تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-07-2021

تماشا دیکھتے رہنے کا وقت گیا

امریکا نے‘ حسبِ معمول و دستور‘ اپنی جان چُھڑانے میں دلچسپی لی ہے اور اس بات سے بظاہر کوئی غرض نہیں رکھی کہ باقی سب کا کیا ہوتا ہے۔ بعد از خرابیٔ بسیار‘ افغانستان سے بوریا بستر لپیٹ تو لیا گیا ہے اور خاصی نمایاں حد تک انخلا بھی مکمل ہوچکا ہے مگر انخلا مکمل ہو جانے کے بعد جو کچھ ہوسکتا ہے اُس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ یورپ نے بہت پہلے اندازہ لگالیا تھا کہ امریکا نے افغانستان میں اُسے الجھادیا ہے اور یہ کہ موقع دیکھتے ہی وہ خود تو نکل بھاگے گا مگر دوسروں کے بارے میں نہیں سوچے گا۔ یورپی افواج افغانستان جیسی سرزمین پر لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتی تھیں اور اُن میں مطلوبہ سطح کی لگن بھی نہیں تھی۔ یہی سبب ہے کہ افغانستان کے طول و عرض میں نیٹو کے یورپی ارکان کے فوجیوں کو سخت نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا اور بہت سے معاملات میں تو انہیں مقامی جنگجو سرداروں کو کچھ نہ کچھ دے کر اپنے لیے حالات سازگار بنانا پڑے۔ یہ سلسلہ ایک عشرے سے بھی زائد مدت تک جاری رہا۔ تب سے اب تک یورپ بیک فٹ پر ہے اور محض امریکا کا ساتھ دینے کی خاطر کسی اور خطے کی اوکھلی میں سر دینے سے گریزاں رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے افغانستان سے بوریا بستر لپیٹنے کے عمل میں بھی بہت سی خرابیوں کی راہ ہموار کرنے سے گریز نہیں کیا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ طاقت کے نشے میں کوئی بھی ریاست اپنے مفادات کو محفوظ رکھنے کے نام پر کچھ بھی کر گزرتی ہے اور اس بات کی پروا بالکل نہیں کرتی کہ اس عمل میں کس پر کیا بیتے گی۔ افغانستان میں خرابیوں کا سلسلہ شروع کرنے کے بعد امریکی قیادت نے عراق‘ لیبیا اور شام کو بھی تاراج کرنے سے گریز نہیں کیا۔ عراق کا جو حشر ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ لیبیا فلاحی ریاست ہوا کرتا تھا۔ معمر قذافی مطلق العنان حکمران تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے پورے عہد میں ملک کے ہر شہری کو غیر معمولی سہولتیں میسر رہیں‘ زندگی آسان اور پرسکون تھی‘ بہت کچھ تھا جو ریاست کی ذمہ داریوں کا حصہ تھا اور عام آدمی کو بہتر زندگی ممکن بنانے کے لیے بہت زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی تھی۔ اب وہ سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ اُس دور کو یاد کرکے لیبیا کے باشندے اب صرف رویا کریں گے۔ اس سے بڑھ کر کچھ کر پانا اُن کے بس کی بات نہیں۔
جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے وہ انتہائی افسوس ناک سہی مگر کسی بھی درجے میں حیرت انگیز بالکل نہیں۔ کم و بیش دس برس قبل جب چین نے پورے خطے کی تقدیر بدلنے کے حوالے سے اپنے منصوبے طشت از بام کیے تھے تب امریکی قیادت کے کان کھڑے ہوئے تھے۔ واحد سپر پاور کا جو درجہ اب تک امریکا کو کسی نہ کسی طور حاصل ہے وہ جب خطرے میں پڑتا دکھائی دیا تو امریکا نے جنوبی‘ وسطی‘ مغربی اور جنوب مشرقی ایشیا میں وسیع البنیاد بگاڑ پیدا کرنے کے بارے میں سوچا۔ افغانستان کی اوکھلی سے سر نکالے بغیر ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ بارک اوباما کے پہلے عہدِ صدارت میں افغانستان سے امریکی افواج کو نکالنے کی باتیں کی جانے لگیں اور پھر دھیرے دھیرے امریکی افواج کو نکالا بھی جانے لگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تو واضح پالیسی یہ رہی کہ امریکا نے جہاں بھی بگاڑ پیدا کیا ہے وہاں سے نکل آئے اور مزید بگاڑ (فی الحال) پیدا نہ کرے کیونکہ صلاحیت و سکت کے محدود ہو جانے کا مرحلہ درپیش ہے۔
چین نے پاکستان کو بنیاد بناکر اقتصادی راہداری بنانے کا عمل شروع کیا تو امریکا اور اس کی ہم خیال ریاستوں کا ماتھا ٹھنکا۔ اس منصوبے کے بہ طریقِ احسن مکمل ہو جانے سے اُن کے مفادات پر ضرب پڑتی تھی۔ چین کا مضبوط ہو جانا لامحالہ امریکا اور اُس کے حاشیہ برداروں کے کمزور پڑنے کا سبب بننے والا تھا۔ افغانستان سے جان چھڑانے کے نام پر امریکا نے انخلا تو شروع کیا مگر دوسری طرف وسط ایشیا میں خرابیوں کا نیا سلسلہ شروع کرنے پر بھی توجہ دی تاکہ اس خطے میں امریکی افواج کے بڑے پیمانے پر موجود نہ رہنے کی صورت میں بھی معاملات کی خرابی کا گراف نیچے نہ آئے۔ چین نے افریقہ پر بھی غیرمعمولی توجہ دی ہے اور وہاں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ افریقی ممالک کو بھی چین کی شکل میں نجات دہندہ ملا ہے۔ اس پورے خطے کو امریکا اور یورپ نے صدیوں سے دبوچ رکھا ہے‘ ابھرنے کا موقع نہیں دیا۔ جہالت اور غربت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا یہ خطہ باقی دنیا کو دکھائی نہیں دیتا۔ چین نے کوشش کی ہے کہ افریقہ علاقائی و عالمی معیشت کے میدان میں ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ امریکا اور یورپ کے لیے یہ سب کچھ پریشان کن ہے۔ یورپ چونکہ افریقہ سے جڑا ہوا ہے اس لیے اُسے خوفزدہ کرکے افریقہ کی ترقی کے عمل سے دور رکھنا امریکا کے لیے خاصا آسان رہا ہے۔ چین نے متعدد افریقی ممالک سے معدنیات‘ توانائی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری اور اشتراکِ عمل کے طویل المیعاد معاہدے کیے ہیں۔ امریکا اور کچھ تو کر نہیں سکتا اس لیے معاملات خراب کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
ایک طرف چین کو افریقہ میں مزید کچھ کرنے سے روکنا مقصود ہے اور دوسری طرف اُسے جنوبی اور وسطی ایشیا میں بھی بڑا کھلاڑی بننے سے روکنا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب خطے میں خرابی کو مستقل حقیقت کی شکل دی جائے۔ بھارت خطے کا بڑا ملک ہے اور معاملات کو درست یا خراب کرنے کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ افغانستان میں طالبان کی پوزیشن کمزور کرنے کی خاطر بھارت کو بھی بروئے کار لانے سے گریز نہیں کیا گیا‘ مگر اس کا جو خطرناک نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے اُس کا اندازہ بھارتی قیادت کو نہیں ہے۔ وسط ایشیا کی ریاستوں نے اب تک تو محتاط طرزِ فکر و عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس سے افغانستان میں طالبان کے خلاف ان کا کردار ثابت ہو۔ امریکا کو فوجی اڈے دینے کے معاملے میں بھی وسط ایشیا کی ریاستیں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہیں۔ روس نے بھی خطے کے ممالک پر واضح کردیا ہے کہ امریکا کو فوجی اڈے دینا کسی طور قابلِ قبول نہ ہوگا۔ پاکستان کے لیے بھی معاملات کم پیچیدہ نہیں۔ امریکا کو فوجی اڈے دینے سے انکار تو کیا جاچکا ہے مگر بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوا کردار پاکستان کے لیے مستقل دردِ سر کی حیثیت اختیار کرسکتا ہے۔ پاکستان نے وسط ایشیا کی ریاستوں سے بات چیت کی ہے‘ ایران سے بھی اس معاملے میں بات چیت کرنے کی ضرورت ہے‘ خاص طور پر اس خبر کے تناظر میں کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے ایک ایران نواز ملیشیا بھی تیار کی جارہی ہے۔ یہ خبر بھی پریشان کن ہے کہ بھارت نے افغانستان کے بعض علاقوں میں ہتھیار گرائے ہیں۔ اب لازم ہوچکا ہے کہ پہلے مرحلے میں مذاکرات کی میز پر آنے کا آپشن اختیار کیا جائے۔ امریکا خطے سے رخصت ہوتے ہوتے بھی بگاڑ کا سامان کرنا چاہتا ہے۔ اُس کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے کہیں اور سے کوئی نہیں آئے گا‘ یہ کام خطے کے ممالک کی قیادت کو مل جل کر کرنا ہے۔ پاکستان یہ عمل شروع کرچکا ہے۔ دیگر ممالک کو بھی معاملات کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے خرابیوں کے سدِباب کی خاطر رابطے بڑھانے چاہئیں۔ اس حوالے سے علاقائی سربراہ کانفرنس کی فوری ضرورت ہے۔ ترکی اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ محض تماشا دیکھتے رہنے کا وقت گزر چکا ہے۔ تمام علاقائی ممالک کو آگے بڑھ کر کوئی ایسی حکمتِ عملی تیار کرنا ہے جس سے افغانستان میں خانہ جنگی کی راہ مسدود ہو۔ افغانستان میں امن ممکن نہ ہوا تو خطے میں بھی امن و استحکام یقینی نہیں بنایا جاسکے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved