تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     25-07-2021

افغانستان پر ماضی کے سائے

افغانستان کو چھوڑ کرچلتا بنا ۔ افغانستان میں امریکی کہانی کا یہی تسلسل ہے ۔ صرف یہی نہیں‘ بھارت کی افغان کہانی بھی جوں کی توں ہے ۔ صرف پاکستان نے نیا صفحہ پلٹا ہے ۔ کیا واقعی؟ امریکی یہی پوچھ رہے ہیں ۔ دنیا اسی بات پر حیرت زدہ ہے ۔ لکھے گئے سکرپٹ میں فی الحال یہی ایک فرق دکھائی دیا ہے ۔ گزشتہ دو دہائیوں سے افغانستان میں جو کچھ ہوا اس پر ان گنت مذمتی بیانات اورلاکھوں تحقیقاتی مطالعے اور ناقدانہ جائزے موجود ہیں ۔خرابی کہاں ہوئی ؟ کیا کچھ کیا جاسکتا تھا؟کیاکیا جاتا‘ یا کس چیز سے گریز کیا جاتا؟دنیا کے ہر آرکائیو میں اس موضوع پر مواد دستیاب ہے ۔ پھر بھی اہم کھلاڑی یہی کچھ کررہے ہیں ۔ کیا امریکی انخلا کے بعد ایک مرتبہ پھرتباہی اور بربادی کی وہی آندھی چلنے والی ہے ؟یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ پاکستان کا ''ہر گز نہیں‘‘ہوسکتا ہے کہ مغرب کو اچھا نہ لگا ہولیکن اس نے افغان سٹیک ہولڈرز کو اعتماد بخشا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی افغانستان میں اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو مذاکرات کی دعوت ایک تاریخی پیش رفت ہے۔
بلاشبہ گیارہ ستمبر ایک سانحہ تھا لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تباہ کن تھا ۔ یہ تشدد کو مزید تشدد سے دبانے ‘ طاقت کے اندھے استعمال اور انسانی حقوق کے نام پر تمام انسانی اصولوں کی پامالی کی کلاسک مثال تھی ۔ہم نے پستی کی انتہادیکھی ۔ لاکھوں افراد کی جان چلی گئی‘ کروڑوں متاثر ہوئے ‘ خطے میں تشدد کی مزید آگ بھڑکی‘ دنیا کو بھی تشدد کی تمازت محسوس ہوئی اور سب سے اہم یہ کہ طالبان جو افغانستان میں اقلیت میں تھے ‘ آج اکثریت میں تبدیل ہوچکے ۔ جیسا کہ خدشہ تھا‘ اب ملک خانہ جنگی کے شعلوں کی لپیٹ میں آتا جارہا ہے ۔ حکومت یا انتظامیہ اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ۔ پاکستان کے لیے یہ تکلیف دہ واقعات کی یاددہانی ہے کہ اگر مختلف طرزِ عمل نہ اپنایا گیا تو جو خرابی ماضی میں ہوئی تھی ‘ اس کا ایک مرتبہ پھر اعادہ ہونے جارہا ہے ۔ امریکی انخلا کے بعد تین طرح کی سیاسی جغرافیائی الجھنیں سر اٹھا سکتی ہیں:
1۔ قوم کی تعمیر سے تخریب تک : امریکا کی زیادہ تر جنگیں ''قوم کی تعمیر ‘‘ کا ایجنڈا رکھتی ہیں ۔ افغان جنگ کا ہدف بھی یہی تھا۔ سرد جنگ کے اختتام سے لے کر 2005ء تک ہر سال امریکا کسی نئی قوم کی تعمیر کا عزم کرتا دکھائی دیا ۔ اس سے پہلے ''انسانی بنیادوں ‘‘ پر مداخلت کی گئی ۔ صومالیہ ‘ ہیٹی‘ بوسینا ‘ کوسوو اور مشرقی تیمور ایسی ہی ''اعلیٰ و ارفع ‘‘ مداخلت کی مثالیں ہیں۔ افغانستان اور عراق میں لڑی جانے والی طویل جنگوں سے ہونے والی بے پناہ تباہی کے بعد صدر جوبائیڈن نے روایتی امریکی ''عزم‘‘ کی دوٹوک تردید کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم افغانستان میں قوم کی تعمیر کے لیے نہیں گئے تھے ۔ ‘‘دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب تھا کہ اب افغانستان بھاڑ میں جائے ۔
2۔ انحصار سے ہاتھ جھٹکنے تک : امریکی قبضے کی منصوبہ بندی میں خرابی یہ ہے کہ وہ بہت آسانی سے کسی ملک میں داخل ہو کر اس کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں ‘ لیکن پھر وہاں سے نکلنے کی حکمت عملی بہت ناقص ہوتی ہے ۔ کمزورحکومتوں کو چننا‘ اُنہیں فوجی اور مالی امداد فراہم کرنا اور ان کی پالیسی سازی کو اپنے کنٹرول میں رکھناامریکی حکمت عملی میں شامل ہے ۔ امریکی مداخلت کے ردعمل میں کلائنٹ حکومتوں کو تشدد اور شورش کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پھر امریکا کی جنگی مشین ڈرون یادوسرے جدید ہتھیاراستعمال کرنے لگتی ہے ۔ جب مداخلت شدت اختیار کرتی ہے تو کلائنٹ حکومت کمزور ہونے لگتی ہے ۔ کمزوری کی وجہ سے اس کا امریکی امداد پر انحصار مزید بڑھ جاتا ہے ۔ مقامی افراد کی صلاحیت میں اضافہ جو کہ امریکا کا اعلانیہ ایجنڈا ہوتا ہے اور جو انخلاکی حکمت عملی ہونی چاہیے ‘ کئی وجوہ کی بنا پر ناکام ہوجاتا ہے۔ اس ناکامی کی وجہ صلاحیت اور فعالیت کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیس سال تک افغان امور کوبہت نچلی سطح پر بھی کنٹرول کرنے کے باوجود امریکا افغان فوج کو اس قابل نہیں بنا سکا کہ وہ طالبان کے مقابلے میں اپنا دفاع کرسکے ۔ یہ صورت حال یقینا بہت بڑی کوتاہی ہے ۔
3۔ غارت گر سے سہولت کار تک: غیر ملکی مداخلت کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس کا نشانہ بننے والے ملک میں بے وقعت کھلاڑیوں کو انتشار پھیلانے اور معاشرے کو تقسیم کرنے کی شہ ملتی ہے ۔ اس کی ایک مثال شمالی اتحاد کا ابھرنا ہے ۔ انڈیا کی مداخلت بھی واضح ہے ۔ اس کے نتیجے میں خود مختار ریاست اندرونی اور بیرونی طور پر سیاسی طالع آزمائوں کی شکار گاہ بن جاتی ہے ۔ انڈیا نے افغانستان کو استعمال کرتے ہوئے اپنی کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں شروع کردیں ۔ اس نے پاکستان کے خلاف خارجہ پالیسی کے اہداف کے لیے وہاں کئی قونصل خانے کھولے ۔ بدقسمتی سے ماضی میں پاکستان امریکی ایجنڈے کا آلہ کار بن کر افغانوں اور دہشت گردوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بنا ۔ آج سوال یہ ہے کہ کیا امریکا نے وہی کچھ کیا ہے جو اس نے ماضی میں کیا تھا؟ نیز یہاں سے ہم آگے کہاں جاسکتے ہیں؟ ان سوالات کے جواب کے لیے گہرا تدبر اور عمیق فکری رسائی درکار ہے ۔ ڈیورنڈ لائن کے اُس پار سے سرایت کرنے والی خرابی سے بچنے کیلئے پاکستان کچھ اقدامات اٹھاسکتا ہے ۔
1۔ تمام سطحوں پر ''ہر گز نہیں ‘‘: امریکا کوسرحد پارمحفوظ ٹھکانوں میں بیٹھ کر لڑنے کی سہولت فراہم کرنے سے انکار بلاشبہ پاکستان کے لیے مشکل ترین فیصلہ تھا ۔ یہ ماضی کی نسبت پالیسی میں اہم تبدیلی ہے ۔ ضروری ہے کہ اب اس فیصلے پر لچک نہ دکھاتے ہوئے پاکستان کے بارے میں قائم ہونے والے اس تاثر کو تقویت دی جائے کہ اب اس کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوا جاسکتا۔ سول اور ملٹری کا ہم خیال ہونا خوش آئند ہے ۔ اس حوالے سے دونوں ایک پیج پر ہیں لیکن بہت سے مفاد پرست دھڑے تخریب کاروں کو سہولت فراہم کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ ان کے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہیے ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ماضی کی طرح تشدد کے ردعمل میں مزید تشدد ہوگا اور اس میں سنگینی آتی جائے گی ۔
2۔ افغان مذاکرات کار دھڑوں کی سہولت کاری: پاکستان نے عید کے بعد تمام سٹیک ہولڈرزکو امن کا راستہ نکالنے کے لیے بات کرنے کی دعوت دی ہے۔ امن کی سب سے بہترین راہ یہی ہے ۔ اُن کے ساتھ رابطے میں رہیں ‘ اُن کے لیے سہولت پیدا کریں ‘ انہیں بات چیت کا موقع فراہم کریں تاکہ افغان عوام کا مجموعی طورپر بھلا ہوسکے ۔ درحقیقت حامد کرزئی اور حکمت یار جیسے افراد کو گفتگو کے لیے مدعوکرنا بہت بڑا قدم ہے ۔ ایسے روابط میں تسلسل ہونا چاہیے ۔
3۔ جنوبی ایشیا کی سیاسی لابی کے قیام کی ضرورت : پاکستان تجارتی پالیسی کے اعتبار سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ گہرے اور وسیع روابط رکھتا ہے ۔ ان روابط کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں امن کے لیے ایک لابی قائم کی جاسکتی ہے۔ فرض کریں ''امن ‘ استحکام اور خوش حالی کونسل برائے وسطی ایشیا‘‘۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کے استحکام کیلئے اس پلیٹ فورم کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
4۔ مغربی ذہن کو باور کراتے رہیں: اس وقت اپنی خوداری کی وجہ سے پاکستان یقینا مغرب کا جغرافیائی دبائو محسوس کررہا ہے تاہم بہت سے یورپی ممالک اس کشمکش سے الگ رہنا چاہتے ہیں ۔ اسی طرح امریکا کے اندر بھی تقسیم کی لکیر موجود ہے کہ اس کشمکش سے کیسے نمٹایا نکلا جائے ۔ ایسے ممالک کو شناخت کرنے کی ضرورت ہے کہ جو اس کشمکش سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کرسکیں ۔ لیکن پھر وہاں انڈیا کااثر بھی موجود ہوگا۔ لیکن افغانستان کے اہم علاقوں سے انڈیا کے اپنے انخلا کو اجاگر کیا جاسکتاہے ۔
دوعشروں سے جاری جنگ ایک اور جنگ سے ختم نہیں ہوسکتی ۔ دوعشروں سے بھڑکنے والی تشددکی آگ مزید کشمکش سے نہیں بجھے گی۔دوعشروں پر محیط عدم استحکام ڈرون طیاروں اور بموں سے استحکام میں نہیں بدل سکتا۔ اس کے لیے گفتگو‘ مکالمہ‘ مذاکرات‘ ڈیل اور مفاہمت کا عمل درکار ہے ۔ امن کا راستہ یہی ہے ‘ جیسا کہ مارتن لوتھر کنگ نے کہا تھا ''نفرت کو نفرت ختم نہیں کرسکتی‘ صرف محبت ہی ختم کرسکتی ہے ۔ تاریکی کو تاریکی دور نہیں کرسکتی‘ روشنی کرسکتی ہے اور جنگ کو جنگ ختم نہیں کرسکتی‘ صرف امن ہی ختم کرسکتا ہے ۔ ‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved