تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     24-07-2021

کاروبارِ مملکت کا یہ کون سا طریقہ ہے؟

وزیرِ خارجہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کو کیوں اچانک چین جانا پڑ رہا ہے؟ معمول کا وزٹ ہے یا کوئی خاص بات؟ صرف داسو ڈیم کے قریب دہشت گردی کا واقعہ اِس دورے کا موجب بنا یا کچھ اور وجوہات ہیں؟ یہ اہم سوال ہیں کیونکہ چین کے بارے میں ہم کہتے نہیں تھکتے کہ ہماری دوستی ہمالیہ کے پہاڑوں سے اونچی اور سمندر سے گہری ہے۔ ایسی دوستی میں کسی قسم کا کھچاؤ آئے بھی تو اُسے درپردہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ منظرعام پہ کچھ بات نہیں آتی لیکن یہاں تو چین اور پاکستان میں موجودہ تناؤ کی جو کیفیت بنی ہے وہ اِس نوعیت کی ہے کہ سامنے نظر آرہی ہے۔ یاد نہیں پڑتا کہ کسی دور میں بھی اِس قسم کا تناؤ پیدا ہوا ہو۔ پھر پوچھنے کی بات بنتی ہے کہ وجوہات کیا ہیں؟
کچھ تو بہت ہی ظاہری باتیں ہیں۔ چین کا سفیر کوئٹہ پہنچتا ہے اور سیرینہ ہوٹل میں‘ جہاں اُن کا قیام ہے‘ ٹرک میں بم اُڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اِس واقعہ کا جو بھی عذر پیش کیا جائے یہ بات تو تشویشناک ہے کہ سیرینہ ہوٹل کوئی عام جگہ نہیں۔ سکیورٹی کے سخت انتظامات ہوتے ہیں اور جب چینی سفیر جیسی اہم شخصیت وہاں موجود ہو تو پھر سکیورٹی لیول خاصا اونچا ہونا چاہئے‘ لیکن پھر بھی اگر ایک ٹرک سکیورٹی حصار کو عبور کر کے کہیں پہنچ جاتا ہے تو یہ باعثِ تشویش ہے۔ دوسرا واقعہ داسو ڈیم والا ہے۔ جس بس میں چینی اور پاکستانی ورکرز سفر کررہے ہیں اُس میں ایک دھماکہ ہوتا ہے‘ جس کی وجہ سے بس کھائی میں جا گرتی ہے اور بہت سی اموات ہوتی ہیں جن میں چینی ورکرز بھی شامل ہیں۔ حادثات تو ہو جاتے ہیں لیکن اِس موقع پہ یہ انوکھی بات ہوئی کہ ہمارے حکام کا پہلا مؤقف کچھ اور تھا اور چینی سفارت خانے کا بالکل مختلف۔ کچھ دیر لگی ہمیں یہ ماننے کیلئے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ تھا اور پھر چینی حکومت کا قدرے سخت بیان آیا کہ تحقیقات ہونی چاہئیں اور وہ امید رکھتے ہیں کہ جو ہاتھ اِس واقعہ کے پیچھے ہیں وہ ڈھونڈ لئے جائیں گے۔
کچھ دن پہلے ایک اور واقعہ بھی رونما ہوا تھا۔ شہباز شریف چینی سفارت خانہ اسلام آباد کا دورہ کرتے ہیں اور چینی سفیر اُن کی کھل کے تعریف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں یاد ہے‘ کس لگن سے شہباز شریف کام کیا کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ سفیرِ چین شہباز شریف کو دعوت دیتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی چین کی سالانہ تقریبات میں وہ شامل ہوں۔ برسی ہو چکی ہے اور ظاہر ہے شہباز شریف وہاں نہیں جا سکے‘ لیکن سمجھنے کی بات ہے کہ شہباز شریف موجودہ حکومت کیلئے ایک مجرم کی حیثیت رکھتے ہیں اور پاکستان کے سب سے قریبی دوست کی طرف سے اِس حکومت کی نظروں میں کھٹکنے والے شخص کو ایک نہایت اہم دعوت دی جاتی ہے۔ اِس سے کچھ ظاہر ہوتا ہے کہ نہیں؟ پاک چین دوستی کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ بھی نہیں گنوایا جا سکتا کہ چین کچھ ایسا کرے جو یہاں حکومتِ وقت کی سوچ یا ترجیحات کے برعکس ہو‘ لہٰذا معاملہ کیا ہے؟
اِس وقت عالمی سیاست میں سب سے اہم دراڑ یا جسے ہم انگریز میں faultline کہتے ہیں امریکہ اور چین کے درمیان ہے۔ جیسے سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ اور سوویت یونین ایک دوسرے کے مد مقابل تھے‘ آج امریکہ اور چین ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ ہماری زیادہ دوستی چین سے ہے اور امریکہ کو یہ بات پسند نہیں۔ سی پیک کا منصوبہ امریکہ کو بالکل بھی پسند نہیں اور اُس کے حکام تو برملا یہ کہہ چکے ہیں کہ سی پیک کے سارے منصوبوں سے پاکستان کو بھاری معاشی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اگر امریکہ کا بس چلے تو وہ سارے سی پیک کو سبوتاژ (sabotage)کر دے۔ ایسا ہو گا نہیں‘ لیکن اُن کی خواہش تو ہے۔ اس تناظر میں کوئٹہ کی واردات اور پھر داسو دھماکہ اِن کوششوں کا حصہ لگتے ہیں کہ چین اور پاکستان کے مابین بدگمانیاں پیدا ہوں۔ یہ کون کر رہا ہے؟ کون سے خفیہ ہاتھ اِس کام پہ لگے ہوئے ہیں؟ مسئلہ پیچیدہ ہوگا لیکن اِتنی عقل تو ہم میں ہونی چاہئے کہ اگر بس میں دھماکہ ہوتا ہے تو ہم کہیں کہ تفتیش ہونے پہ تفصیلات سامنے آئیں گی‘ لیکن یہاں ہمارا پہلا ردعمل ہی یہ ہوتا ہے کہ کوئی گیس کی لیکیج کی وجہ سے دھماکہ ہوا۔ ایسی فضول کی بے صبری سے پرہیز کی جا سکتی ہے۔
ہوا میں کچھ اور چیزیں بھی معلق لگتی ہیں۔ ہمیں یاد ہوگا کہ کچھ ہی دن پہلے یہاں ایسی خبریں گردش کرنے لگی تھیں کہ کسی نہ کسی سطح پہ پاکستان اور اسرائیل کے مابین رابطے ہوئے ہیں۔ اِن خبروں کی سختی سے تردید کی گئی لیکن ایک دم ہی ایسی خبریں کہاں سے آنے لگیں؟ اگر مان بھی لیا جائے کہ کسی نے شوشہ چھوڑا ہوگا لیکن وہ انگریزی کی کیا کہاوت ہے کہ جہاں دھواں ہو وہاں آگ بھی جل رہی ہو گی۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جن عرب ممالک کے ساتھ ہمارے قریبی تعلقات ہیں اور جن کی گرمجوشی کے ہم خواہاں ہیں‘ اُن سب نے، سامنے یا پیچھے، اسرائیل سے تعلقات استوار کر لئے ہیں۔ کہیں اُس جانب سے ہمیں یہ سبق تو نہیں مل رہا کہ اگر ہم بھی اُس راستے پہ چلیں تو ہمارے فائدے کی بات ہے؟
یہاں کی حکومت ہو یا کہیں اور کی‘ اہم پوسٹوں پہ جو لوگ لگائے جاتے ہیں اُن کی کوئی نہ کوئی بیک گراؤنڈ ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ایک تقریباً نامعلوم صاحب راتوں رات نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لگ جاتے ہیں۔ کہاں سے آئے‘ کیا اُن کا ہنر ہے کسی کو نہیں معلوم۔ بڑے اچھے انسان ہوں گے لیکن یہ بحث نہیں۔ کل تک کسی درمیانے لیول کے امریکی تھنک ٹینک میں کسی درمیانی پوزیشن پہ فائز تھے۔ ایک دم سپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر برائے نیشنل سکیورٹی بن جاتے ہیں۔ امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر سے اُن کی ایک میٹنگ جنیوا میں متوقع ہوتی ہے تو اُنہیں ترقی مل جاتی ہے۔ سپیشل اسسٹنٹ سے باقاعدہ ایڈوائزر بنا دیئے جاتے ہیں۔
بات کچھ سمجھنے کی ہے۔ ہمارے چند برائے نام قسم کے تھنک ٹینک ہیں۔ مثال کے طور پہ اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز ہے جسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ اِس میں جو لوگ لگتے ہیں یا جو اِس ادارے کے سربراہ بنائے جاتے ہیں سرکار کی مرضی اِس میں شامل ہوتی ہے۔ یہ عام فہم کی بات ہے۔ اِسی طرح امریکہ کے تھنک ٹینکوں میں کوئی باغی قسم کے پروفیسر نہیں لگ سکتے بلکہ اِن میں ایسے لوگ آتے ہیں جنہیں کسی نہ کسی طریقے سے سرکاری اشیرباد حاصل ہو۔ اِس میں کوئی عجیب بات نہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ چین میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی اشیرباد کے بغیر کوئی پروفیسر کسی چینی تھنک ٹینک میں کوئی پوزیشن حاصل نہیں کر سکتا‘ لیکن عجیب بات تب بنتی ہے کہ بندہ کسی امریکی تھنک ٹینک میں کام کرتا ہو اور راتوں رات پاکستان کا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بن جائے۔ یہ اہم پوزیشن ہے اور جو بھی اِس پہ تعینات ہو اُسے تمام قومی معلومات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ ایسی دلچسپیاں ہم ہی پیدا کر سکتے ہیں کہ دوستیاں چین سے ہوں اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر براستہ امریکہ آئے۔
سوال بنتا ہے کہ یہاں معاملات کون چلا رہا ہے؟ فیصلے کن ہاتھوں میں ہیں؟ کیا امورِ مملکت کی تمام نزاکتوں سے وزیر اعظم بخوبی آگاہ ہیں؟ پتا نہیں ایسے سوالات پوچھے جانے چاہئیں یا نہیں لیکن اِس حکومت کے کمالات میں سے ایک یہ کمال سمجھا جائے گا کہ انہونی کرتے ہوئے چین کے ساتھ بھی بگاڑ لی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved