بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنمائوں کے تربیتی پروگرام سے کیے جانے والے اپنے طویل خطاب اور سوال و جواب کے سیشن میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے انکشاف بلکہ اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بھارت ہی ہے جس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرا رکھا ہے اور مرکزی قیادت آپ سب کو یقین دلاتی ہے کہ پاکستان کو پیرس میں FATF کے اجلاس میں بلیک لسٹ نہیں تو گرے لسٹ میں رکھوانے کا اصل معرکہ مودی جی کی ٹیم نے ہی سر انجام دیا ہے‘‘۔ فریب کاری اور دہرے معیارات دیکھئے کہ ایف اے ٹی ایف کے ممالک کو بھارت کا گردن تک دہشت گردی میں ڈوبا ہوا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا اور پاکستان‘ جو ستائیس میں سے چھبیس نکات پر عمل درآمد یقینی بنا چکا ہے، ابھی تک گرے لسٹ میں ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ ماہ ہی کہہ دیا تھا کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ ایف اے ٹی ایف کوئی تکنیکی فورم ہے یا سیاسی۔ انہوں نے صاف الفاظ میں بتایا تھا کہ کچھ طاقتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکتی رہے۔
حال ہی میں داسو ہائیڈل پاور سٹیشن پر چینی انجینئرز کی ٹیم ایک حادثے کا شکار ہوئی، وزیر اطلاعات کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ دہشت گردی کے شواہد ملے ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے ڈانڈے بھارت اور اس کی طفیلی افغان آرمی اور این ڈی ایس سے جا کر ملتے ہیں مگر نجانے ایف اے ٹی ایف نے بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے متعلق فہرست کہاں گم کر دی ہے۔ اگرچہ بھارتی وزیر خارجہ نے اعتراف کر لیا ہے مگر یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں تھی، سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے سر پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکانے والے فرانس اور امریکا جیسے مغربی ممالک کے سوا کوئی نہیں اور اس کیلئے انہوں نے بھارت کو آگے کر رکھا ہے۔ لیکن کیا ان ممالک کو بھارت کی دہشت گردی کا کوئی ایک پہلو بھی دکھائی نہیں دے رہا؟ دس چینی انجینئرز کا بھارت کے ہاتھوں قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ دنیا کا ہر غیر جانبدار تجزیہ کار اور ڈپلومیٹ بغیر کسی شک و شبہ کے اس کی اصل ذمہ داری بھارت پر ڈال رہا ہے۔ بھارت میں سمجھوتا ایکسپریس، مالیگائوں، اجمیر شریف اور ممبئی حملوں کا واقعہ رونما ہوتے ہی 'پاکستان پر حملہ کر دو‘ کی گردان شروع کرنے والے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے ممالک ہر واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے سخت سبق سکھانے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہیں لیکن اگر بھارتی فوجی کشمیریوں کے گھر جلائیں، نوجوانوں کو قتل کریں، خواتین کی آبرو ریزی کریں تو کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ بھارت جو ظلم کشمیری عوام پر ڈھا رہا ہے‘ ان کے سبب ہی کشمیر کے جوان شعلہ جوالا بن کر قابض فوج اور سکیورٹی فورسز پر خالی ہاتھ ہی حملہ آور ہو جاتے ہیں مگر بھارت اور بھارت کے تجزیہ کار معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کے بجائے ''گھس بیٹھیے‘‘ کی صدائیں دینا شروع کر دیتے ہیں۔
جموں میں بھارتی ایئر فورس کے اڈے پر رچائے گئے حالیہ ڈرامے کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا گیا، بھارت کی ہر تان پاکستان پر آ کر ٹوٹتی ہے، اور صرف یہی واقعہ نہیں بلکہ بھارت میں ہونے والے ہر واقعے کے بعد فوری طور پر بنا تحقیقات اس کا الزام پاکستان پر دھر دینا بھارت کی ریت بن چکی ہے اور آج تک بھارت پاکستان کے خلاف کوئی ایک بھی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کر سکا ہے جبکہ پاکستان میں کلبھوشن یادیو جیسے حاضر سروس کمانڈر کی گرفتاری بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ بھارت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا جائے اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بی جے پی کی چوٹی کی قیادت کو فارن پالیسی پر بریفنگ دیتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا:
Due to us, Pakistan is under the lens of FATF.
اس اعتراف کے بعد کیا کوئی شک باقی رہ جاتا ہے کہ فرانس، امریکا اور جرمنی جیسے ممالک بھارت کے ہم رکاب ہو کر اس اداروں کو پاکستان کو بلیک میل کرنے اور انہیں دیگر ملکوں کو اپنی مطلب کی پالیسیوں پر چلانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کے اس متکبرانہ اعتراف کے بعد‘ کیا کسی عالمی عدالت یا اقوام متحدہ سے رجوع کرنا ضروری نہیں ہو گیا؟ ستائیس میں سے چھبیس سوالات کے فر فر جواب دینے والے پاکستان کو یہ کہہ کر گرے لسٹ میں ہی رہنے دینا اپنی جگہ خود ایک بڑی دہشت گردی ہے جس کی مرتکب ''لاٹھی سے ہر ملک کو ہانکنے والی‘‘ قوتیں ہو رہی ہیں۔ پچھلے چار دنوں میں پاکستان آرمی کے دو جواں سال کپتان اور چار جوانوں کی شہادت ہو چکی ہے جس میں واضح طور پر وہی دہشت گروپ ملوث ہے جو بیس برس تک بھارت کی گود میں پلتا رہا۔ کسی بھی ملک کو یہ دہشت گردی نظر نہیں آ رہی۔ G7 اور G20 کے اکثریتی ممالک کو بھارت اپنا ہم نوا بنا چکا ہے اور اس میں پاکستان کی غلطی صرف اتنی ہے کہ وہ ایک مسلم ریاست ہونے کے علاوہ ایک مضبوط نیوکلیئر طاقت بھی ہے۔ ایٹمی طاقت آج کی نام نہاد مہذب دنیا میں اس بیش قیمت گاڑی کی طرح ہے یا اسے وسیع و عریض محل کی مانند سمجھا جاتا ہے جس کا حق دار صرف کوئی امیر کبیر ہی ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک صرف خود کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ وہ ایٹمی ہتھیار رکھ سکیں اور پاکستان جیسے مسلم ملک کا کیا کام؟
یہ راز بھی اب فٹ پاتھ پر بکنے والی کسی کتاب کی طرح سب کے سامنے آ چکا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں رخنہ ڈالنے کے حوالے سے بھارت نے اربوں ڈالر اپنے ایجنٹس کے حوالے کیے، آج بھی سندھ اور کے پی کے عوام کے ذہنوں میں یہی الفاظ انڈیلے جا رہے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بننے سے نوشہرہ اور مردان ڈوب جائیں گے، دریائے سندھ کا پانی کم ہو جائے گا اور اگر بجلی پیدا کرنے کیلئے پانی چھوڑنا پڑا تو سندھ کے بیشتر علاقے زیر آب آ جائیں گے۔ اپوزیشن جماعتیں اور ان کا حامی میڈیا جو چاہے کہتا رہے‘ جس طرح بھی وہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو یاد کرتا رہے‘ حقیقت یہ ہے کہ آج سے پانچ برس بعد ہوش سنبھالنے والی نسلیں جسٹس (ر) میاں ثاقب نثار کو دعائیں دیں گی کہ ہائیڈل پروجیکٹس سے سستی بجلی ملنے کے علاوہ بجلی کی قلت پر قابو پانے میں بھی بہت مدد ملے گی جبکہ پانی کا مسئلہ بھی اس سے کسی حد تک کم ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ!
اب بھارت کی پوری کوشش ہے کہ وہ داسو‘ بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم مکمل نہ ہونے دے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر یہ دونوں ڈیم مکمل ہو گئے تو نہ صرف پاکستان کی معیشت مضبوط ہو گی بلکہ اس سے عام عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی ریاست کی کاوشیں بھی ثمر آور ہو سکیں گی۔ توانائی بحران پر قابو پا لینے کے بعد پاکستان بھر کے چھوٹے‘ بڑے شہروں اور قصبوں میں چھوٹی چھوٹی مشینیں اور کارخانے چلانے والے اپنی تمام پیداوار کی قیمتیں کم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چینی انجینئرز کی بس پر حملہ کر کے بھارت اپنے مذموم منصوبے کو آشکار کر چکا ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں سے اس کی ایک ہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان میں توانائی اور زراعت کے شعبے میں طرح طرح کی مشکلات پیدا کی جائیں، سازشی تھیوریاں پھیلائی جائیں، صوبوں کو ایک دوسرے کے خلاف کیا جائے لیکن اگر یہ ڈیم مکمل ہو جاتے ہیں تو بھارت کو ایک مضبوط پاکستان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت کو جب تک اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا جائے گا‘ عوام کا مورال ڈائون رہے گا۔ ہمیں اپنے عوام کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو کلائیوں سے کاٹ کر دور پھینکنا ہو گا، یہی زندہ قوموں اور اپنی پالیسیوں کی حفاظت کرنے والے معاشروں کی نشانی ہوتی ہے۔ ہم قطعاً برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی ہمارے مہمانوں پر حملہ آور ہو۔ داسو‘ بھاشا ڈیم پر کام کیلئے جانے والے چینی اور پاکستانی عملے کی بس پر حملہ درحقیقت پاکستان پر حملہ کرنے کے مترادف ہے اوراس پر پُرامن بھائی چارے کی تکرار کی نہیں بلکہ منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے۔