تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     25-07-2021

تبدیلی؟ کیا ابھی نہیں آئی؟

انسان غفلت کے غار اور بے توجہی کی گُپھا میں چھپ کر آرام کرتا رہے تو اور بات، ورنہ ہمارے گرد و پیش کتنی ہی چیزیں ہمیں روز بلکہ ہر پل احساس دلاتی رہتی ہیں کہ آج سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا کل تھا۔ گرد و پیش بدلتے جا رہے ہیں۔ مانا زمین کی گردش اسی طرح ہے جس میں سیکنڈ کے ہزارویں حصے کا خلل بھی نہیں پڑتا۔ مانا سورج اسی طرح نکلتا اور دھوپ اسی طرح ہریالی کو نمو دیتی ہے۔ چاند اسی افق سے طلوع ہوتا، مسحور کرتا دوسرے افق میں ڈب جاتا ہے۔ بادل گھر کر اکٹھے ہوتے ہیں، چھماچھم بارش اسی طرح مبہوت اور سیراب کرتی ہے۔ کارخانۂ قدرت بظاہر ہر روز اسی طرح چل رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ ہر چیز بدل رہی ہے۔ ایک عہد شروع ہوتا ہے، درمیان تک پہنچتا ہے اور پھر ختم ہوتا ہے اور اگلا دور شروع ہو جاتا ہے۔
ہر چیز بدل رہی ہے۔ ذرا غور کیجیے‘ آپ نے کیا کیا دور شروع اور ختم ہوتے دیکھے۔ انسانوں کے حوالے سے سوچیں تو میں اور میرے بہن بھائی خوش نصیب تھے کہ اپنے دادا دادی، نانا نانی والد والدہ کو شعور کی عمر میں اچھی طرح دیکھا۔ لگتا تھا کہ یہ نہ ہوں گے تو ہم زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ اب ان میں سے کوئی زندہ نہیں لیکن ہم زندہ ہیں۔ چچا، ماموں، دیگر قریبی رشتے داروں‘ سب کی محفلوں سے لطف اٹھایا۔ اب ان میں سے بہت بڑی تعداد جا چکی ہے۔ ابتدائی زمانوں کے اساتذہ اب موجود نہیں ہیں۔ کئی ہم عمر دوست بھی بہت پہلے رخصت ہو چکے۔ جس دنیا سے ہم نے آغاز کیا تھا، اور ہمارے اطراف میں جو لوگ تھے وہ اپنی شکلیں بدل چکے۔ ہجوم وہی ہے لیکن اس میں بڑی تبدیلی آچکی۔
سیاست کو دیکھ لیں۔ ایوب خان کا دور حکومت ختم ہوا جو لگتا ہی نہیں تھا ختم ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو، خان عبدالقیوم خان، مولانا مودودی، بھاشانی، شیخ مجیب الرحمن، ولی خان، مفتی محمود، مولانا نورانی، نواب زادہ نصراللہ خان سکہ رائج الوقت تھے۔ لگتا تھا کہ ملک بلکہ دنیا ان کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ یہ سب چلے گئے لیکن دنیا چلتی رہی۔ جنرل ضیاالحق کا دور شروع اور پھر ختم ہوا۔ بے نظیر بھٹو، جنرل مشرف، نواز شریف سب طاقتور ترین لوگ سٹیج پر آئے اور چلتے بنے۔ کردار بدلتے رہے، ڈرامہ اسی طرح جاری رہا۔ ایسا ڈرامہ جس میں کردار جوش و خروش سے شامل ہوتے اور نکل جاتے ہیں اور جس کے اختتام کا کچھ علم نہیں۔
انسان اس تغیر کو خود بھی محسوس کرتا رہتا ہے۔ اور کچھ بھی نہ کرے صرف اپنی چند سال پرانی تصویروں کا حالیہ تصویروں سے موازنہ کرلے تو بھائی صاحب کے اوسان خطا ہونے لگتے ہیں کہ ہیں؟ یہ جو میں صبح اسی طرح اٹھتا ہوں، اسی طرح اپنی پسندیدہ چیزیں کھاتا پیتا ہوں، بھرپور نیند لیتا ہوں۔ یہ مجھے کیا ہوگیا؟ یہ مجھے کس نے تبدیل کردیا؟ میرے دانتوں کو کیا ہوگیا؟ یہ عمر بھر کے ساتھی اب لڑکھڑا کیوں رہے ہیں؟ میرے سیاہ بالوں پر راکھ کس نے مل دی؟ دور اور نزدیک کے منظروں کے پٹ میری آنکھوں پر بند کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ میری تنی ہوئی ملائم جلد پر سلوٹیں کیسے نمودار ہوگئیں؟ پچھلے سال تو نہیں تھیں۔ میرے ہاتھوں کی گرفت اب شکنجے جیسی کیوں نہیں رہی؟ میرے پاؤں اتنی تیزی سے سیڑھیاں کیوں نہیں چڑھتے؟ میرا دماغ بیتے وقت کو یقین کے خانے سے شبہات کے ڈبے میں کیوں ڈالنے لگا ہے؟ میرا دل...
اپنے آپ پر غور کرتے جائیے اور بوکھلاتے، گھبراتے جائیے۔ کتنی نشانیاں ہیں تغیر کی۔ قرآن نے کہا ہے نا ''اور تمہارے اپنے نفسوں میں بھی‘ پس کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟‘‘ (مفہوم)۔ مت گھبرائیں‘ یہ تو ہوتا ہی ہے ہر دور میں ہر نسل ہر شخص کے ساتھ۔ صرف یہ کہ ایک زمانے میں ان تغیرات کا احساس کم کم ہوتا ہے۔ زندگی کی دوڑ سوچنے کی مہلت بھی تو کم کم دیتی ہے۔ اور جب سوچنے کی مہلت ملتی ہے تو زندگی کی مہلت ختم ہو رہی ہوتی ہے۔
ٹیکنالوجی کے حوالے سے لگتا ہے‘ شاید زمانہ نہیں بلکہ یہ سیارہ ہی بدل چکا۔ جہازی سائز ریڈیو کو چھوٹے ٹرانسسٹر میں بدلتے دیکھا، پھر میزپر ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی۔ سپول یعنی چرخیوں والے ٹیپ ریکارڈر کو حیرت سے دیکھا جو ہمیں ہماری اپنی آوازیں سنا رہا تھا۔ ٹیپ ریکارڈرز کی نسل بدلی اور ایک چھوٹی سی پلاسٹک کی چیز جس میں چاکلیٹی ربن شامل تھے، کیسٹ کہلانے اور جانی پہچانی آوازیں نکالنے لگی۔ پھر ٹی وی کے ساتھ ایک بڑا سا جدید ترین ڈبہ جڑ گیا جسے وی سی آر کہتے تھے۔ ہر گھر میں ایک سائیکل لازمی تھی، اتوار کے اتوار اس کی گراریوں کو تیل دیا جاتا، چین کسی جاتی اور دھو کر سارے ہفتے کی مٹی اور کیچڑ اتارے جاتے۔ پھر اس نے سکوٹر اور موٹر سائیکل کے لیے جگہ خالی کی۔ ہر گھر میں نہیں بلکہ یہ صرف آسودہ حال گھرانوں کو نصیب تھیں۔ اگلا مرحلہ گاڑی کا تھا۔ متوسط گھرانوں میں پہلے پہل پورے خاندان میں صرف ایک گاڑی آئی، پھر ہر گھر میں پہنچ گئی۔ گھروں میں نعمت خانے، ہوادان اور چھینکے فرسودہ ہوئے اور فریج، ڈیپ فریزر نے انہیں اٹھا کر کچرے میں پھینک دیا۔ کوئلوں کی بوریوں، جلانے والی لکڑیوں کا دور یعنی ہیزم سوختنی کا دور ختم ہوا اور سوئی گیس کے چولہے بھڑبھڑ جلنے لگے۔ چٹھیوں اور خطوں کے نظام سے دنیا، خاندان، دوست باہم جڑے ہوئے تھے۔ پھرسیاہ رنگ کے فون ہر گھر میں پہنچے اور بولے جانے والے لفظ ہزاروں میل کا سفر کرکے کانوں تک پہنچنے لگے۔ لوہے کی سلاخوں سے بند لاریوں کی جگہ بڑی کھڑکیوں کی شیشوں والی بسوں نے لے لی۔ ہوائی جہاز‘ جو کم مسافروں کے ساتھ اڑان بھرتے اور سانس لینے کیلئے جگہ جگہ اترتے تھے، پیٹ بھر کر مسافروں کو جگہ دینے اور منزل تک براہ راست پہنچنے کی منزلوں تک آ گئے۔ گاڑیاں یورپ کے بجائے جاپان سے آنے لگیں۔ وہ پہاڑ، وہ جھیلیں، وہ دریا جہاں صرف شہزادے سیف الموک کے پہنچنے کا ذکر سنا تھا، لوگ ذاتی پُرآسائش گاڑیوں میں، گدیوں پر بیٹھ کر پہنچنے لگے۔ خواب تعبیر ہونے لگے۔ تجسس خوشی میں تبدیل ہوا اور حیرانی ختم ہوکر معمول کی زندگی میں بدل گئی۔
آج جب لوگ ناشتہ ایشیا اور ظہرانہ یورپ میں کررہے ہیں‘ دنیا پٹرول کی گاڑیاں ترک کرکے الیکٹرک گاڑیوں میں بیٹھ رہی ہے‘ ایک بڑی تحریر بلکہ کتاب ایک کلک سے ہزاروں میل دور کسی براعظم میں پہنچ جاتی ہے‘ پورے پورے انسائیکلوپیڈیا، پورے پورے کتب خانے میرے سرہانے دھرے ہیں‘ لوگ اپنے گھروں سے بیٹھ کر دفتروں میں حاضر ہیں‘ جھیل کنارے نیم دراز ہوکر سینکڑوں میل دور اپنے کاروبار چلا رہے ہیں‘ میں تبدیلی کے مسئلے پر غور کر رہا ہوں۔ کیسا عجیب نظام ہے دنیا کا کہ سب کچھ وہی ہے جو ازل سے تھا لیکن پھر بھی ہر چیز بدل چکی ہے۔ میں لوگوں کو زوروشور سے بحث کرتے دیکھتا ہوں۔ ایک فریق کہہ رہا ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں آرہی ۔ ایک گروہ قائل ہے کہ تبدیلی آرہی ہے بلکہ آچکی ہے۔ دونوں کے پاس اپنے دلائل ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ دونوں کا موضوعِ گفتگو ملکی سیاست ہے اور وہ سیاست دان جو جلد ہی سٹیج سے باہر نکل کر پس منظر کے اندھیرے میں ڈوب جانے والے ہیں۔ ایسے میں ان تبدیلیوں پر کون غور کرے جو آ نہیں رہیں، آچکی ہیں۔ جو سیاست نہیں زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ کتنی ہی تبدیلیاں آ چکی ہیں‘ دیکھو تو سہی‘ تمہارے گردوپیش میں اور تمہارے جسموں میں۔ ہاں! تبدیلی نہیں آئی تو تمہارے اندر۔ لیکن بھائی، ایک سب سے بڑی تبدیلی تو ابھی ہونی ہے۔ ایک انقلابی تبدیلی۔ ایسی جس میں زمین آسمان ہی بدل جائیں گے۔ ہائے! کیا الفاظ ہیں زمانوں کو جاننے والے نبی کے ''یہ دنیا کوچ کرکے جا رہی ہے اور وہ آخرت کوچ کرکے آرہی ہے۔ ان دونوں (دنیا اور آخرت) میں ہر ایک کی اولاد ہے۔ تو اگر تم یہ کر سکو کہ دنیا کی اولاد نہ بنو تو ایسا ہی کرو، کیونکہ آج تم عمل کی جگہ ہو جہاں حساب نہیں اور کل تم آخرت کے گھر میں ہو گے جہاں عمل نہیں ہوگا۔‘‘ (شعب الایمان)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved