بہتا ہوا پانی پاک اور پینے کے قابل قرار دیا جاتا ہے جبکہ ٹھہرے ہوئے پانیوں میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے۔ تعفن کے ساتھ ساتھ اُس پانی میں صحت کا بیڑا غرق کردینے والی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ ایسے پانی کو پینے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ دریا اور جوہڑ کا یہی تو فرق ہے۔ معاشروں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جن معاشروں میں مجموعی طور پر معاملات رک گئے ہوں‘ اُن میں خرابیاں پیدا ہوتی جاتی ہیں۔ یہ خرابیاں اندرونی معاملات کو بگاڑتی ہیں جن کے نتیجے میں بیرونی چہرہ بھی داغدار ہوتا جاتا ہے۔ اندرونی خرابی کے نتیجے میں تعفن پیدا ہوتا ہے جو رفتہ رفتہ تمام معاملات کو خرابی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہم سب یہ تماشا دیکھ رہے ہیں مگر کر کچھ نہیں رہے۔ کسی بھی معاشرے میں خرابیوں کو پنپنے سے روکنے کی کوشش ہی اصلاح کی راہ ہموار کرتی ہے۔ محض تماشا دیکھتے رہنے سے خرابیوں کا دائرہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے پر اس وقت تھکن طاری ہے۔ پژمردگی نے بیشتر معاملات کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بے حسی کی کیفیت ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ حوصلے کمزور پڑچکے ہیں۔ ارادے شکستگی سے دوچار ہیں۔ فکر و عمل کا پورا ڈھانچا شدید اندرونی شکست و ریخت کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوا۔ کوئی بھی معاشرہ دیکھتے ہی دیکھتے بگاڑ کا شکار نہیں ہوتا۔ عشروں اور کبھی کبھی تو صدیوں کا عمل خرابیاں لاتا ہے۔ بہت کچھ ہے جو اندر ہی اندر لاوے کی طرح پکتا رہتا ہے اور پھر ایک دن لاوا پھٹ پڑتا ہے۔ بعض معاشروں میں معاملات لاوے کی طرح نہیں پھٹتے بلکہ خرابیاں بتدریج پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں خرابیاں اچانک بم کی طرح پھٹ کر وسیع البنیاد بگاڑ کی راہ ہموار نہیں کرتیں بلکہ خاصی سُست رفتاری سے معاملات کو بگاڑتی چلی جاتی ہیں۔ اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے۔ معاشروں میں پیدا ہونے والی خرابیاں کوئی ایسی حقیقت نہیں جس کے آگے ہتھیار ڈالے جائیں۔ کم و بیش ہر معاشرے میں سو طرح کی خرابیاں پائی جاتی ہیں اور ان کا دائرہ وسعت ہی اختیار کرتا جارہا ہے۔ ہر خرابی کے بطن سے چند ایک اچھائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ بالغ نظری ممکن بنانے میں کامیاب ہونے والے ہر خرابی کے بطن سے کچھ نہ کچھ اچھا بھی برآمد کرکے دم لیتے ہیں۔ اس معاملے میں منصوبہ سازی بھی اہم ہے اور نظم و ضبط بھی مگر اِن دونوں صفات سے بڑھ کر اہم ہے صبر و تحمل کی صفت۔ جن میں ڈٹے رہنے کی صلاحیت اور مزاج پایا جاتا ہے وہ معاملات کو کسی نہ کسی طور درست کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔ نظم و ضبط سے انسان بگڑے کام بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔حالات کا جبر کم و بیش ہر معاشرے میں اکثریت کو شدید الجھنوں سے دوچار رکھتا ہے۔ وسیع تر تناظر میں دیکھیے تو حالات کے جبر سے پیدا ہونے والی الجھنوں سے کوئی ایک انسان بھی بچا ہوا نہیں۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی حوالے سے چند ایک الجھنوں کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ بالغ نظری پروان چڑھی ہو تو انسان دیکھ سکتا ہے کہ ہر مشکل صورتِ حال تھوڑی بہت آسانی ضرور ممکن بناتی ہے۔ دنیا کا نظام اِسی طور چلتا ہے۔ اگر ہر بحرانی کیفیت محض الجھنیں پیدا کرنے تک محدود رہے تو پھر چل چکی یہ دنیا اور جی لیے ہم۔ خرابیوں کے بطن سے خوبیاں برآمد کرنے کے لیے فکری بالیدگی لازم ہے۔ مثبت سوچ رکھنے والے ہی مسائل کو حل کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ نریش کمار شادؔ کہتے ہیں ؎
قدم اٹھا کہ نئی منزلیں بلاتی ہیں
یہ بے حسی، یہ تھکن، یہ شکستگی کیا ہے
معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں دراصل ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی ہمیں دکھائی دیتی ہیں۔ اگر ہر تبدیلی سے خوفزدہ ہوکر جینے کی عادت ڈال لیں تو کسی بھی مسئلے کا حل نہیں سُوجھتا اور ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک نادیدہ خول میں بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی بھی کیفیت ہم پر اُس طاری ہوتی ہے جب ہم اُسے طاری ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ہر مسئلہ اپنے آپ میں اُتنا بڑا نہیں ہوتا جتنا ہم فرض کرلیتے ہیں۔ ارادوں کو کمزور نہ پڑنے دیا جائے تو معاملات ایک حد تک ہی خرابی کا شکار ہو پاتے ہیں۔ دل و دماغ پر شکست خوردگی کی کیفیت اُسی وقت طاری ہوتی ہے جب ہم اِس کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کی پیچیدگیاں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ فطری امر ہے کیونکہ حل کرنے کی کوششیں ترک کردیے جانے پر مسائل پیچیدہ تر ہوتے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہی ہوا ہے۔ بعض چھوٹے معاملات کو نظر انداز کرتے رہنے کی روش نے ہمیں بالآخر اس مقام تک پہنچادیا ہے جہاں اصلاحِ احوال کی گنجائش کم رہ جاتی ہے اور معاملات کی درستی یقینی بنانے کیلئے پورے وجود کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ سات عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران پاکستانی معاشرے میں غیر معمولی بحران رونما ہوتے رہے ہیں۔ ان بحرانوں نے اہلِ پاکستان کی ذہنی یا فکری ساخت کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ مشکلات اور مسائل نے بگڑتے بگڑتے ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ اب اُن کے حل کا تصور کرنے سے بھی جھرجھری سی آتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے معاملات کو ایک زمانے تک خاطر خواجہ توجہ سے محروم رکھا ہے۔ کسی بھی مسئلے کو اچھے طریقے سے اُسی وقت حل کیا جاسکتا ہے جب اُسے ابتدائی مرحلے ہی میں دیکھ لیا جائے، حل کرنے کا ذہن بنالیا جائے۔
معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے تو پہلے مرحلے میں سوچنے کی عادت دم توڑتی ہے اور پھر جذبۂ عمل بھی ساتھ نہیں دیتا۔ عمومی ذہنیت یہ ہوگئی ہے کہ معاملات کو کسی نہ کسی طور چلنے دیا جائے۔ کسی بھی بڑی اور نمایاں خرابی کو دور کرنے کے بارے میں کچھ کرنا تو دور کی بات، اُس کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کی روش عام ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ معاملات خود بخود درست ہو جائیں۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب معاملات خود بخود بگڑے ہوں۔ ایسا کبھی ہوتا نہیں! اس لیے معاملات کے خود بخود درست ہونے کی کچھ گنجائش نہیں۔ اس دنیا بلکہ کائنات میں کچھ بھی کسی سبب کے بغیر نہیں ہوتا۔ دنیا کی ہر خرابی کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہے یعنی کہیں کچھ ہوا ہوتا ہے تبھی خرابی ظاہر ہوتی ہے۔ اِسی طور کوئی معاملات کو درست کرنے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو درستی ممکن ہو پاتی ہے اور دکھائی دیتی ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے کہ جب بھی خرابیاں بڑھتی ہیں تب کچھ اچھا ہونے کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ زندگی کا سفر اِسی طور جاری رہتا ہے۔ ہم اپنے مسائل ہی سے کچھ کرنے کی تحریک پاسکتے ہیں۔ ہر مشکل ہمیں بہت کچھ کرنے کا حوصلہ بھی عطا کرسکتی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم مثبت سوچ کے ساتھ جیتے ہیں یا نہیں۔ کسی بھی بحرانی کیفیت سے خوفزدہ ہو جانے کی صورت میں فکر و عمل کی راہ مسدود ہو جاتی ہے۔ کچھ کر دکھانے کا عزم مثبت سوچ کے بغیر پنپتا نہیں۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کے مثبت پہلوؤں پر نظر رکھیے تاکہ جذبۂ عمل سرد نہ پڑے۔
شکست خوردہ ذہنیت سے چھٹکارا پانے پر خاص توجہ دی جانی چاہیے۔ جب انسان حالات سے خوف کھانے لگتا ہے تب کچھ کرنے کی لگن دم توڑنے لگتی ہے۔ شکست خوردہ ذہنیت انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی منزل سے بھی دور لے جاتی ہے۔ جب شکست کو تسلیم ہی کرلیا جائے تو پھر رہ کیا گیا؟ ایسے میں انسان سوچی، سمجھی بات کو بھی نظر انداز کرنے لگتا ہے۔ زندگی کی بازی جیتنے کیلئے مثبت طرزِ فکر و عمل کا حامل ہونا شرطِ اول ہے۔ جس نے اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے میں کوتاہی کا ارتکاب کیا وہ اپنی ہی پیدا کردہ تاریک راہوں میں مارا گیا۔ آج کا ہمارا معاشرہ طرح کی طرح کی پیچیدگیوں سے اٹا ہوا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ قومی سطح پر کوئی ایسا انتظام کیا جائے کہ مثبت سوچ کو پروان چڑھانے میں مدد ملے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے ہی پر مزید بہتری کی منصوبہ سازی ممکن ہے۔