کورونا کی وبا نے دنیا بھر کے معاشروں کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ ہر معاشرے نے اِس وبا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات کا تجزیہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ مستقبل قریب کے حوالے سے جامع حکمتِ عملی ترتیب دی جا سکے۔یہ سرِدست ایک بنیادی ضرورت ہے جس کا فی الفور پورا کیا جانا لازم ہے۔ تاخیر کی گنجائش نہیں! ترقی یافتہ معاشروں کے لیے کورونا کی وبا سے نمٹنا زیادہ مشکل مرحلہ نہیں رہا۔ مغربی معاشروں نے اس وبا کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دینے کے معاملے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ چند ایک یورپی معاشروں میں غیر معمولی پیمانے پر ہلاکتیں ضرور ہوئیں؛ تاہم معاشی معاملات کو قابو میں رکھنا ضرور ممکن ہوسکا۔ یہی معاملہ معاشرتی پیچیدگیوں کا تھا۔ امریکا میں اگرچہ بہت بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں؛ تاہم اس کے باوجود معاملات کو قابو میں رکھنا ممکن بنالیا گیا۔ ہاں! بھارت میں کورونا وائرس کے ڈیلٹا ویری اینٹ نے قیامت ڈھادی۔ ڈھائی تین ماہ قبل وہاں ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ پورا ملک شدید نفسیاتی پیچیدگیوں کے شکنجے میں دکھائی دینے لگا۔ ایک انجانا سا خوف پورے ملک پر یوں طاری ہوا کہ ایک دنیا کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں پورے معاشرے کا نروس بریک ڈاؤن نہ ہو جائے۔
کورونا کی وبا نے کس کو بخشا تھا کہ ہمیں بخشتی۔ ہم ڈیڑھ سال سے بھی زائد مدت سے یہ تماشا دیکھ اور جھیل رہے ہیں۔ اس وبا نے کروڑوں افراد کو ذہنی امراض میں مبتلا کردیا ہے۔ ذہنی پیچیدگیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ لاک ڈاؤن نے پورے ملک میں معاشی سرگرمیوں کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ لوگ مزید الجھ گئے جو پہلے ہی شدید نوعیت کی معاشی الجھنوں سے دوچار تھے۔ ملک بھر میں بے روزگاری کس قدر ہے‘ یہ بتانے کی اب کچھ خاص ضرورت نہیں رہی۔ عام آدمی کی الجھنیں ایسے دریا کی مانند ہیں جس کا دوسرا کنارا دکھائی نہیں دے رہا۔ کاروباری حالات پہلے ہی پریشان کن تھے۔ رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی۔ صنعتی عمل مشکلات سے دوچار تھا۔ توانائی کا بحران صنعتی یونٹس کو خسارے کی طرف دھکیل رہا تھا۔ لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے سے صنعتی و تجارتی عمل بُری طرح متاثر ہوا جس کے نتیجے میں معاشی مشکلات دوچند ہوگئیں۔ یہ کیفیت برقرار ہے اور ابھی تادیر اِس کے جانے کے آثار نہیں۔تیسری دنیا کے بیشتر معاشروں میں کورونا وائرس نے کروڑوں ذہنوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ جن معاشروں میں مستقبل کے حوالے سے غیر یقینیت کا گراف غیر معمولی حد تک بلند رہا ہے اُن کے لیے کورونا نے معاملات مزید بگاڑ دیے ہیں۔ پاکستان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں معاملات پہلے کون سے اچھے تھے جو کورونا جیسی افتاد کا ہم ڈھنگ سے مقابلہ کر پاتے۔ ایسے میں ذہنی امراض کا پیدا ہونا اور پنپنا فطری امر تھا۔ اور یہی ہوا۔
سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی نے تازہ تحقیق میں بتایا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے ہاتھوں سندھ بھر میں مجموعی طور پر کم و بیش 42 فیصد افراد شدید ڈپریشن کا شکار ہوئے ہیں اور 25 فیصد میں خود کشی کا رجحان پروان چڑھا ہے۔ 62 فیصد افراد بے روزگاری کی زد میں آئے ہیں۔ اس تحقیق کے سلسلے میں شہری اور دیہی علاقوں کے 6، 6 اضلاع سے مجموعی طور پر 1494 افراد کا انتخاب کیا گیا جن میں 48 فیصد رائے دہندگان مرد تھے۔ ہینڈز، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، جامعہ کراچی، ذوالفقار علی بھٹو لا کالج اور ایدھی فاؤنڈیشن کی معاونت سے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ شہری آبادی میں 43 فیصد اور دیہی آبادی میں 81 فیصد افراد کورونا کی وبا کے ہاتھوں ذہنی پیچیدگیوں سے دوچار ہوئے ہیں۔ 36 فیصد افراد نے مشکلات سے نمٹنے کے لیے شخصی سطح پر یا پھر مالیاتی اداروں سے قرضے لیے۔ کورونا کی وبا کی روک تھام کے لیے جو لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا اور معاشی سرگرمیاں ماند پڑیں‘ ان کے اثرات سے نمٹنے کے لیے 21 فیصد افراد اپنی املاک، مویشی اور گاڑیاں وغیرہ بیچنے پر مجبور ہوئے۔ 76 فیصد افراد کو کسی بھی سرکاری پروگرام کے تحت کسی بھی سطح کی مالی مدد نہ مل سکی۔
کسی بھی معاشرے میں کورونا کی وبا نے اب تک دم نہیں توڑا ہے۔ پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا کی چوتھی لہر کی آمد آمد ہے۔ بھارت میں کورونا وائرس کے ڈیلٹا ویری اینٹ نے شدید تباہی مچائی۔ ہلاکتوں کا بازار گرم ہوا۔ لاکھوں افراد کو اس وائرس کے ہاتھوں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کورونا لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بھارت میں کروڑوں افراد اپنے گھروں سے دور اجنبی علاقوں میں پھنس کر رہ گئے اور معاشی الجھنوں نے مرے کو مارے شاہ مدار والا کام کیا یعنی معاشی و معاشرتی خرابیوں میں جو کسر رہ گئی تھی وہ کورونا لاک ڈاؤن کے بطن سے ظاہر ہونے والے بحران نے پوری کردی۔ بھارتی معاشرہ پہلے ہی غیر معمولی حد تک منقسم تھا۔ کورونا کے ہاتھوں تقسیم مزید وسیع اور گہری ہوگئی ہے۔ اتنا اندازہ تو ہم سب کو ہے کہ کورونا کی وبا نے ہماری معیشت و معاشرت پر بھی شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی تحقیق نے معاملات کو ذرا نمایاں اور واضح کرکے پیش کیا ہے۔ اس تحقیق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمیں کسی بھی بحرانی کیفیت سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے کس حد تک منصوبہ سازی اور معاونت کی ضرورت ہے۔ بحرانی کیفیت میں سب سے بڑھ کر مورال یعنی مثبت سوچ کے ساتھ پنپنے والی قوتِ ارادی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس وقت پاکستان سمیت بیشتر معاشروں میں عوام کا مورال خطرناک حد تک گرا ہوا ہے۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں انہوں نے معاشی اور معاشرتی سطح پر الجھنوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے بھی ایک خاص حد تک معاشرتی، فکری، حِسّی، نفسی اور روحانی الجھنوں کی زد میں آئے ہیں۔ ہاں! معاشی استحکام نے انہیں مکمل تباہی سے بچالیا ہے۔ معاشرتی الجھنوں کا دائرہ محدود رکھنے میں معاشی استحکام ہی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے معاشروں میں البتہ معاملہ بہت مختلف اور الم ناک ہے۔ مذکورہ تحقیق سے جو کچھ سامنے آیا ہے وہ سندھ تک محدود نہیں۔ ملک کے ہر صوبے اور حصے کا یہی حال ہے۔ ہمارے ہاں معاشی سطح پر نظم و ضبط پایا ہی کب جاتا ہے کہ کسی بڑی بحرانی کیفیت سے نمٹنے میں کماحقہٗ مدد مل سکے۔ یہی سبب ہے کہ معاملات کو درست کرنے کی راہ حقیقی معنوں میں اب تک ہموار نہیں کی جاسکی۔
کورونا وائرس کے شدید منفی (یعنی حِسّی، عصبی، نفسی، فکری اور روحانی) اثرات سے کماحقہٗ نمٹنے کی تیاری کے سلسلے میں حکومت نے اب تک قوم کی حقیقی رہنمائی کا اہتمام نہیں کیا۔ معاشی سرگرمیوں کی بندش سے جو مسائل پیدا ہوئے‘ اُن کے بارے میں پہلے سے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ جو لوگ ملک کو چلانے پر مامور ہیں کیا اُنہیں اندازہ نہیں تھا کہ معمول کے حالات میں بھی مشکلات سے دوچار معیشت کورونا کی وبا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی خصوصی حالت میں کس کرب سے گزرے گی اور قوم کا کیا بنے گا؟ یہ ممکن نہیں کہ حکومت کورونا کی وبا کے بطن سے پیدا ہونے والی مشکلات کے بارے میں پہلے سے کچھ علم نہیں رکھتی تھی۔ہمارے معاشرے میں کورونا کے ہاتھوں جو الجھنیں پیدا ہوئی ہیں وہ پہلے سے پائی جانے والی خرابیوں کو مزید پیچیدہ بنارہی ہیں۔ معاشی مشکلات نے معاشرتی سطح پر بھی بگاڑ کا دائرہ وسیع کردیا ہے۔ بے روزگاری بڑھی ہے۔ توانائی کے بحران نے سنگین شکل اختیار کر لی ہے۔ بیرونی تجارت بالخصوص برآمدات کا معاملہ بہت بگڑا ہوا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو فوری اقدامات پر متوجہ ہونا چاہیے۔ قوم کے اکنامک منیجرز کو صورتِ حال کی نزاکت بھانپتے ہوئے ایسی منصوبہ سازی کرنی چاہیے جس سے نفسی اور حِسّی الجھنوں کا گراف نیچے لانے میں مدد مل سکے۔ یہ سب کچھ محض سوچنے یا کہنے سے نہیں ہوسکتا۔ خلوصِ نیت اور عزمِ مصمم ناگزیر ہے۔ تاخیر کی گنجائش اب برائے نام بھی نہیں رہی۔ معاملات صفر تک پہنچنے کے بعد اب منفی نشانات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔