تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     20-07-2021

قربانی اور اجتہاد

کورونا کے دنوں میں قربانی کیسے ہوگی؟
آج کا سب سے اہم سوال یہی ہے۔اس کا مخاطب حکومت بھی ہے اور معاشرہ بھی۔خواص بھی اور عوام بھی۔علما اور بھی عامی بھی۔سب کو سوچنا ہے کہ وبا کے دنوں میں سب کو بروئے کار آنا ہے۔تنہا حکومت کچھ نہیں کر سکتی اگر عوام ساتھ نہ دیں اور عوام بھی کچھ نہیں کر سکتے اگر حکومت کوئی واضح حکمتِ عملی طے نہ کرے۔
مذہب اور معیشت‘دو اہم امور قربانی کے ساتھ جڑے ہیں۔قرآن مجید نے جسے 'ذبحِ عظیم‘ کہا‘اس کا منظر ہم دس ذو الحج کو دنیا بھر میں دیکھتے ہیں۔ قربانی کی عبادت‘الہامی مذاہب میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔اس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا۔قرآن مجید نے بتایا ہے کہ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں نے خدا کے حضور میں قربانی پیش کی۔ایک کی قربانی قبول کر لی گئی‘دوسرے کی رد کر دی گئی۔تورات نے بھی اس کا بیان کیا؛تاہم اسے 'ذبحِ عظیم‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی نے بنایا۔
اس کی معاشی اہمیت بھی ہے۔لوگ سال بھرجانورپالتے ہیں اوران دنوں کا انتظار کرتے ہیں جب ملک بھر میں منڈیاں لگتی ہیں۔اجناس کے بعد زرعی معیشت کا بڑا انحصار مویشیوں کی خریدو فروخت پر ہے۔فصل خراب ہو جائے یا مویشی وقت پر بک نہ سکیں تو ایک کسان کی معیشت تہ و بالا ہو جاتی ہے۔ یوں معاشی پہلو بھی ایسا ہے جسے نظر انداز کرنا آسان نہیں۔
کورونا نے مگر جو چیلنج کھڑا کر دیا ہے‘اس سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ان دنوں یہ وبااپنے عروج پر ہے۔ اندازہ ہے کہ اگست کے وسط تک اس کے جوش میں کمی نہیں آئے گی‘مگر یہ کہ پروردگارچاہے! ہمیں معلوم ہے کہ مذہبی مناسک و رسوم ہی نہیں‘ معیشت بھی اس کی زد میں ہے۔دونوں معاملات اجتہاد کے متقاضی ہیں۔تفقہ فی الدین ہی نہیں‘ تفقہ فی الدنیا بھی لازم ہو چکا۔
مذہب کے باب میں ان لوگوں کافرمایامستند ہو نا چاہیے جنہیں تفقہ فی الدین حاصل ہے۔پاکستان کے استثنا کے ساتھ‘دنیا بھر کے علما متفق تھے کہ چونکہ انسانی جان کو بچانا‘دین کا اولیں تقاضا ہے‘اس لیے بیت اللہ سمیت سب مساجد کو بند کردیاجائے۔یہی نہیں‘اس بار حج کا عالمگیر اجتماع بھی منعقد نہیں ہو رہا۔نماز اورحج فرض عبادات ہیں۔یہ ایمان کا معیار ہیں۔جو نماز نہ پڑھے اوراستطاعت کے باوجود حج نہ کرے‘اس کا ایمان معتبر نہیں رہتا۔اس غیر معمولی اہمیت کے باوصف‘نمازکو باقی رکھا گیا مگر اسے گھروں تک محدود کر دیا گیا۔حج بھی ہوا مگرآفاقی زائرین کے بغیر۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ قربانی کی عبادت بھی زندہ رہے گی مگر نئے حالات کی رعایت رکھتے ہوئے۔علما کا امتحان یہ ہے کہ وہ اس باب میں کیا راہ نمائی کرتے ہیں۔جہاں تک ہماری علمی روایت کا تعلق ہے‘جمہور کے نزدیک قربانی واجب نہیں ہے۔انفرادی سطح پر مستحب تو ہے لیکن اسے نماز‘حج کی طرح فرض نہیں کہا جا سکتا۔ احناف میں قاضی ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کا موقف بھی یہی ہے۔اگرایک اجتماعیت کانمائندہ قربانی دے دے تویہ قربانی اس عبادت کے زندہ رکھنے کے لیے کفایت کرے گی۔یہ نمائندہ گھر کا سربراہ ہو سکتا ہے اور ایک ملک کا بھی۔
احناف کا موقف یہ ہے کہ قربانی واجب ہے۔یہ ہر صاحبِ نصاب کے لیے ضروری ہے۔ہمارے ہاں چونکہ فقہ حنفی کی اکثریت ہے‘اس کے لیے اس رائے کا غلبہ ہے۔یہ اب حنفی علما کا امتحان ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں جمہور کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں یااپنے فقہی موقف کو؟ علما جو اکثر مدارس سے متعلق ہیں‘ ان کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ ہے اور اس کی ایک خاص وجہ ہے‘جس کا آگے ذکر ہو گا۔
ہم جانتے ہیں کہ قربانی کے دنوں میں مویشی پالنے والے گاؤں سے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ہر شہر میں بڑی بڑی منڈیاں آباد ہوتی ہیں۔ ہزاروں جانور اور ان کے ساتھ سینکڑوں افراد عارضی نقلِ مکانی کرتے ہیں۔ اس سے سماجی اختلاط کا ایک بڑا موقع پیدا ہوتا ہے‘ جس سے گریز ناممکن ہے۔یہ معلوم ہے کہ یہ اس وبا کے عروج کے دن ہیں۔یہ اختلاط کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے‘اس کا اندازہ کر نامشکل نہیں۔
اس باب میں دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ اس اختلاط کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے اورساتھ عوام کی بھی۔رمضان اور عید کے دنوں میں جو بے احتیاطی ہوئی‘اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔اگر ہم اس کو دہرانے پر اصرار کریں گے تو یہ اجتماعی خود کشی ہوگی۔اس لیے لازم ہے کہ اس بارے میں ابھی سے کوئی دو ٹوک موقف اختیار کیا جائے۔
علما کے لیے یہ فیصلہ کیوں مشکل ہے؟اس کی ایک وجہ معاشی ہے۔ مدارس کی معیشت کا بڑا انحصار قربانی کی کھالوں پر ہے۔اگر قربانی کو محدود کر دیا جائے تو ظاہر ہے کہ مدارس کی آمدن کم ہو جائے گی۔علما کو اب یہ دیکھنا ہے کہ دین کی روح کیا تضاضا کرتی ہے؟ اپنی فقہی مسلک اور معاشی ضروریات کا لحاظ یا انسانی جان کی حفاظت؟رہی قومی معیشت کی بات تو وہ میں واضح کر چکا۔ اس کے ساتھ زراعت سے متعلق افراد کی معیشت بھی وابستہ ہے۔حکومت کو ان کے مفاد کو بھی سامنے رکھنا ہے۔یہ وہ پیچیدہ صورتِ حال ہے جس میں سب کو مل کر کوئی فیصلہ کرنا ہے۔میری تجویز یہ ہو گی کہ اس سال قربانی کو محدود کر دیا جائے۔ شہروں کے باہر منڈیوں پر پابندی لگا ئی جائے اور حج کی طرح قربانی کا اہتمام ریاستی سطح پرہو۔صرف گھرکا سربراہ قربانی کرے۔وہ حکومت کو مقررہ رقم فراہم کردے‘بکرے اور گائے کی قیمت کی رعایت سے۔ حکومت سرکاری مشینری کے ذریعے قربانی اور متعلقہ گھروں میں گوشت پہنچانے کا اہتمام کرے۔ اگر یہ انتظام ہر شہر کی سطح پر ہو تو قابلِ عمل ہے۔بڑے شہروں کو ایک سے زائد حلقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ اس کے بعد قربانی پر اصرار کریں‘ان کو یہ کہا جائے کہ اس پیسے کو انفاق کر دیں۔وہ چاہیں تو رقم کسی مدرسے کو دے دیں۔چاہیں تو کسی رفاہی ادارے کو۔بہتر ہو گا کہ اس موقع پر' الخدمت‘ اور' اخوت‘ جیسے اداروں کو یہ رقم دے دی جائے جو کورونا کے معاشی اثرات کو کم کرنے کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں۔اس سے قربانی کا جذبہ بھی زندہ رہے گا اور یہ عبادت بھی۔
مدارس کے معاشی مسائل کے حل کے لیے ایک تو ان پانچ ارب روپے کو استعمال کیا جائے جو اس سال بجٹ میں ان کے لیے مختص کیے گئے۔ دوسرے یہ کہ مدارس کو بجلی گیس کے بلوں پر سب سڈی دی جائے جس کا ان کی طرف سے مطالبہ ہورہا ہے۔اس سے ان کے اُس نقصان کی کسی حد تک تلافی ہو جائے گی جوقربانی کی کھالیں نہ ملنے سے انہیں پہنچے گا۔رہا ان کا نقصان جنہوں نے اس خاص موقع کے لیے مویشی پالے ہیں تو اس کا بھی جائزہ لیاجائے۔سرکاری مشینری‘ بالخصوص پٹواری نظام کی مدد سے ان کا سروے کیا جائے اوران کے نقصان کی تلافی کا اہتمام کیا جائے۔یہ تلافی بھی پوری طرح نہیں ہو پائے گی؛ تاہم اگر کچھ ازالہ ہوجائے تو وہ بڑے نقصان سے بچ جائیں گے۔موجودہ حالات میں تو سب ہی خسارے میں ہیں۔اب وقت ہے کہ اس خسارے کو حکومت اور عوام آپس میں بانٹ لیں۔یہ وقت ہے اجتہاد کا‘دین میں بھی اورامورِ دنیا میں بھی۔ قربانی کے معاملے کوایسا موضوع بنانا ہوگا کہ عوام کی تربیت بھی ہو سکے اور اس کے ساتھ ان لوگوں کو بھی تسلی مل سکے جو منڈ ی لگنے کے منتظر ہوتے ہیں‘جہاں ان کے جانور فروخت ہوتے ہیں اور ان کے معاشی مسائل حل ہونے کی صورت پیدا ہو تی ہے۔یہ علما کی آزمائش ہے اور حکومت کی بھی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں سر خرو کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved