تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-07-2021

پرانے خاندان اور نئی انٹری

میں کالم در کالم کا قائل نہیں ہوں کہ یہ سلسلہ چل پڑے تو یہ بھی گویا ''کچی لسی‘‘ جیسا معاملہ ہے پانی ڈالتے جاؤ اور بڑھاتے جاؤ؛ تاہم گزشتہ سے پیوستہ کالم کے حوالے سے کچھ باتیں نامکمل رہ گئیں تھیں اور کچھ باتیں درمیان میں ایسی آ گئیں کہ ان کا جواب دینا اور وضاحت کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ کالم دو خاندانوں کے ناموں پر مشتمل حکومتی منصوبہ جات پر تھا۔ اس میں ایک فہرست تھی جو نواز شریف اور بھٹو خاندان کے ناموں پر سرکاری کالجوں‘ ہسپتالوں اور پارکوں وغیرہ کے ساتھ ساتھ پورے شہر کا نام تبدیل کر دینے پر مشتمل تھی۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں تو لائل پور کا نام فیصل آباد رکھنے اور منٹگمری کا نام ساہیوال رکھنے کے بھی خلاف تھا۔ نام تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں۔ نام بدلنے سے زیادہ ذہنیت بدلنے کی ضرورت تھی لیکن ہم نے الٹ کام کیا۔ گوروں کے نام بدل دیے مگر ان کی ذہنی غلامی سے خود کو آزاد نہ کر سکے۔ اب بھلا آپ ایمانداری سے بتائیں لائل پور کا نام تبدیل کر کے فیصل آباد رکھنے کا کیا جواز تھا؟ کوئی ایک منطقی دلیل؟ شاہ فیصل ہمارے لیے قابلِ احترام تھے مگر احترام کا تقاضا یہ نہیں کہ ایک ایسے بسے بسائے شہر کا نام بدل دیا جائے جو سراسر گوروں نے بسایا‘ اس کا نقشہ یونین جیک کے ڈیزائن پر بنایا‘ اس شہر کو آباد کرنے کی غرض سے نہریں کھدوائیں اور اس آباد ہونے والے نئے شہر کا نام تب پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر جیمز لائل کے نام پر لائل پور رکھا۔ ہم نے 1892ء میں بننے والے اس شہر کا نام بیک جنبشِ قلم پچاسی سال بعد 1977ء میں فیصل آباد رکھ دیا۔ مزے کی بات ہے کہ یہ وہ شہر ہے جس میں مرحوم شاہ فیصل نے کبھی قدم بھی نہیں رکھا تھا۔ بقول شاہ جی! اگر ہم مفت تیل کی سپلائی کی بنیاد پر شاہ فیصل کے نام کچھ معنون کرنا بھی چاہتے تھے تو دنیا کا سب سے بڑا پٹرول پمپ لگاتے اور اس کا نام شاہ فیصل پٹرولیم سروس رکھ دیتے مگر ایک بھرے پرے بسے بسائے شہر کی پوری تاریخ ملیا میٹ کر کے رکھ دی گئی۔
یہی کچھ نواب شاہ کے ساتھ ہوا اور اس کا نام شہید بے نظیر آباد رکھ دیا گیا۔ کیا اچھا ہوتا اگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی مرحومہ لیڈر کے نام پر نیا شہر بسا لیتی۔ کچھ تو کرتی۔ ایک نوٹیفکیشن جاری کیا اور صدیوں پر مشتمل تاریخ کو کوڑے دان میں ڈال دیا۔ 1912ء میں اس علاقے سے تعلق رکھنے والے معزز سید خاندان نے برطانوی حکومت کو ایک ریلوے سٹیشن کے قیام کیلئے دو سو ایکڑ زمین عطیہ کی اور اس کا نام اس خاندان کے ایک بزرگ سید نواب شاہ کے نام پر رکھ دیا گیا۔ 2008ء میں یعنی چھیانوے سال بعد نواب شاہ کو ایک حکم نامے کے ذریعے شہید بے نظیر آباد بنا دیا گیا۔1889ء میں آباد ہونے و الا فورٹ سنڈیمن 1976ء میں ژوب بنا دیا گیا۔ 1876ء میں آباد ہونے والے قصبے منڈی ڈھاباں سنگھ کا نام شہباز شریف نے (ن) لیگ کے سابقہ مقتول ایم پی اے صفدر الحق ڈوگر عرف ''چھبا ڈوگر‘‘ کے نام پر ''صفدرآباد‘‘ رکھ دیا۔ آپ کو چھبا ڈوگروالی عرفیت سن کر اس مقتول ایم پی اے کی ساری شخصیت سمجھ تو آ گئی ہو گی۔
گزشتہ کالم میں دی گئی فہرست سے تیسرا خاندان سہواً رہ گیا تھا۔ یہ عبدالغفار خان عرف سرحدی گاندھی عرف باچا خان کا خاندان ہے۔ پشاور ایئر پورٹ کا نام باچا خان انٹرنیشنل ایئر پورٹ ہے۔ 1927ء میں بننے والے پشاور ایئر پورٹ کا نام 2012ء میں صوبے کی حکمران عوامی نیشنل پارٹی نے بدل کر باچا خان انٹرنیشنل ایئر پورٹ رکھ دیا اور 2012ء میں ہی چارسدہ میں بننے والی سرکاری یونیورسٹی کا نام باچا خان یونیورسٹی اور مردان میں بننے والے میڈیکل کالج کا نام بھی باچا خان میڈیکل کالج رکھ دیا گیا۔ کیا عجیب ملک ہے؟ باچا خان نے جون 1947 ء کو ''بنوں ریزولیوشن‘‘ کے نام سے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیاتھا کہ پشتون قوم کو مجوزہ پاکستان میں شامل کرنے کے بجائے ایک علیحدہ وطن پختونستان دیا جائے جو برطانوی حکومت نے مسترد کر دیا جواباً عبدالغفار خان اور اس کے بڑے بھائی عبدالجبار خان نے 1947ء میں پاکستان یا ہندوستان میں شمولیت کیلئے ہونے والے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر کے عملی طور پر عبدالغفار خان نے نہ صرف پاکستان میں شمولیت سے صاف انکار کر دیا بلکہ یہاں تک کہا کہ وہ افغانستان میں موجود پشتون اکثریت کے علاقے کے ساتھ الحاق کرنے کیلئے تیار ہیں۔ عبدالغفار خان عرف باچا خان عرف سرحدی گاندھی ایک علیحدہ سے موضوع ہے؛ تاہم آخری تھپڑ جو مرحوم نے پاکستان کے منہ پر مارا وہ یہ تھا کہ مرنے سے پہلے اس نے وصیت کی کہ وہ پاکستان میں دفن ہونے کے بجائے افغانستان میں دفن ہونا پسند کرے گا۔ 1988ء میں ستانوے سال کی عمر میں وفات پانے والے سرحدی گاندھی کو جلال آباد (افغانستان) میں دفن کر دیا گیا۔ آج ملک میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ‘ ایک عدد یونیورسٹی اور ایک میڈیکل کالج اس شخص کے نام پر ہے جو اس مملکتِ خداداد کے قیام اور اس میں شمولیت کا مخالف تھا اور اس میں دفن ہونے سے انکاری تھا۔ سبحان اللہ! کیا دشمن پرور ملک ہے پاکستان بھی۔
انہی ناموں سے یاد آیا کہ خیبرپختونخوا میں مینگورہ کے نواح میں منگلور کے مقام پر ایک عدد نواز شریف کڈنی ہسپتال تھا۔ یہ لفظ ''تھا‘‘ اس لیے استعمال کیا ہے کہ چند روز قبل خیبرپختونخوا کی کابینہ نے اس کا نام تبدیل کر کے سابقہ والی سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب کے نام پر رکھ دیا ہے۔ اگر نام کی تبدیلی اصولی بنیادوں پر ہو رہی ہے تو پھر باچا خان ایئر پورٹ‘ باچا خان یونیورسٹی اور باچا خان میڈیکل کالج کا نام بھی تبدیل ہونا چاہیے۔ ہاں! اگر یہ تبدیلی ٔنام صرف اور صرف میاں نواز شریف مخالفت کی بنیاد پر ہے تو پھر اس تبدیلی کو ہمارا سلام ہے۔گزشتہ کالم کے حوالے سے ایک صاحب نے بڑی چیخ و پکار مچائی اور میاں صاحبان کے نام پر ہمارے ٹیکسوں سے بننے والے پروجیکٹس کا موازنہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال سے کرتے ہوئے اس کا نام بھی اسی فہرست میں ڈالنے کا مطالبہ داغ دیا۔ اس قاری کے نزدیک ڈونیشن (عطیہ) ہمارے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی رقم ''پبلک منی‘‘ ہے۔ ٹیکس دینا میری قومی ذمہ داری ہے اور اسے ایمانداری سے استعمال کرنا حکومتی ذمہ داری ہے؛ تاہم اس ٹیکس کی رقم کا استعمال سرکاری صوابدید پر ہے جبکہ ڈونیشن دینا میری مرضی ہے اور میں برضا و رغبت یہ رقم کسی خاص مقصد کیلئے قائم ٹرسٹ وغیرہ کو دیتا ہوں۔ چندے کیلئے برسوں دنیا بھر میں بھاگ دوڑ کرنے کے بعد اپنی والدہ کے نام پر بنائے گئے اس کینسر ہسپتال کا موازنہ بھلا میرے اور آپ کے پیسوں سے بنائے گئے سرکاری ہسپتال‘ کالج‘ یونیورسٹی‘ سپورٹس کمپلیکس اور پُل وغیرہ کا نام اپنے یا اپنے رشتہ داروں کے نام پر رکھنے سے کیسے ہو سکتا ہے؟
صغریٰ شفیع ہسپتال‘ سندس فاؤنڈیشن‘ ثریا عظیم ہسپتال اور سب سے بڑھ کر ایدھی فاؤنڈیشن‘ وہ پروجیکٹس ہیں جو سراسر چندے سے چل رہے ہیں مگر ان کے نام اس کا بیڑہ اٹھانے والوں نے اپنی مرضی سے رکھے ہیں۔ زکوٰۃ‘ صدقات اور عطیات کیلئے خواری اٹھانے والوں کو اتنا حق تو حاصل ہونا چاہیے۔ مجھے ذاتی طور پر شریف میڈیکل سٹی کے نام پر کوئی اعتراض نہیں خواہ اس کا بیشتر خرچہ شریف خاندان کے کاروباری اداروں سے ٹیکس کی مد سے عطیہ کیا جا رہا ہے لیکن مجھے بہر حال اس بات پر ضرور اعتراض ہے کہ تونسہ بیراج پر ایک سو ملین روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ٹورازم پارک کا نام سردار عثمان بزدار اپنے نام پر رکھ رہے ہیں۔ ناموں کی اس دوڑ میں وسیم اکرم پلس نئی انٹری ہیں۔اس ملک میں ایک طے شدہ روایت تھی (اور شاید قانون بھی)کہ کسی شخصیت کی زندگی میں اسکے نام پر کسی سرکاری پروجیکٹ کا نام نہیں رکھا جا سکتا۔ اب ان حضرات کی نبض تو چل رہی ہے؛ تاہم یہ پتا نہیں کہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔ ویسے ضمیر بھی زندگی کی علامت ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved