تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     26-07-2021

لوکل گورنمنٹ سسٹم خطرے کی زد میں

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کو بلدیاتی ادارے بحال کرنے کے لیے 28 جولائی تک مہلت دی ہے۔ عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب سے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے اور اس پر پنجاب حکومت کو عمل کرنا ہو گا۔ عدالت نے باور کرایا کہ لوکل گورنمنٹ فنڈز سے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو سکتا۔ واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی معزز جج عائشہ اے ملک نے جولائی 2018ء کے الیکشن کے بیشتر امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کو مسترد کرتے ہوئے اصلی اور حقیقی کاغذات نامزدگی کو بحال کر دیا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس (اب سابق) ثاقب نثار نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 60 میں ذیلی شق تین کا اضافہ کرتے ہوئے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ لازمی حلف نامہ منسلک کر کے اسے آئندہ کیلئے مثال بنا دیا تھا۔
پنجاب حکومت نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء میں 72 صفحات پر مشتمل ترمیمی آرڈیننس جاری کر کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کی روح کو ہی منجمد کر دیا ہے‘ جس پر کسی سیاسی جماعت‘ سول سوسائٹی اور کالعدم بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کی نگاہ نہیں پڑی۔ اس ترمیمی آرڈیننس سے ایک مرتبہ پھر عوام کو نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا خواب دور دور تک شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت‘ اپوزیشن اور میڈیا پرسنز میں بھی کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو صحیح طریقے سے جانتا ہو کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کی بنیادی حیثیت کیا ہے اور ستم ظریفی دیکھیے کہ حکومت نے خاموشی سے بڑا ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا اور گورنر پنجاب‘ جو بلدیاتی اداروں کی روح کو جانتے ہیں‘ نے بھی آنکھ بند کر کے حکومت کی ایما پر ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا۔ عوام کو تو اس کے منفی نتائج کا علم ہی نہیں ہے‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی پریشان دکھائی دے رہا ہے۔ لوکل باڈیز کا اصل قانون 113 صفحات پر مشتمل ہے جب کہ ترامیم 72 صفحات پر مشتمل ہیں۔ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021ء سے 2013ء کا لوکل گورنمنٹ سسٹم واپس آ جائے گا‘ جو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر منظور کرایا تھا۔ ان ترامیم سے 2019ء کے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل کر دیا گیا ہے اور آئین کے آرٹیکل 140 اے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ میرے خیال میں ان ترامیم سے بلدیاتی ادارے انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہوں گے کیونکہ ان ترامیم کی پشت پر قانون سے زیادہ انتظامی ہاتھ ہے۔
2019ء کے ایکٹ کے تحت بلدیاتی انتخابات ہوئے تو اختیارات تقسیم ہو جائیں گے اور ڈپٹی کمشنروں اور کمشنروں کے پاس لا محدود اختیارات جمع ہو جائیں گے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کے 72 صفحات کے ترمیمی آرڈیننس 2021ء میں 111 پیرے ہیں اور ہر ایک میں 15 سے 20 سب پیرے ہیں۔ نئی ترامیم میں یہ کہیں ذکر ہی نہیں کہ میئر کا الیکشن کیسے ہو گا؟ میئر کے نمائندے کتنے ہوں گے؟ ان کا انتخاب کیسے ہو گا؟ ان کے اختیارات کیا ہوں گے؟ نئی ترامیم 2021ء کے تحت 25 ہزار 238 ویلیج اینڈ نیبرہڈ کونسلیں ختم کر کے آٹھ ہزار کونسلز بنا دی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب حکومت کو حلقوں کی حتمی فہرست جمع کرانے کے لیے 18 مارچ 2021ء کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ اب نئی ترامیم کے بعد حکومت کون سے حلقوں کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گی یہ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی نہیں جانتے۔ گزشتہ روز دنیا نیوز کے سینئر اینکر پرسن‘ ممتاز صحافی کامران خان صاحب کے پروگرام میں انہیں انٹرویو دیتے ہوئے جب میں نے ان کو اصل حقائق سے آگاہ کیا تو انہوں نے بے ساختہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات نہ ہونے پر شک و شبہ کا اظہار کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کے مستقبل پر مایوسی کا اظہار کیا۔ میرا بھی یہی موقف تھا کہ بلدیاتی اداروں کا نظام ان دنوں خطرے کی زد میں ہے کیونکہ ترمیمی آرڈیننس کو الیکشن ایکٹ 2017ء کا حصہ بنانے کے لیے اس میں ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کروانی ہو گی۔
سیاسی استحکام کسی بھی ملک کی سماجی ترقی اور معاشی استحکام کی اولین ضرورت ہے لیکن پاکستان کے حالات پر معروضی نظر ڈالی جائے تو ملک اس وصف سے محروم دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی درجہ حرارت کافی اوپر چلا گیا ہے لیکن اسے نارمل سطح پر لانے کے لیے کسی طرف سے نہ تو کوئی قابلِ ذکر کوشش کی جا رہی ہے اور نہ ہی ایسی کسی کوشش کی کامیابی کے لیے حالات سازگار ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں پارلیمنٹ ایسا ادارہ ہے جو مختلف نقطہ ہائے نظر کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے مؤثر پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں اسے بروئے کار لانے کی کوئی کاوش نظر نہیں آتی۔ ان حالات میں ملکی معاملات اور مسائل پارلیمنٹ میں لائے جانے چاہئیں اور وزیر اعظم کو قائدِ ایوان کی حیثیت سے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپنی شرکت یقینی بنانی چاہیے۔ یہی معاشی‘ سیاسی‘ خارجی اور داخلی استحکام کا تقاضا ہے۔ قوم درست طور پر یہ سمجھتی ہے کہ ملک کو 70 سالوں کے سیاسی مغالطوں‘ جمہوری مبالغہ آرائی‘ منافقت‘ ریا کاری اور جمہوریت سے انحراف کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے؛ چنانچہ لازم ہے کہ اہلِ اقتدار سیاست میں اجتماعیت اور قومی مفاد کے پیش نظر کشیدگی اور محاذ آرائی سے گریز کریں اور کشادہ دلی سے جمہوری رویوں کے فروغ کی مثالیں قائم کریں۔
پنجاب میں حکومتی امور میں بہتری کے بجائے مسائل پیدا ہو چکے ہیں اور ریاست کی بد قسمتی ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری قومی احتساب بیورو کی زد میں ہیں۔ چند سال پیشتر بیوروکریٹ عبدالمالک غوری نے‘ جب وہ سندھ حکومت میں اہم پوزیشن پر تھے‘ نے وزیر اعلیٰ سندھ کے حکم پر ان کے خلاف انکوائری کی تھی اور رپورٹ وفاقی حکومت کو بھی پیش کی تھی۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری انتہائی ایمان دار‘ قابل اور سخت گیر بیوروکریٹ ہیں۔ ان کو چاہیے کہ عبدالمالک غوری‘ جو ان دنوں وزارت پارلیمانی امور کے وفاقی سیکرٹری ہیں‘ سے رپورٹ حاصل کر لیں۔ ریاست کے مفاد میں وہ آئین کے آرٹیکل پانچ کے تحت کارروائی کرنے کے مجاز ہیں اور قومی احتساب بیورو کی معاونت کے لیے عبدالمالک غوری کی رپورٹ ہی کافی ہے۔
قومی احتساب بیورو ایماندار بیوروکریٹس‘ تاجر برادری اور بزنس کمیونٹی کا دوست ہے‘ لہٰذا میرا مشورہ یہ ہے کہ کسی فردِ واحد کی ایما پر قومی احتساب بیورو کے اختیارات میں کمی ہرگز نہ کی جائے بلکہ اگر ممکن ہو سکے تو اس ادارے کے اختیارات میں مزید اضافہ کیا جائے۔ کابینہ میں شامل ایک صاحب‘ جو خود بھی قومی احتساب بیورو میں نامزد ملزم ہیں‘ اور کچھ سیاسی جماعتوں کی خواہش پر قومی احتساب بیورو کے اختیارات پر قدغن نہ لگائی جائے بلکہ ممکن ہو تو ایسا مطالبہ کرنے والوں کو ہی عہدوں سے الگ کر دیا جائے۔ ویسے بھی موجودہ وزیر خزانہ اکتوبر 2021ء تک ہی اپنے عہدے پر فائز رہ سکتے ہیں۔ میرے خیال میں سینیٹ میں اسحاق ڈار کو نا اہل قرار دے کر ان کے لیے جو نشست خالی کرنے کے خواب دکھائے جا رہے تھے وہ پورے ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ الیکشن کے 60 دن کے اندر حلف لینے کا بل منظور اس لیے نہیں ہو گا کہ سینیٹ میں یہ بل جب پیش ہو گا تو اس بل کو تکنیکی طور پر مسترد کر دیا جائے گا اور اسمبلی کا حلف نہ لینے پر میڈیکل رپورٹ کی بڑی اہمیت ہو گی۔ ان حالات میں قومی احتساب بیورو کے اختیارات میں کمی سے پاکستان میں رشوت کا گیٹ وے کھل جائے گا اور جنوبی افریقہ کی طرز پر ملک کشیدگی کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے احتیاط بے حد ضروری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved