تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     20-07-2021

ڈار سے بچھڑی کونجیں اور صحنِ حرم

منور بدایونی نے کیا کمال کی نعت کہی ہے۔ یہ نعت بابِ حرم اور درِحبیبؐ کی حاضری کے لیے سوزوتڑپ رکھنے والوں کے جذبوں کی خوب ترجمانی کرتی ہے۔ اس نعت کا ذرا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
جسے چاہا در پہ بلا لیا‘ جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے‘ یہ بڑے نصیب کی بات ہے
اس بندئہ حقیر کو معلوم نہ تھا کہ اسے کتنا بڑا نصیب عطا کیا گیا ہے۔ برسوں پہلے اس عاصی کو اپنے در پر بلا لیا گیا اور ربع صدی سے زیادہ کا پروانۂ سکونت عطا کیا گیا۔ اس کوتاہ عمل کو طواف‘ قیام و سجود اور درِحبیبﷺ پر اذنِ سلام سے بھی نوازا گیا۔
1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں حج اور عمرے کی سعادتیں سمیٹنے کے لیے کسی پرمٹ اور اجازت نامے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ اسی دوران اس فقیر بے نوا نے شاہی سواریوں میں بھی مناسک حج ادا کیے‘ اپنی گاڑی میں بھی‘ اپنی والدہ اور بھائی سعید کے ساتھ عرفات سے مزدلفہ اور منیٰ تک کا سفر کیا۔ سواری شاہی تھی یا فقیری یا اپنے قدموں پر چل کر حج کیا‘ ہر سال لبیک اللھم لبیک‘ لبیک لا شریک لک لبیک۔ حاضر ہوں میرے رب میں حاضر ہوں‘ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں‘ میرے مالک میں حاضر ہوں۔ ان کلماتِ حاضری میں کوئی ایسا سوزِ دروں تھا کہ مجھ سمیت قافلۂ حج کے ہر مسافر کی روح پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ اب کہ کئی برس سے مجھے منیٰ و عرفات کی حاضری کا شرف حاصل نہیں ہو سکا مگر سفیدپوش مسافرانِ حرم کے لبوں سے بلند ہوتی ہوئی لبیک اللھم لبیک کی صدائیں سنتا ہوں تو تڑپ کر رہ جاتا ہوں اور نہاں خانۂ دل سے صدا بلند ہوتی ہے:
حسرت آتی ہے یہ پہنچا میں رہا جاتا ہوں
کورونا سے پہلے ہر سال حج کے لیے دنیا بھر کے ممالک سے پچیس سے تیس لاکھ عازمینِ حج مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ حاضری دیتے تھے۔ مکۃ المکرمہ کی گلیاں اور شاہراہیں ضیوف الرحمن سے امڈی پڑی ہوتی تھیں۔ اللہ کے مہمانوں کی احسن البلاد میں آمدورفت اور پانچوں نمازوں میں ایک بڑی تعداد کی حاضری سے ہر طرف چہل پہل اور گہما گہمی ہوتی۔ دکاندار چوبیس گھنٹے خریدوفروخت میں مصروف رہتے۔ بس نمازوں کے اوقات میں دکانیں بند رکھی جاتیں؛ تاہم کوئی چار روز پہلے جاری ہونے والے ایک حکمنامے کے مطابق اب نمازوں کے اوقات میں ماضی کی طرح دکانیں اور تجارتی مراکز بند نہیں ہوں گے۔
کورونا کی حشرسامانیوں کی بنا پر گزشتہ سال دس ہزار مقامی لوگوں کو حج کی اجازت دی گئی تھی مگر اس برس حکومت نے سعودیوں اور وہاں مقیم غیرملکیوں کو 60ہزار کی تعداد میں فریضۂ حج ادا کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ آن لائن لاٹری میں 5لاکھ 58ہزار لوگوں نے حج کے لیے درخواستیں دیں۔ جن ساٹھ ہزار کے لاٹری میں نام نکلے انہیں سعودی وزارتِ حج کے قائم کردہ طریق کار اور انتظامات کے تحت صرف حج کے پانچ روز کے لیے حسبِ پروگرام اجازت دی گئی ہے۔ پروگرام کے مطابق عازمین کو گروپوں میں طوافِ قدوم کے بعد منیٰ اور پھر عرفات لے جایا گیا۔ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تب حجاجِ کرام اسی طرح گروپوں میں شیطانوں کو کنکریاں ماریں گے اور پھر اجتماعی قربانی کے نظام کے تحت دی گئی چٹ پر درج شدہ وقت کے حساب سے سر منڈائیں گے اور احرام کی پابندی سے آزاد ہو جائیں گے۔
دو برس پہلے تو مجھ جیسی ڈار سے بچھڑی کونجیں ہی نغمۂ جدائی الاپتی اور اپنے جذب و سوز کا اظہار کرتی سنائی دیتی تھیں مگر گزشتہ دو برس سے دنیا بھر کے لاکھوں بلکہ کروڑوں مشتاقانِ حرمین شریفین میری طرح آزردہ و افسردہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُڑ کر صحنِ حرم میں جا اُتریں اور پھر نہایت ادب و احترام کے ساتھ بادیدئہ تر مدینہ منورہ کی زیارت کے لیے جا پہنچیں مگر اُن کے راستے میں جگہ جگہ کورونا حائل ہے۔ البتہ اسی دوران سعودی عرب سے جب ایسی خبریں اور ویڈیوز ساری دنیا میں وائرل ہوتی ہیں کہ جن کے مطابق وہاں ریاض اور جدہ جیسے بڑے شہروں میں نئے قائم کردہ انٹرٹینمنٹ اور سیرو تفریح کے مقامات‘ ساحل سمندر اور شاپنگ مالز ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے ہیں تو حرمین کے خالی خالی گلی کوچے دیکھ کر اُن کے دل مزید مضطرب و پریشان ہو جاتے ہیں۔
اللہ کی اپنی حکمتیں ہیں۔ حج سے جڑے اربوں ڈالر کے کاروبار دم توڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کورونا سے پہلے جب پچیس تیس لاکھ حجاجِ کرام کے نام کی قربانی ہوتی تھی تو سعودی عرب ایک تیزرفتار فضائی پروگرام کے تحت قربانی کے اگلے دو تین روز کے دوران دنیا بھر میں بالخصوص افریقی و ایشیائی ملکوں تک گوشت پہنچا دیتا تھا جہاں اسے مقامی انتظامات کے تحت مستحقین و مساکین میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ قربانی اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ عرفِ عام میں قربانی کا لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم واقعے کی یاد میں ذبح کیے جانے والے جانوروں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں اس واقعے کا پس منظر نہایت ہی دل نشیں انداز میں بیان ہوا ہے۔ ''...ایک روز ابراہیم نے اس سے کہا: بیٹا! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے۔ اس نے کہا ابا جان جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے۔ آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ حضرت ابراہیم اور اُن کے بیٹے حضرت اسماعیل نے منشائے ربانی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور اللہ نے ایک مینڈھے کا فدیہ جنت سے بھیج کر بچے کو چھڑا لیا۔
اس عظیم قربانی کی یاد میں حجاجِ کرام کے علاوہ مسلمانانِ عالم بھی ہر سال حسبِ استطاعت جانوروں کی قربانی دے کر سنت ابراہیمی کو تازہ کرتے ہیں اور محمد مصطفیﷺ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں ہر سال جانوروں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں؛ تاہم اس سال تو گرمئی بازار ایسی ہے کہ جیسی پہلے نہ کبھی دیکھی نہ سنی۔ بیلوں کی عام سی جوڑی کے پچاس ساٹھ لاکھ مانگ لینا تو کوئی خاص بات نہیں۔ اگر کوئی خاص قسم یا کوئی آنکھوں کو بھلی لگنے والی صحت مند گائے ہو تو اس کے تیس چالیس لاکھ مانگ لیے جاتے ہیں۔ میں نے شہر سے قدرے باہر نکل کر ایک مویشی منڈی کے اندر جانے کی ہمت تو نہ کی مگر باہر فٹ پاتھ کے کنارے بکروں کی جوڑی دیکھی اور ایک ہاتھ جیب میں ڈال کر اور دوسرا دل پر رکھ کر دونوں کی قیمت پوچھی۔ میرا خیال تھا کہ حد سے حد یہ جوڑی 80ہزار روپے میں مل جائے گی مگر بکروں کے مالک نے نہایت بے پروائی سے کہا کہ ایک لاکھ 70ہزار کی ہے۔ میں نے کہا آخری بات کرو۔ بکروں کے مالک نے کہا ایک لاکھ 60ہزار سے ایک پیسہ کم نہ ہوگا۔ اس دوران میرے دل کی دھڑکن تیزرفتار ہی نہیں بلند آواز بھی ہو چکی تھی۔ وہ نیم متوسط لوگ کہ جن کی چوکھٹ سے دو دو بکروں کی آوازیں بلند ہوا کرتی تھیں اس سال گائے کے ایک دو حصوں میں شرکت کر کے سنت ابراہیمی ادا کر لیں تو خود کو خوش قسمت تصور کریں گے۔
مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ہر آزمائش اللہ کی طرف سے آتی اور اسی کے حکم سے جاتی ہے۔ امتِ مسلمہ کو من حیث الکل اور ہر مسلمان کو اپنی انفرادی حیثیت میں اپنا احتساب کرنا اور سوچنا چاہئے کہ رب کعبہ نے ہمارے لیے بابِ حرم کو کیوں مقفل کر دیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں زیارتِ حرمین شریفین کی تڑپ رکھنے والی لاتعداد کونجیں صحنِ حرم اور دیارِ حبیب میں حاضری کے لیے بیتاب ہیں۔ ہم جناب افتخار عارف کے الفاظ میں ڈار سے بچھڑی کونجوں کے لیے یہی دعا کر سکتے ہیں:
بادل بادل گھومے پر گھر لوٹ کے آنا بھولے ناں
اللہ سائیں ڈار سے بچھڑی کونج ٹھکانا بھولے ناں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved