تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     15-07-2013

سب سے پہلے مسلمان

ایسے فقرے اور ایسے دعوے تاریخ میں ہمیشہ گونجتے رہے اور پھر اپنے انجام تک پہنچتے رہے۔ کہیں اللہ انسانوں کو نورہدایت سے سرفراز کردیتا اور کہیں کروڑوں انسانوں کا خون بہانے کے بعد انسانوں کو ہوش آتا اور وہ اپنے اس دعوے اور نعرے سے توبہ کرلیتے۔ یہ نعرہ میرے ملک میں گزشتہ سات دہائیوں سے لگایا جارہا ہے۔ اس نعرے اور فقرے کی چاشنی مزے کی ہے۔ اسے عالمی میڈیا اپنے مقاصد کے لیے اچھالتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والی خونریزی میں اس کو خبریں ملتی ہیں اور اس کا کاروبار چمکتا ہے۔ فقرہ بہت سادہ سا ہے اور بے ضرر بھی محسوس ہوتا ہے لیکن دنیا میں نفرت کی بنیاد اسی فقرے سے پڑتی ہے۔ عظیم قوم پرست رہنما اس فقرے کو اس طرح باربار دہراتے ہیں ’’ہم چارہزار سال سے پشتون، بلوچ، سندھی اور پنجابی ہیں جبکہ چودہ سوسال سے مسلمان اور صرف چھیاسٹھ برس سے پاکستانی‘‘ یوں وہ گزرے وقت کی گنتی کرتے ہوئے لسانی اور نسلی تعصب کو ایک بنیاد فراہم کررہے ہوتے ہیں۔ یہی فقرے دنیا کے ہرنبی کے سامنے اسی انداز میں پیش کیے جاتے رہے اور ہرنبی کا صرف اور صرف ایک ہی جواب ہوتا ’’انااوّل المسلمین‘‘ (میں سب سے پہلے مسلمان ہوں)۔ چارہزار سال سے عرب یا قریش ہونے کی منطق ابوجہل نے بھی پیش کی تھی جسے تمام اہل قریش ابوالحکم یعنی دانائی کا باپ کہتے تھے ۔ لیکن اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل یعنی جہالت کا باپ قرار دیا‘ اس لیے کہ چار ہزار سال سے اگر کوئی شخص جہالت پر قائم ہے تو اس کا یہ سارا عرصہ حق اور سچائی کے ایک دن کے بھی برابر نہیں تولا جاسکتا۔ یہ چارہزار سال سے پشتون، بلوچ، پنجابی اور سندھی اور چودہ سوسال سے خود کو مسلمان کہنے والے صرف مملکت خداداد پاکستان میں ہیں۔ یہی پنجابی اور سندھی بھارت میں یہ بات نہیں کرتے۔ وہاں ان کا بڑے سے بڑا دانشور اور ادیب بھی یہ بات کہتا ہے کہ ہم صدیوں سے یہاں کے رہنے والے ہیں‘ ہندومت ہمارا دھرم ہے اور جو ہندودھرم چھوڑتا ہے وہ دراصل اپنی نسل کو بھی چھوڑتا ہے۔ یہی بات میرپورخاص کے ایک راجپوت کو رانا چندر سنگھ نے کہی تھی کہ تم کیسا راجپوت ہے جو مسلمان ہوگیا، تم تو راجپوت نہیں رہا، راجپوت اپنا دھرم نہیں چھوڑتا ۔ یہ پشتون سرحد سے پار افغانستان میں یہ نعرہ بلند نہیں کرتے۔ وہاں تو قندھار سے کابل اور غزنی تک کسی کو ایک ہی طعنہ دیا جاتا ہے۔ ’’تہ سنگ پشتانہ دی منزنہ کیہ‘‘ (تم کیسا پشتون ہے کہ نماز نہیں پڑھتا) ۔ وہاں کسی کو چودہ سوسال سے مسلمان اور چار ہزار سال سے پشتون یادنہیں آتا۔ یہ جو مملکت افغانستان ہے یہ احمد شاہ ابدالی نے علیحدہ حیثیت سے تراشی تھی، ورنہ تو اس خطے پر سائرس اعظم سے لے کر نوشیروان اور ترکوں اور ایرانیوں نے صدہاسال حکومت کی اور اسے اپنی سلطنت کا حصہ بنائے رکھا۔ افغانوں کے ہاں احمد شاہ ابدالی تو ابھی تقریباً دوسوسال پہلے کی بات ہے۔ یہی کیفیت بلوچوں کی ایران میں ہے۔ کسی کو وہاں قوم پرستی یاد نہیں آتی۔ وہ خطہ جسے ایرانی بلوچستان کہتے ہیں وہاں اتنے ہی بلوچ آباد ہیں جتنے پاکستان میں ہیں۔ ان کے بازاروں میں فارسی بولی جاتی ہے، ان کے دفتروں، سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں میں فارسی کا دور دورہ ہے۔ ان کے ممبران پارلیمنٹ میں ایک بھی بلوچ نمائندہ شامل نہیں۔ ان کا گورنر ، کمشنر یا میئر تک سب کے سب تہران اور اصفہان جیسے شہروں سے بلاکر لگائے جاتے ہیں۔ لیکن وہاں کسی کو چارہزار سال والی کہانی یاد نہیں آتی۔ وہاں تو ایرانی صفوی حکمرانوں نے بلوچوں کی پوری کی پوری نسلوں کو ختم کیا۔ آل بویہ نے تو ان کے قبیلوں کے قبیلے قتل کیے۔ کرمان‘ سیستان اور مکران کے علاقے بڑی بڑی بادشاہتوں کے زیرنگیں رہے‘ لیکن وہاں کسی کو چودہ سو سال سے مسلمان اور پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والی ایرانی سلطنت کی عمر یاد نہیں آتی۔ پوری دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو خالصتاً ایک نسل، ایک زبان اور ایک رنگ کے لوگوں پر مشتمل ہو۔ ہرطرح کی زبان بولنے اور نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ دنیا بھر میں بٹے ہوئے ہیں یا بانٹے گئے ہیں۔ یہ تو جنگ عظیم اول کی برکات ہیں کہ دنیا کے نقشے پر لکیریں ڈال کرایساتقسیم کیا گیا کہ بلوچ تین ملکوں میں ہیں تو کُرد چار سے زیادہ ملکوں میں‘ بابر کی بستی فرغانہ ایک چھوٹا سا خطہ تھا لیکن ترک مسلمانوں کی دلیری کی علامت تھا‘ اسے تین ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی اب صرف ایک ہی نعرہ لگاتا ہے کہ ہم چار ہزار سال سے فلاں ہیں‘ لیکن چار ہزار سال پہلے آپ کیا تھے اور کہاں تھے۔ اگر وقت کی منطق ہی اہم ہے اور اسی پر قومیت کا دارو مدار ہے تو پھر تم سب لوگ افریقہ کے جنگلوں میں تھے یا ایشیائے کوچک میں آریائی قبائل کی صورت زندگی بسر کرتے تھے۔ قحط‘ خشک سالی اور مصیبتوں نے تمہارا وہ حال کیا کہ تم نے اپنی ماں یعنی مادر وطن کو خیرباد کہا‘ اس پر لعنت بھیجی‘ اِدھر اُدھر چلے آئے‘ اور اب تم کہتے ہو کہ چار ہزار سال سے یہ ہمارا وطن ہے۔ یہی دعویٰ قریش کا تھا۔ یہی نعرہ ابو جہل کا تھا۔ ہم ہزاروں سال سے عرب ہیں‘ قریش ہیں۔ صدیوں سے ہماری روایات ہیں۔ ہمارے آبائو اجداد کی رسوم ہیں۔ تم کون ہوتے ہو کہنے والے کہ ہم پہلے مسلمان ہیں۔ لیکن یہ غلغلہ ہر نبی نے ہر ایسی ہی قوم کے سامنے بلند کیا۔ کئی ہزار سال مصر پر حکمرانی کرنے والے فرعونوں کے سامنے حضرت موسیٰؑ نے‘ قدیم بابل اور نینویٰ کی تہذیب کے حکمران نمرود کے سامنے حضرت ابراہیم ؑ اور عرب کے تکبر میں تنے ہوئے سروں کے سامنے میرے آقاﷺ نے یہ دعویٰ اور یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں۔ اور کس قدر خوش قسمت اور خوش بخت ہیں ہم لوگ جو اس پاکستان میں رہتے ہیں‘ اس لیے کہ برصغیر پاک و ہند تقسیم ہو رہا تھا تو ہم دنیا میں وہ واحد قوم تھے جنہوں نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ ’’ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں‘‘ اس لیے ہمارا ملک علیحدہ کردو۔ ہم سب سے پہلے مسلمان نہ کہلاتے تو پاکستان نہ بنتا‘ اگر ہمیں چار ہزار سال پہلے کی قومیتیں یاد رہتیں تو پھر بھی پاکستان نہ بنتا۔ ہم سب سے پہلے مسلمان ہوئے تو اس کے انعام میں اللہ نے پاکستان دیا۔ اسی لیے اس سے محبت ایمان کا حصہ ہے کہ یہ ایمان کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ اور کیسے ہو سکتا ہے کہ ایمان پر قائم ہونے والے ملک کے مقابل باطل قوتیں چین سے بیٹھیں‘ وہ تو سامنے آئیں گی۔ تاریخ شاہد ہے‘ ہر نسل پرست اور قوم پرست نے ایک ہی دعویٰ کیا ہے کہ ہم چار ہزار سال سے… اور ہر نبی نے ایک ہی اعلان کیا ہے میں سب سے پہلے مسلمان ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved