ڈیڑھ سال سے کورونا وائرس نے باقی دنیا کی طرح پاکستان کا بھی ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ معیشت کا حال پہلے ہی بہت بُرا تھا۔ کورونا کی وبا نے رہی سہی کسر یوں پوری کی ہے کہ اب معاشی اعتبار سے پنپنے کے امکانات صفر کی منزل پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ کئی بار لاک ڈاؤن نافذ کرکے معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے۔ لاک ڈاؤن سے حاصل تو کیا ہونا ہے‘ اُلٹا گیا ہی گیا ہے۔ بے روزگاری اور افلاس کا گراف بلند ہوا ہے۔ افلاس اور بے روزگاری کے باعث معاشرتی الجھنیں بھی دوچند ہوگئی ہیں۔ بڑے شہروں کا بھی بُرا حال ہے۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ چھوٹے شہروں اور دیہات کا کیا حال ہوا ہوگا۔ پاکستان کے بہت سے علاقوں کی معیشت کراچی‘ لاہور‘ ملتان‘ فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں روزگار کے مواقع ملنے کی بنیاد پر چلتی ہے۔ لاک ڈاؤن نے گھروں سے دور رہنے والے لاکھوں افراد کو بے روزگار کرکے اُن کے آبائی علاقوں میں شدید معاشی مسائل پیدا کیے ہیں۔
کراچی میں لاک ڈاؤن کا معاملہ عجیب ہی رہا ہے۔ کبھی اچانک سب کچھ بند کردیا جاتا ہے اور کبھی کھول دیا جاتا ہے۔ ریستوراں اور ہوٹلز کا بزنس تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ شادی ہال والے بھی رو رہے ہیں۔ دکان دار الگ پریشان ہیں۔ ایس او پیز کے نام پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں اُن کا احترام برائے نام ہے۔ سندھ حکومت نے کورونا وائرس کی روک تھام کے نام پر کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے جو ڈُھل مُل رویہ اپنایا ہے اُس نے لوگوں کو ایس او پیز کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کی تحریک نہیں دی۔ ایک طرف تو حکومت کہتی ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ماسک لگانا اور سماجی فاصلہ اختیار کرنا لازم ہے اور دوسری طرف انتظامیہ نے بعض مقامات پر عجیب و غریب طرزِ عمل اختیار کی ہے۔ کہیں بیشتر ہوٹل بند ملتے ہیں اور قریب ہی دو تین کھلے رہتے ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ''سیٹنگ‘‘ کرلی گئی ہے۔ یوں رشوت کا ایک اور دروازہ کھل گیا ہے۔ اب پھر لاک ڈاؤن نافذ کیا جارہا ہے۔ حکومتِ سندھ نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔ ریستوران میں اندر اور باہر کھانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یعنی وہاں سے کھانا صرف لے جایا جاسکتا ہے یا منگوایا جاسکتا ہے۔ ریستوران مالکان نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے کاروبار پر پابندی عائد کی گئی تو وہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ احتجاج میں پوری تاجر برادری اُن کا ساتھ دے گی۔ دوسری طرف شادی ہال مالکان بھی شکوہ کر رہے ہیں کہ صوبائی حکومت ان کے کاروبار پر بے جا بندش عائد کر رہی ہے۔ ان دو شعبوں کا کاروبار روکنے سے لاکھوں افراد کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت بھارت میں پائے جانے والے کورونا وائرس کے ویریئنٹ ''ڈیلٹا‘‘ کا شدید خوف پاکستان کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ بھارت میں ڈیلٹا ویریئنٹ کے ہاتھوں جو کچھ ہوا وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے یہاں بھی لوگوں کا خوف زدہ ہونا حیرت انگیز امر نہیں۔ وفاقی حکومت نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ اگرچہ اطمینان بخش ہیں مگر اِس سے بڑھ کر حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں محفوظ رکھا ہے۔ سندھ حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ آئے دن کاروبار کی بندش کے ذریعے صورتِ حال کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ سب کچھ ناقص حکمرانی کے ذیل میں آتا ہے۔ ڈیڑھ سال سے اہلِ سندھ یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ بات بات پر کاروبار بند کردیا جاتا ہے۔ کیا واقعی معاملات اتنے بگڑے ہوئے ہیں کہ محض کاروبار کی بندش سے سب کچھ درست ہو جائے گا؟ حکومتِ سندھ اپنے عمل سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ جتنی بھی خرابیاں پائی جارہی ہیں اُن کی جڑ میں معاشی سرگرمیاں ہیں۔ یعنی یہ کہ اگر لوگ گھر بیٹھ جائیں‘ کام نہ کریں تو سب کچھ درست ہو جائے گا۔ ایک طرف کاروباری بندش ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا دشوار ہوچکا ہے اور دوسری طرف سرکاری مشینری ہے جسے بندش کے دوران بھی تنخواہ باقاعدگی سے ادا کی جاتی رہی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ صنعت کاروں اور تاجروں کو اُن کے اپنے سرمائے سے قائم کاروبار چلانے سے روک دیا جائے اور دوسری طرف سرکاری مشینری کو پالا جاتا رہے؟
یہ بات اب تک سمجھ میں نہیں آئی کہ خوف آخر کس بات کا ہے۔ حکومتِ سندھ نے کورونا کی وبا سے نمٹنے کے معاملے میں کاروبار کی بندش کو بہترین اور سب سے قابلِ ترجیح ہتھکنڈے کے طور پر اپنایا ہے اور مقتدر قوتوں کو یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اُن کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہے۔ کسی بھی صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے سلسلۂ زندگی کو روک دینا کوئی معقول طریقہ نہیں۔ اگر کہیں سکیورٹی کا مسئلہ ہے تو اس کا حل یہ نہیں کہ رکاوٹیں کھڑی کرکے راستے ہی بند کردیے جائیں اور لوگوں کو وہاں سے گزرنے ہی سے روک دیا جائے۔ یہ تو آسان ترین کام ہے۔ سندھ حکومت یہی کر رہی ہے۔ وہ کاروبار بند کرکے اس کا بھی کریڈٹ لینے کے لیے کوشاں رہی ہے!
کیا لاک ڈاؤن سے تمام خطرات کو ٹالا جاسکتا ہے؟ ایس او پیز کی تعمیل یقینی بنانے پر توجہ دینے کے بجائے محض لاک ڈاؤن کا ہتھکنڈا اپنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کیا ہے؟ کیا صوبے یا ملک کو بند کردینے سے معاملات کو درست کیا جاسکتا ہے؟ امریکا اور یورپ نے پہلے دنیا کو یہ تاثر دیا کہ کورونا کی وبا نے انہیں بھی بُری طرح لپیٹ میں لیا ہے۔ پھر انہوں نے ویکسین تیار کرنے کا معاملہ کیا اور اب ویکسین لگوانے کے بعد سب کچھ معمول پر لے آئے ہیں۔ فٹبال میچوں کے دوران سٹیڈیم تماشائیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ایشیا اور افریقہ میں معاملات اب تک الجھے ہوئے ہیں۔ سفر کی اہلیت ویکسین لگوانے سے مشروط کردی گئی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی یقینی بنایا جارہا ہے کہ پس ماندہ ممالک میں معاشی عمل رکاوٹوں سے اَٹا رہے۔ پاکستان میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔
بھارت میں اگر کورونا کی وبا نے غیر معمولی تباہی کی راہ ہموار کی تو اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ معاشرہ غیر معمولی معاشرتی تقسیم سے عبارت ہے۔ وہاں لوگ ویسے ہی ایک دوسرے سے خائف اور الگ تھلگ رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاملات بہت مختلف ہیں۔ یہاں بنیادی وصف ہے جی داری۔ ہم کسی بھی صورتِ حال کو سنجیدگی سے ضرور لیتے ہیں مگر دل پر نہیں لیتے۔ کورونا کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ ہماری جی داری ہی تو ہے جس نے ہمیں شدید خوف میں مبتلا ہونے سے روک کر اس وبا کا پامردی سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ بخشا۔ بھارت‘ امریکا اور یورپ میں کئی لاکھ افراد محض خوف زدہ ہونے کی بنیاد پر کورونا وائرس کی زد میں آگئے۔
سندھ حکومت کس بات سے خوف زدہ ہے‘ کچھ پتا نہیں چلتا۔ وفاق نے اپنے معاملات درست رکھے ہیں۔ پنجاب نے کورونا کی وبا پر قابو پانے کے نام پر محض لاک ڈاؤن کا طریقہ اپنانے سے گریز کیا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اور کچھ ہو نہ ہو‘ بے روزگاری اور افلاس کا گراف ضرور بلند ہونا ہے۔ پاکستان کی معیشت کسی بھی اعتبار سے اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی بھی بڑا دھچکا برداشت کرسکے۔ وقفے وقفے سے لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے گریز کیا جائے۔ صنعت کاروں اور تاجروں کو کام کرنے دیا جائے۔ کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں گی تو کورونا جیسی وبا کا سامنا کرنے کے وسائل بھی میسر ہوسکیں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کا مورال گرے گا نہیں۔ کورونا کے بھارتی ویریئنٹ ڈیلٹا کو ہوّا بناکر پیش کرنے سے گریز کیا جائے۔ سندھ حکومت اگر خوف میں مبتلا رہنا چاہتی ہے تو شوق سے رہے مگر عوام کو خوف میں مبتلا کرنے سے گریز کرے۔ قوم کو بلند حوصلے کی ضرورت ہے۔ ہم کسی بھی وبا کا سامنا پامردی سے کرسکتے ہیں۔ شرط صرف اتنی ہے کہ حوصلہ نہ ہارا جائے۔ کسی بھی صورتِ حال سے خوف زدہ ہوکر بندش کی راہ پر چلنے کے بجائے سامنے آکر معمولات کے ساتھ اُس کا مقابلہ کرنا ہی قرینِ دانش ہے۔ اہلِ سندھ کو عمومی اور اہلِ کراچی کو خصوصی طور پر کاروبار کی بندش کے عذاب سے چھٹکارا ملنا ہی چاہیے۔