اسلام آباد میں یکے بعد دیگرے جو واقعات ہوئے‘ انہوں نے پورے ملک کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ پہلے عثمان مرزا گینگ کی کارروائیاں‘ پھر افغان سفیر کی بیٹی کا ایشو اور اب نوجوان لڑکی نور مقدم کا بے رحمانہ قتل۔
وہ شہر جو کبھی پُرسکون شہر کہلاتا تھا، جہاں رات نو بجے کے بعد کوئی گاڑی یا بندہ آپ کو سڑک یا مارکیٹ میں نظر نہیں آتا تھا‘ وہ اب رات کے تین بجے تک کھلا رہتا ہے۔ اب اس شہر کی سڑکوں پر گاڑیوں کی ریس لگتی ہے۔ پچھلے دنوں کلثوم پلازہ کے انڈر پاس پر تیز رفتاری کے نتیجے میں جوان بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اب آپ کو باہر نکلتے ایک بے سکونی محسوس ہوتی ہے۔ اچانک آبادی بڑھنے سے شہر پر جو دبائو پڑا ہے اس کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت اس شہر کے حکمرانوں اور سرکاری انتظامیہ میں نہیں ہے۔ جب اسلام آباد کے لوگ اس شہر کے خوبصورت مناظر ٹویٹر اور سوشل میڈیا پر موبائل فون سے بنائی گئی تصویروں کو شیئر کرتے ہیں تو لوگوں کا دل چاہتا ہے‘ اس شہر میں جا کر رہا جائے۔ چلیں یہ سب کا حق ہے‘ جس کا جہاں دل چاہے‘ وہ رہے لیکن پھر یہ لوگ اس شہر میں آکر کیا کام کریں گے؟ یہ شہر صنعتی نہیں ہے، یہاں کارخانے نہیں ہیں، کوئی بندرگاہ بھی نہیں جہاں روز بحری جہاز لنگر انداز ہوتے ہوں اور دیہاڑی پر کام ملتا ہو۔ اس شہر میں کوئی بڑا کاروبار یا میگا پروجیکٹس بھی نہیں ہیں کہ مزدوری ملتی رہے۔ یوں دو تین آپشن بچ جاتے ہیں کہ وہ سارا دن گھروں کی گھنٹیاں بجا کر پوچھیں کہ گھر پر ملازم کی ضرورت ہے؟ یا پھر وہ کوئی ریڑھی لگا لیں یا پھر کدال کندھے پر ٹکا کر لوگوں سے بھیک مانگنا شروع کر دیں کہ آج کوئی مزدوری نہیں ملی۔ یا پھر جرائم پیشہ زندگی اختیار کر لیں اور یہی کام اب اسلام آباد میں ہورہا ہے۔ اسلام آباد اس وقت سب سے زیادہ آبادی کا دبائو لے رہا ہے۔ چوبیس کلومیٹر پر محیط اس شہر میں سینکڑوں ہائوسنگ سوسائٹیاں بن چکی ہیں۔ کئی ان میں سے غیرقانونی ہیں۔ پورے ملک سے لوگ ان کالونیوں میں پلاٹ خریدتے ہیں۔ ایک یہی دھندہ ہے جو یہاں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تو مجھے کوئی کاروبار یہاں نظر نہیں آتا۔ پراپرٹی کے کام میں پیسہ بہت ہے اور اس کے ساتھ جڑی مصیبتیں اور جرائم بھی بہت ہیں۔ پیسہ اپنے ساتھ جرم لاتا ہے اور یہی ہمیں اسلام آباد میں نظر آرہا ہے۔ جیسے جیسے شہر پھیلتا جا رہا ہے‘ جرائم بڑھ رہے ہیں۔ اب کسی کو کچھ پتہ نہیں کون کہاں سے آرہا ہے اور کیا کرتا ہے۔ اب اس شہر میں قتل ہوتے ہیں، ڈاکے پڑتے ہیں، گن پوائنٹ پر لوگ لوٹ لیے جاتے ہیں۔ اب تو اسلام آباد میں نیا کلچر متعارف ہورہا ہے کہ آپ اشارے پررکتے ہیں تو کوئی بندہ آپ کے قریب آتا ہے جیسے بھیک مانگنا چاہتا ہو یا پتہ پوچھنا چاہتا ہو۔ وہ زور سے آپ کی گاڑی کی ونڈو پر ہاتھ مارتا ہے۔ آپ ونڈو نیچے کرتے ہیں تو وہ آرام سے گن دکھاتا ہے اور آپ سے سب کچھ لے لیتا ہے۔ یہ واقعات مسلسل ہورہے ہیں۔ پھر اس شہر پر بھکاریوں کی ایک فوج نازل کی گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ پولیس کے کچھ اہلکار اس گینگ کو چلاتے ہیں۔ ایک بینک لوٹا گیا تو پتہ چلا‘ لوٹنے والے خود سپاہی تھے ۔ ایک دور تھا‘ اسلام آباد میں اخبارات کرائم رپورٹر ہی نہیں رکھتے تھے کہ جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔ اب یہ وقت آ گیا ہے کہ خبریں صرف بنتی ہی جرائم کی ہیں۔ جس طرح عثمان مرزا گینگ کی ایک لڑکے اور لڑکی کے ساتھ تشدد کی ویڈیو سامنے آئی تھی۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ شہر میں اب کیا کچھ ہوتا ہے۔
شہر کی ٹریفک کا یہ حال ہو چکا ہے کہ اب اسلام آباد میں کوئی ایسی سڑک نہیں بچی جہاں ٹریفک جام نہ ہوتا ہو۔ ہر اشارے پر لمبی قطاریں لگتی ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے‘ اچانک شہر میں اتنی گاڑیاں کہاں سے آ گئیں کہ پورا شہر اس میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ دوسری طرف میرے موٹر بائیک والے دوستوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ اسلام آباد میں اشارے توڑنے کا کبھی کلچر نہیں تھا۔ اب ممکن ہی نہیں کہ ہر لمحے اشارے نہ توڑے جاتے ہوں اور توڑنے والے یہ موٹرسائیکل والے بھائی ہیں۔ ایک توڑے گا تو اس کی دیکھا دیکھی دوسرے توڑیں گے۔ ڈلیوری بوائز سب سے زیادہ اشاروں اور ون ویز کی خلاف ورزیاں کررہے ہیں۔ آپ پوچھیں گے‘ اسلام آباد ٹریفک پولیس کا کوئی وجود ہے؟ تو جواب 'ناں‘ میں ہے۔ آپ کو کہیں پولیس نظر نہیں آئے گی۔ آپ کہیں غلط گاڑی پارک کر لیں، اشارے توڑ لیں‘ ریس لگا لیں، خود کو نقصان پہنچا دیں یا کوئی آپ کو پہنچا دے، ٹریفک پولیس اس معاملے میں کہیں نہیں ہے۔ ہاں کوئی بڑا حادثہ ہوجائے اور پولیس کو فون کریں تو گھنٹے بعد پہنچے گی۔ شہر کے ماحول کو آلودہ کرنے میں ٹریفک پولیس نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ یہ شہر دھیرے دھیرے مر رہا ہے۔
ایف نائن پارک کے سامنے نیا بلیو ایریا بن رہا ہے۔ جس شہر میں پہلے ہی پانی کی قلت ہے اور سڑکوں پر جگہ بھی کم ہوتی جا رہی ہے‘ وہاں درجنوں نئے کئی منزلہ عمارتیں شہر کے اندر کھڑی کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ میں ابھی سے دوستوں کو بتاتا رہتا ہوں کہ آپ ایف نائن پارک سامنے ہزاروں فلیٹس اور دکانوں پر مشتمل کئی منزلہ عمارتیں مکمل ہونے دیں پھر دیکھیں اس شہر کا کیا حشر ہوتا ہے۔ گاڑی ایک طرف‘ آپ کو یہاں پیدل چلنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اگر اس شہر کے رکھوالوں خصوصاً سی ڈی اے کے افسران میں کچھ سمجھ ہوتی تو ایف نائن کے سامنے بننے والے نئے بلیوایریا کو کہیں اور شفٹ کیا جاتا تاکہ شہر کے اندر ٹریفک کا دبائو نہ بڑھے۔ ایک نیا مال بنا تھا وہاں اب گاڑیاں باہر مین روڈ پر پارک ہوتی ہیں اور ہروقت ٹریفک میس بنا رہتا ہے۔ پارکنگ کی جگہ نہیں ملتی۔ حیران ہوتا ہوں‘ ان درجنوں پلازوں اور کئی منزلہ عمارتوں کو سی ڈی اے کہاں سے پانی فراہم کرے گا یا کیسے پارکنگ مہیا کی جائے گی؟ سوال کریں تو جواب ملتا ہے: یہ سی ڈی اے کے ماسٹر پلان میں شامل تھا۔ بھائی یہ پلان 1960 میں بنا تھا‘ کس نے سوچا تھا‘ ساٹھ برس بعد اس شہر کے آبادی تیس لاکھ کے قریب پہنچ جائے گی اور چھوٹا سا شہر اس کا دبائو برداشت نہیں کر پائے گا۔ حکمرانوں کو ایک ہی لولی پاپ دیا جاتا ہے کہ جناب نئی عمارتیں بننے سے معاشی ترقی ہوتی ہے‘ لیکن جب یہ عمارتیں بالکل شہر کے اندر بنیں گی جہاں پہلے ہی ٹریفک، پارکنگ، پانی اور بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل جینا حرام کررہے ہوں تو پھر وہ معاشی ترقی نہیں رہتی۔ پاکستان کے سب شہروں کے ساتھ یہی کیا گیا ہے۔ پاکستانی بیوروکریسی نے ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ساتھ مل کر اپنے اپنے اے ٹی ایمز کو خوش کرنے کیلئے شہر برباد کیے ہیں۔ ایک طرف زرعی زمینیں برباد کی جارہی ہیں اور ان پر ہائوسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں تو دوسری شہروں میں جس کا جہاں دل چاہتا ہے اپنا ڈھابہ ڈال لیتا ہے۔ کبھی ہر ضلع اور اتھارٹی میں ٹائون پلانر کا عہدہ ہوتا تھا۔ مافیا سب کچھ کھا گیا۔ اب کس کی مجال ہے‘ وہ اعتراض کرے کہ فلاں عمارت یہاں نہیں بن سکتی یا نہیں بننی چاہیے۔ سب کی چونچ گیلی ہوتی ہے۔
جب شہر پھیلنے لگتے ہیں تو یہ اپنے ساتھ بہت مسائل لاتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ جرائم ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں جرائم تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور انہیں ہینڈل کرنے کیلئے وہی اسلام آباد کی پرانی فورس ہے جو ان ایشوز کو ہینڈل کرنے کیلئے نہیں بنائی گئی تھی۔ یہ پولیس پروٹوکول فورس تھی نہ کہ جرائم کو روکنے کیلئے۔ یوں جرائم پیشہ افراد جب اس شہر پر حملہ آور ہوئے تو یوں لگا پولیس بے بس ہے۔ اسلام آباد‘ جو کبھی پُرسکون شہر تھا وہاں اب روز ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ دل دہل جائیں۔ جس طرح پہلے عثمان مرزا گینگ اور اب ظاہر جعفر کا شاکنگ ایکٹ سامنے آیا ہے‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کو حیوان بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔
جوبڑے شہردورسے خوبصورت لگتے ہیں انکے المیے بھی بڑے ہوتے ہیں۔