تحریر : محمد عبداللہ حمید گل تاریخ اشاعت     19-07-2021

بلوچستان کی محرومیوں سے پہلوتہی کیوں؟

قائداعظم محمد علی جناح نے بلوچستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے فرمایا تھا ''پاکستان کا قیام انقلابی تغیر تھا جو یوں اچانک طور پر رونما ہوا کہ لوگ ابھی تک یہ بات نہ سمجھ سکے کہ آخر ہوا کیا۔ موجودہ آئین کے تحت بلوچستان کے ضمن میں حکومت کے نظم و نسق اور قانون سازی سے متعلق جملہ اختیارات گورنر جنرل کو حاصل ہیں لہٰذا میں ان حکومتی، انتظامی اور قانون سازی کے امور کے بارے میں ضروری کارروائی کا براہ راست ذمہ دار ہوں۔ صحیح یا غلط‘ یہ بوجھ میرے کاندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ آپ نے یہ بھی محسوس کر لیا ہو گا کہ ان برسوں کے دوران اس برعظیم میں سب سے زیادہ بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا ہے جن لوگوں پر بلوچستان کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری تھی بعض صورتوں میں تو وہ مجرمانہ تغافل کے مرتکب ہوئے۔ یہاں ایک صدی سے بھی پرانا ایسا نظام حکومت رائج ہے جس کی جڑیں بھی خاصی گہری ہیں۔ یہاں کی انتظامیہ ایک جمود کا شکار ہو چکی ہے۔ بلوچستان انتظامیہ کے سربراہ کی حیثیت سے یہ وہ مسئلہ ہے جس کا مجھے سامنا ہے اب آپ ان چیزوں کو راتوں رات تو تبدیل نہیں کر سکتے لیکن اگر ہم خادمانِ بلوچستان کی حیثیت سے مل جل کر خلوص، دیانت اور بے لوثی کے ساتھ کام کریں تو ہم حیرت انگیز ترقی اور پیش قدمی کر سکتے ہیں‘‘۔
قائد کا یہ خطاب آج بھی بلوچستان کی اہمیت اور اس کے کردار کے حوالے سے مشعلِ راہ ہے اور بلوچستان میں لگی بدامنی کی آگ کو قائداعظم کے فرمودات پر عمل کرکے ہی بجھایا جا سکتا ہے۔بلوچ عوام کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اورپاکستان کی ترقی بلوچستان کی ترقی سے جڑی ہے۔ دراصل گزشتہ دو دہائیوں سے افغان سرزمین کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے،بھارت نے بلوچستان میں بغاوت کی تحریکوں کو نہ صرف ہوا دی بلکہ پیسے کا بھی بے دریغ استعمال کیا۔ اب امریکی انخلا کے بعد خطے میں تبدیل ہوتی صورتحال کے اثرات جہاں پاکستان خصوصاً بلوچستان پر مرتب ہوں گے وہاں افغانستان میں بھارت کی کشتی بھی ڈوبتی نظر آرہی ہے۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان کا ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دینا نہایت خوش آئند بات ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر ناراض بلوچ کون ہیں؟ بلوچستان میں پشتونوں سمیت دیگر قومیں بھی آبادہیں‘ ان کی محرومیوں کا ازالہ کون کرے گا؟ شاہ زین بگٹی وزیراعظم کے بلوچستان کے لیے مفاہمت و ہم آہنگی کے امور پر معاونِ خصوصی مقرر کئے گئے ہیں۔ شاہ زین بگٹی کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا‘ انہیں ناراض بلوچوں سے بات چیت کا ٹاسک سونپا گیا ہے جو یقینا بلوچستان کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے۔ شاہ زین وفاق میں حکمران جماعت کے اتحادی ہیں۔ یہ تقرری اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ صوبے کو قومی دھارے میں شامل کیا جا رہا ہے؛ تاہم واضح رہے کہ وہاں بگٹی کے علاوہ دیگر قبائل بھی موجود ہیں جو یقینا اہم ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سب کو ایک جھنڈے تلے اکٹھا کرنے کے لیے بلوچ سرداروں کا جرگہ تشکیل دیا جائے۔ بلوچ قبیلوں کو متحد کرنے کا اس سے بہتر موقع میسر نہیں آ سکتا۔
درحقیقت بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے بگٹی خاندان کا مجموعی طور پر اہم کردار رہا ہے۔ لاپتا افراد کی بازیابی اور بلوچستان کی محرومیوں پر شاہ زین وقتاً فوقتاً کھل کر بات کرتے چلے آئے ہیں مگر کبھی انہوں نے ہتھیار اٹھانے کی بات نہیں کی۔ بلوچ سردار ہونے کے ناتے ان کے بڑے قبائل سے مراسم ہونا فطری بات ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے جو مشن انہیں سونپا گیا ہے وہ اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب شاہ زین بگٹی کی تعیناتی کے حوالے سے حکومتی حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ اس لیے یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ مذاکرات بانتیجہ اور بامقصد ثابت ہوں گے۔ اگر دیکھا جائے تو بلوچستان اور وفاق کے مابین خلیج دہائیوں سے موجود ہے۔ افسوس وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ انمول اور قیمتی معدنیات کے ساتھ بلوچستان میں سونے کی کانیں بھی ہیں۔ بلوچستان سے نکلنے والی قدرتی گیس دیگر صوبوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ زیر زمین تیل کے ذخائر بھی موجود ہیں اور پھر وفاق کی طرف سے بھی ہر دور میں بلوچستان کی ترقی کے لئے وسیع القلبی کا مظاہرہ دیکھا گیاہے مگر بلوچستان پسماندگی، غربت، مسائل اور مشکلات کی دلدل سے نہ نکل سکا۔ ماضی میں آغازِ حقوق بلوچستان پیکیج کا اعلان ہوا، پُر امن مفاہمتی پالیسی کا اجرا ہوا۔ پاک فوج کی طرف کیڈٹ کالجز اور تعلیم و روزگار کے منصوبے شروع کیے گئے۔ بلوچستان کے لیے حکومت کی جانب سے جس قدر بڑے بڑے مالیاتی پیکیجز سامنے آئے‘ اگر اُن پر ان کی روح کے مطابق عمل ہو جاتا تو بلوچستان کی پسماندگی کافی حد تک ختم ہو جاتی۔ بلو چستان میں محرومیوں کے نام پر مختلف دہشت گرد گروپ سرگرم ہیں جن کی قیادت بیرونِ ملک دشمن قوتوں کے وسائل پر پل رہی ہے جبکہ محرومی و پسماندگی کا شکوہ کرنے والا ہر بلوچ ہتھیار بند نہیں ہے۔ ان کے ساتھ بات چیت میں تاخیر اور دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے والوں کی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ایک دور میںوزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے جلاوطن رہنمائوں سے مذاکرات کیلئے بیرونِ ملک دورے بھی کیے تھے۔ ناراض بلوچوں کو راضی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا،لیکن اس کے لئے وفاق کو صبر اور تحمل کے ساتھ ساتھ دل بھی بڑا رکھنا پڑے گا۔ابھی پچھلے دنوں بلوچستان حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو دھینگا مشتی ہوئی‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے؛ چنانچہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زبانی جمع خرچ سے بڑھ کر بھی کچھ کرنے کی کوشش کرے۔ ماضی کے حکمرانوں کی جانب سے بھی ناراض بلوچوں سے مذاکرات کی باتیں کی گئیں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔اب بھی موجودہ حکمرانوں کی جانب سے اگر سنجیدگی اور بامعنی مذاکرات کیلئے ماحول کو سازگار نہ بنایا گیا تو کامیابی کے امکانات کم ہوں گے۔پرویز مشرف نے بھی بلوچوں سے مذاکرات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی مگر نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد معاملات مزید گمبھیر صورت اختیار کر گئے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کا سانحہ پیش نہ آتا تو آج یقینا بلوچستان کے حالات بہتر ہوتے۔
بلوچستان کے نئے گورنر ظہور آغا کی تقرری اس لحاظ سے امید افزا ہے کہ وہ صوبے اور وفاق کے مابین مؤثر رابطوں کا کردار ادا کریں گے۔ بلوچستان میں ناراضی کی سب سے بڑی وجوہ یہاں کی غربت اور پسماندگی ہے۔ جب تک روزگار کے مواقع، صحت عامہ کی سہولتیں، تعلیم جیسی بنیادی ضروریات میسر نہیں ہوں گی‘ یہ منزل ہنوز دور رہے گی، بلوچ سرداروں سے مفاہمت کا پہلو نکالنا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ عوام کو بنیادی سہولتیں اور ان کے حقوق برابری کے ساتھ پہنچانا بھی ریاست کا کام ہے۔ بلوچستان کے وسائل سے بلوچ عوام کو اتنا حصہ نہیں مل سکا جتنا کہ ملنا چاہئے تھا ،علاوہ ازیں بھارت نے صوبے میں پراکسی وار شروع کر رکھی ہے اور ایک عام بلوچ کی ذہن سازی کرتے ہوئے اسے گمراہ کیا جا رہا ہے۔ چونکہ ہمارے دشمن کے لیے سی پیک کی کامیابی ہی سب سے بڑی ناکامی ہے اس لیے وہ بوکھلاہٹ کے عالم میں ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے اس عظیم الشان پروجیکٹ کو سبو تاژ کرنا چاہتا ہے۔ آنے والے دور میں اقتصادی راہداری کی اہمیت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قائد کے وژن پر عمل کرتے ہوئے اتحاد و یگانگت سے معاملات طے کیے جائیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے بھارت کے اوسان خطا ہو چکے ہیں اور اس کی پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہر چال الٹی پڑ گئی ہے۔ طالبان کی پیش قدمی سے کابل سے اسے حمایت ملنا بند ہوگئی ہے؛ چنانچہ موجودہ بدلتے حالت میں بلوچستان سے بدامنی و تخریب کاری کے خاتمے کا سنہرا موقع ہے جسے حکومت کو کسی طور بھی گنوانا نہیں چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved