح ہو گی: فردوس
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''تحریک انصاف کشمیر کے الیکشن میں فاتح ہو گی‘‘ جبکہ ہمارے خلاف سب سے زیادہ اور جھوٹا پروپیگنڈا مہنگائی میں اضافے کا ہے حالانکہ یہ ایک وبا ہے اور کورونا کے ساتھ ساتھ ہم اس کے بھی ازالے کی کوشش کر رہے ہیں اور جلد یا بدیر اس کے تدارک کے لیے بھی کوئی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ مہنگائی کی شکایت ان عوام کو ہے جو کام نہ کرنے کی وجہ سے غریب ہیں حالانکہ دوسروں کی طرح انہیں بھی کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے تا کہ کمائی کریں اور اس وبا کا مقابلہ کر سکیں، بجائے اس کے کہ وہ خود ایک وبا کی صورت اختیار کر کے حکومت کی بدنامی کا باعث ہوں۔ آپ اگلے روز سیالکوٹ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت فیل ہو چکی، ملک ایسے نہیں چل سکتا: شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت فیل ہو چکی، ملک ایسے نہیں چل سکتا‘‘ کیونکہ ملک صرف اسی طرح چل سکتا ہے جیسے ہم نے چلایا تھا اور جیسے بھائی صاحب لندن میں بیٹھ کر معاملات چلا رہے ہیں جبکہ حکومت کا فیل ہو جانا ایک الگ المیہ ہے کیونکہ کمیشن اور کک بیکس کا تو جیسے رواج ہی نہیں رہا، اور کرپشن بھی تیسرے درجے کی ہو رہی ہے جبکہ ہمارے وقتوں میں کم از کم درجہ بندی کا تو خیال رکھا جاتا رہا اور وہی کام کیا جاتا تھا جو ہمارے شایانِ شان ہوتا تھا، ان کا تو کوئی معیار ہی نہیں ہے لیکن کم از کم اپنی پوزیشن کا تو کچھ خیال کریں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
سیاسی حریفوں نے الیکشن سے قبل ہی
رونا دھونا شروع کر دیا: علی امین گنڈا پور
وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ''سیاسی حریفوں نے الیکشن سے قبل ہی رونا دھونا شروع کر دیا‘‘ حالانکہ ہم نے الیکشن کے بعد ان کے رونے دھونے کا وافر انتظام کر رکھا ہے اس لیے بہتر تھا کہ رونے دھونے کا یہ کام الیکشن کے بعد تک کے لیے چھوڑ دیتے، کیونکہ دھاندلی کے خلاف ان کا رونا دھونا ایک خاصے کی چیز ہوتا تھا ہم نے انہیں عبرت ناک شکست سے دو چار کرنے کا پورا انتظام کر رکھا ہے جو ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوگا اور یہ الیکشن چوری ہونے کا شور ہی مچاتے رہ جائیں گے کیونکہ یہی ان کی قسمت کا لکھا بھی ہے جسے صبر و شکر کے ساتھ انہیں قبول کر لینا چاہیے کہ قسمت کے لکھے کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ آپ اگلے روز اٹھ مقام پر کچھ دیگر وزرا کے ساتھ جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
نظام صدیقی
جدید تنقید ایک طرف نئے علوم کی بنیادوں پر کھڑی ہے تو دوسری طرف نئے فلسفیانہ رجحانات سے بھی جڑی ہوئی ہے اس لیے نئے تنقیدی نظریات پر اردو ادب کی پرکھ نقاد سے ایک خاص علمی بصیرت کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ اردو ادب کا المیہ ہے کہ نئی تنقید کے نام پر مغرب کے ان نظریات کے تراجم سے کام چلایا جا رہا ہے جن پر اب مغرب میں بھی بحث مباحثہ نہیں ہو رہا۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اردو میں اکثر تنقید نگار خود تخلیق کار نہیں‘ اس لیے وہ روایت سازی اور تخلیقی تجربے کی اہمیت کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔ سو ان کی اولین ترجیح بھی یہی ہے کہ صرف نصابی تقاضے پورے کیے جائیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی تنقید ایک محدود دائرے ہی میں قید رہتی ہے۔ ان حالات میں عالم فاضل نقاد نظام صدیقی کی تنقید نگاری نظریہ سازی کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے تفہیم کے نئے زاویے بنا رہی ہے۔ پاکستانی ادبی حلقوں کی خوش قسمتی ہے کہ ''ادبی دنیا‘‘ لاہور سے صدیقی صاحب کی تنقیدی کتب شائع ہو رہی ہیں۔ پاکستان سے نظام صدیقی کی پہلی کتاب ''مابعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک‘‘ کی اشاعت کا ذکر میرے کالم میں ہو چکا ہے۔ اب ان کی دوسری کتاب ''نئے عہد کی تخلیقیت کا تیسرا انقلاب‘‘ شائع ہو رہی ہے۔ اس کتاب کا خیر مقدم اس لیے بھی ہونا چاہیے کہ نظام صدیقی جدید ادب کے تنقیدی جائزے میں علمی بصیرت سے کام لیتے ہیں۔ وہ مغرب سے تراجم کے بجائے ان نظریات کی روشنی میں اردو ادب میں نظریہ سازی کے عمل کو آگے بڑھا رہے ہیں، گویا اردو تنقید کی خودی بیدار ہو رہی ہے۔ ان کی کتاب سے تخلیقیت کے نئے مفاہیم اور نئے زاویے سامنے آئیں گے۔ ان کتب کی اشاعت سے پاکستانی قارئینِ ادب کو وہ تنقیدی بصیرت مل رہی ہے جو نئے دور کے قاری کی ناگزیر ضرورت ہے۔
اور‘ اب آخر میں قمر رضا شہزاد کی غزل:
ہر گھڑی غصہ و ہیجان بھرا رہتا تھا
مجھ میں بھی آگ کا طوفان بھرا رہتا تھا
یہ شجر کٹنے سے پہلے کا کوئی واقعہ ہے
جب پرندوں سے یہ دالان بھرا رہتا تھا
مجھ میں رہتی تھیں کسی وقت بہت سی یادیں
قیدیوں سے مرا زندان بھرا رہتا تھا
دل کسی وجہ سے ویران ہوا ہے، ورنہ
اس حویلی میں تو سامان بھرا رہتا تھا
قہقہے گونجتے تھے شہر کے چوراہوں پر
کھیلنے والوں سے میدان بھرا رہتا تھا
اور بھی لوگ یہاں ہوں گے مگر میرے لیے
ایک ہی شخص سے ملتان بھرا رہتا تھا
آج کا مطلع
بندھی ہے بھینس کھونٹے سے نہ کوئی گائے رکھتے ہیں
مگر ہم دودھ کے بارے میں اپنی رائے رکھتے ہیں