ہمارا بھی عجیب حال ہے۔ دنیا خدا جانے کیا کیا کرنا چاہتی ہے اور کر رہی ہے اور ہم ہیں کہ ابھی تک سوچ ہی رہے ہیں کہ کچھ کریں یا نہ کریں! نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ جنگ کے میدان میں دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کے بارے میں خوب سوچیے، خوب منصوبے بنائیے مگر جب میدان میں اترنے کا وقت آئے تو ایک لمحے کی بھی تاخیر مت کیجیے‘ یعنی سوچنے کا عمل ختم کرکے عمل کی طرف قدم بڑھائیے۔ اور ہم ہیں کہ سوچنے کے نام پر قیاس کے گھوڑے دوڑانے ہی سے فرصت نہیں مل پارہی۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ کوئی الجھن سی الجھن ہے کہ برباد ہو جانے پر بھی بربادی کا غم تک نہیں۔ جب بربادی کا غم ہی نہیں تو پچھتاوا کہاں سے پیدا ہو اور ازالے کا کیسے سوچا جائے؟ رئیسؔ امروہی نے خوب کہا ہے ؎
کہنے لگے کہ ہم کو تباہی کا غم نہیں
میں نے کہا کہ وجۂ تباہی یہی تو ہے
ہم لوگ ہیں عذابِ الٰہی سے بے نیاز
سب سے بڑا عذابِ الٰہی یہی تو ہے
باغ (آزاد کشمیر) میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کچھ ایسی باتیں کی ہیں جنہیں ہضم کرنا آسان نہیں۔ ہماری مثال تو وہ ہوگئی ہے کہ ؎
جب کچھ نہ بن پڑا تو یہی کام کر گئے
خوش فہمیوں کا زہر پیا اور مر گئے
وزیر اعظم صاحب کبھی کبھی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کھل کر ہنسا جائے یا سر(ظاہر ہے کسی اور کا) پیٹا جائے۔ مدینہ میں قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست کی بات کرنا اب وزیر اعظم کا تقریری معمول بن چکا ہے اور جب بھی وہ ریاستِ مدینہ کا ذکر کرتے ہیں تب ایسی متضاد باتیں سامنے آتی ہیں کہ انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ باغ میں انتخابی جلسے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا ''پاکستان جو کچھ بننے جارہا ہے اُس میں ہم غریب ملکوں کو قرضے دیا کریں گے۔ ہم پاکستان کو حقیقی فلاحی ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ طاقتور کو قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش بھی جاری ہے۔ یہ ملک کے مستقبل کی جنگ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم قرضے لے کر گزارا کرتے رہے ہیں، کبھی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی بھی قوم ہاتھ پھیلاکر عظمت نہیں پاسکتی۔ ہم نے مدینہ کی ریاست کا ماڈل اپنایا ہے۔ پناہ گاہوں میں غریب، محنت کش طبقے کو کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ مدینہ کی ریاست میں انسایت اولین ترجیح تھی۔ چین نے ریاستِ مدینہ کا ماڈل اپناکر 70 کروڑ انسانوں کو افلاس کے دائرے سے نکالا ہے‘‘۔ وزیر اعظم سے توقع نہ تھی کہ ایک ہی تقریر میں ایسی تضاد بیانی کریں گے۔ جب کچھ کرنا ممکن نہیں ہو پارہا ہوتا تو لوگوں کو چکنی باتوں سے بہلایا جاتا ہے اور جب بہلاوے نچھاور کرنے کی عادت پڑ جائے تو انسان خود بخود ایسی باتیں کرتا چلا جاتا ہے جن کا کوئی مطلب نہ ہو۔ ایسے میں وہ باتیں بھی منہ سے نکل جاتی ہیں جو بظاہر ارادہ و نیت کے دائرے سے باہر ہوتی ہیں۔ باغ والی تقریر میں بظاہر ایسا ہی ہوا ہے ؎
ہم نے خود چھیڑ دیا پیار کے افسانے کو
ہائے کیا کیجیے اِس دل کے مچل جانے کو
مذکورہ بیان میں تضاد یہ ہے کہ ایک طرف تو وزیر اعظم کہتے ہیں کہ کوئی بھی قوم قرضوں کی بنیاد پر ترقی نہیں کر سکتی اور دوسری طرف وہ خود قوم کو رہائشی سہولت اور دیگر معاملات میں قرضے لینے کی عادت کا اسیر بنارہے ہیں۔ قوم کے رہنماؤں کا ایک پسندیدہ نعرہ یہ ہے کہ پاکستان کو بہت جلد اتنا ترقی یافتہ بنالیا جائے گا کہ دنیا رشک کی نظر سے دیکھے گی، دنیا بھر سے لوگ کام کرنے یہاں آیا کریں گے! وزیراعظم بھی کہہ چکے ہیں کہ بہت جلد پاکستان اس قدر ترقی یافتہ ہو جائے گا کہ لوگ بہتر مستقبل کے لیے یہاں آیا کریں گے۔ اِس بار انہوں نے اِسی بات کو نئے زاویے سے بیان کیا ہے۔ یوں کہ بہت جلد پاکستان غریب ممالک کو قرضے دینے لگے گا!
اس قوم کو ایسے خواب نہ دکھائے جائیں جن میں سب کچھ ہرا ہی ہرا ہو۔ ایسے خوابوں تعبیر خون رُلاکر آنکھوں کو ویران کردیتی ہے۔ صاحبانِ حکومت سے دست بستہ التماس ہے کہ چکنی باتوں کے ذریعے قوم کو خوش فہمی کے مینار پر نہ چڑھائیں۔ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ قوم کو خوش فہمیوں کے مینار پر چڑھاکر جب سیڑھی ہٹائی جاتی ہے تو اُس کے لیے نیچے آنا زندگی کی سب سے بڑی آزمائش کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ قوم دھڑام سے نیچے آ رہتی ہے اور ایک مدت تک ہوش و حواس سے بیگانی سی رہتی ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ قرضے لے کر جینے والی اقوام کبھی ترقی نہیں کرتیں۔ قرضے تو قرضے ہوتے ہیں، چاہے بیرونی ہوں یا اندرونی۔ عام پاکستانی کے لیے ڈھنگ سے دو وقت کی روٹی کا اہتمام بھی دردِ سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایسے میں اُسے قرضوں کی بیساکھی کے ذریعے چلنا سکھانا کہاں کی دانش مندی ہے؟ ذاتی مکان کے نام پر لوگوں کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اِسے محض بدنصیبی ہی سمجھا جائے گا کہ کورونا وائرس کی وبا بھی موجودہ حکومت کے دور میں نازل ہوئی اور معاملات کو تلپٹ کرنے پر تُل گئی۔ اس وبا کے ہاتھوں لازم ہوگیا کہ قوم کے لیے نئے سِرے سے کچھ سوچا جائے مگر ایسا ہوا نہیں۔
وزیر اعظم ریاستِ مدینہ کا حوالہ دیتے نہیں تھکتے۔ کیا مدینہ کی ریاست میں وہی کچھ ہوتا تھا جو اس وقت حکومت کر رہی ہے؟ وزیر اعظم نے غریبوں اور محنت کشوں کو پناہ گاہوں میں کھانا مفت فراہم کرنے کے عمل کو ریاستِ مدینہ سے جوڑا ہے۔ وہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ مدینہ کا یہ تو حال تھا کہ لوگ محنت کرکے اتنا کماتے تھے کہ زکوٰۃ کا مال ہاتھوں میں لے کر مستحقین کو ڈھونڈتے پھرتے تھے مگر کوئی مستحق نہ ملتا تھا۔ کیوں؟ اس لیے کہ سبھی محنت کرتے تھے اور خود کو معاشی یا مالی اعتبار سے مضبوط بنالیتے تھے۔ ریاست کا نظم و نسق سنبھالنے کے دوران خلفائے راشدینؓ انفرادی معاشی جدوجہد ترک کرنے سے گریز کرتے تھے اور اگر ریاستی خزانے سے انہیں کچھ ملتا بھی تھا تو بس اِس قدر کہ دو وقت پیٹ بھر سکے۔ مصیبت کی گھڑی میں کسی کی مدد کرنے کا تصور تب بھی پایا جاتا تھا مگر اس حد تک کہ وہ بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لیے اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ کسی کو مستقل بنیاد پر پالنے کا تصور یکسر ناپید تھا۔ مشہور واقعہ ہے کہ سیدنا علیؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں شدید عسرت سے دوچار اپنے حقیقی بھائی حضرت عقیلؓ کو (ریاست کے طے کردہ طریقِ کار سے ہٹ کر) محض چند سیر جو دینے سے انکار کردیا تھا جبکہ اُن کے بچے بھوک سے بلک رہے تھے! مدینہ کی ریاست میں سارا زور اِس نکتے پر تھا کہ انسان محنت اور جدوجہد کے ذریعے مشکل حالات کا سامنا کرے۔
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ چینی قیادت نے ریاستِ مدینہ کا ماڈل اپناکر 70 کروڑ چینیوں کو افلاس کے دائرے سے نکالا۔ ذرا بتایا تو جائے کہ چین میں کتنے لنگر خانے اور کتنی پناہ گاہیں ہیں۔ چین کا شمار اُن معاشروں میں ہوتا ہے جو اول و آخر محنت اور دیانت سے عبارت ہیں۔ جواب طلبی کا نظام اتنا سخت ہے کہ لوگ سرکاری خزانے میں خورد برد کی سزا کے تصور ہی سے کانپنے لگتے ہیں۔ یہ وقت قوم کو بہلانے کا نہیں بلکہ حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن کرنے کا ہے۔ خوش فہمیوں کے قطب مینار پر چڑھاکر سیڑھی ہٹانا اِس قوم پر صریح ظلم ہے۔ لنگر خانے اور پناہ گاہیں بنانے کے بجائے قوم کو محنت کی طرف مائل کیا جائے۔ اور ہاں! محنت کا پورا صلہ یقینی بنایا جائے۔