تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     26-07-2021

ڈیفارمز کے ڈھیر

آئین اور ضابطے عوام کی سہولت اور مملکت کا نظام چلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں مگر جب قواعد و ضوابط کو اُلٹی تسبیح کی طرح پڑھنا شروع کر دیا جائے تو منظرنامہ ثواب کے بجائے عذاب بن جاتا ہے۔ کیا نظام حکومت اور سیاست دان ڈلیور کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں یا انہیں کام ہی نہیں کرنے دیا جا رہا؟ یہ سوال دن بدن اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان سوالات کی شدت اور تقویت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ ملک و قوم کو کسی نئے نظام کی طرف دھکیلنے کے اسباب پیدا کیے جا رہے ہیں یا آئین کو ریسٹ دینے کے حیلے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ یہ سبھی سوالات بلا جواز ہرگز نہیں۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ ان سبھی کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کی مجموعی کارکردگی پر بھی کئی کڑے سوالات کھڑے کیے جا رہے ہیں۔
ملک و قوم کے سرکاری خرچ پر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنے والے جمہوریت کے ہر چیمپئن کے تمام اخراجات قومی خزانے سے پورے ہوتے ہیں۔ اجلاس میں شرکت سے لے کر کھانے اور پینے تک‘ سفر کا خرچ اور جتنے دن بھی وہ قیام کریں سبھی اخراجات ملک و قوم کے خزانے سے پورے کیے جاتے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس کے بدلے انہوں نے عوام کو کیا دیا ہے؟ کسی بھی اجلاس کا منظرنامہ دیکھ کر اس کا جواب بخوبی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ماسوائے قانون سازی اور مفادِ عامہ کے وہ سب کچھ ہوتا ہے جسے دیکھ کر ہر پاکستانی جلتا‘ کڑھتا اور شرمسار بھی ہوتا ہے کہ کیا اسی لیے انہیں مینڈیٹ دے کر بھیجا گیا تھا۔ عوام کے نمائندے اپنے ذاتی مفادات اور استحقاق کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے اور آپس میں دست و گریباں ہونے کے علاوہ گالیوں اور لغو گوئی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مزے کی بات یہ کہ ان کے مشترکہ مفادات کو جہاں خطرہ لاحق ہو وہاں یہ سبھی آن کی آن میں اکٹھے اور یکجا نظر آتے ہیں۔ کیا حلیف کیا حریف باہمی مفادات کے جھنڈے تلے سبھی ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ سبھی منظرنامے اور عوامی نمائندوں کی کارکردگیاں کہیں سیاست دانوں کی ناکامی کا اشارہ تو نہیں؟ ان سبھی کو نا کام اور نا اہل قرار دے کر نجانے کون کون سے ماڈل پر بحث جاری ہے۔ ماضی میں سیاستدانوں کو شکایت رہی ہے کہ ان کا عرصۂ اقتدار پورا ہونے سے پہلے ہی انہیں گھر بھجوا دیا جاتا رہا ہے‘ اس لیے وہ اپنے ایجنڈے اور وعدے کے مطابق گورننس اور پالیسیاں وضع نہیں کر سکے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) یکے بعد دیگرے اقتدار کی تین تین باریاں لگا چکی ہیں۔ 2002ء سے 2018ء تک ان سیاستدانوں نے نہ صرف تین مرتبہ عرصۂ اقتدار کی مدت پوری کی بلکہ انہیں من مرضی اور من مانی کرنے کا بھی پورا موقع ملتا رہا۔ اس دوران عوامی مینڈیٹ کا جو حشر کیا گیا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہ ایک دوسرے کا ریکارڈ‘ ریکارڈ مدت میں ہی توڑتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی اپنے عرصۂ اقتدار کی نصف سے زائد مدت پوری کر کے کاؤنٹ ڈاؤن کی طرف رواں دواں ہے۔
اگرچہ ماضی میں رہنماؤں سے وابستہ امیدیں عام طور پر پوری نہیں ہوئیں‘ باوجود اس کے قوم کی امیدیں باقی ہیں اور دورِ حاضر میں بھی قوم اپنے اپنے لیڈروں کے کارناموں پر نازاں اور شاداں نظر آتی ہے حالانکہ ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسا لیڈر نہیں‘ جس کا دائو لگا ہو اور اس نے ہاتھ کی صفائی دکھانے کے لیے سبھی کچھ داؤ پہ نہ لگایا ہو۔ پورا ملک لُٹ گیا‘ اس کے وسائل اور دولت کو بے دردی سے بھنبھوڑا گیا‘ قانون اور ضابطے کو گھر کی باندی بنائے رکھا‘ اقربا پروری اور بندر بانٹ کو بے تحاشا فروغ دیا گیا‘ بیرونی قرضوں پر سیر سپاٹے اور موج مستی کو استحقاق سمجھا گیا‘ حلف اور آئین سے انحراف نصب العین بنا لیا گیا۔ ان تمام وارداتوں کے ذمہ داران ہیں کہ کچھ ماننے کو تیار ہی نہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر خود کو معصوم‘ بے گناہ اور دودھ کا دھلا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ملک شدید خرابی سے دوچار ہے لیکن تمام تر دعووں اور وعدوں کے باوجود حکومت کا کڑا احتساب اور سماجی انصاف دوربین سے بھی دکھائی نہیں دیتا۔
چوروں اور لٹیروں سے ریکوری تو درکنار سبھی احتساب کے بعد مزید چوڑے ہو کر اترائے پھرتے ہیں۔ کوئی سافٹ ویئر کی تبدیلی کے بعد تو کوئی بیانیوں میں سمجھوتہ کر کے سمجھداری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تعجب ہے ملکی خزانہ بھی صاف ہے اور سبھی لٹیروں کے دامن اور ہاتھ بھی صاف ہیں۔ حکومت کے احتسابی چیمپئنز نے احتساب کو ایسی بھول بھلیوں میں بھٹکا کر رکھ دیا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ وہ اپنی کارکردگی سے بے نیاز ہر خرابی کا ذمہ دار اپوزیشن کو ہی ٹھہراتے ہیں۔ حکومت کے مشیر احتساب جتنی محنت سابقہ حکمرانوں کی مخالفت اور ان کی طرزِ حکومت پر تنقید کے حوالے سے کر رہے ہیں اگر اتنی ہی توجہ اور محنت اپنے اصل کام پر کریں تو صورتحال یقینا مثبت اور بہتر ہو سکتی ہے۔ اکثر وزیر تو حیلے بہانوں سے سابقہ حکمرانوں کا ذکر کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اچھی خاصی محکمانہ میٹنگ یا بریفنگ کو سیاسی جلسہ بنا کر رکھ دیتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ ساری توانائیاں اور توجہ اصل مقصد اور ہدف سے ہٹ کر سیاست کی نذر ہو جاتی ہے۔ کیا مشیر کیا وزیر‘ سبھی کی کوئی محکمانہ بریفنگ اور کوئی میٹنگ ایسی نہیں جس میں انہوں نے سابق حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ اکثر میڈیا بریفنگز کے دوران سوال کارکردگی سے متعلق ہو تو چیمپئنز زور زبردستی سے وہاں بھی اپوزیشن کا ذکر لے آتے ہیں۔ اگر یہی توانائیاں اپنی کارکردگی اور گورننس پر صرف کریں تو بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ جن شعبوں میں تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے قبل بلند بانگ دعوے کیے تھے بد قسمتی سے ان تمام شعبوں میں بھی حکومتی کارکردگی تاحال نا معلوم ہے۔ پولیس ریفارمز کے دعوے دار اقتدار میں آ کر اس رنگ میں ایسے رنگے کہ کچھ نہ پوچھئے جبکہ اکثر شعبوں میں ریفارمز کے بجائے ڈیفارمز کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔
جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح فیصلے اور نتائج حکمران کی نیتوں اور ارادوں کا پتہ دیتے ہیں۔ بد قسمتی سے وطن عزیز کے سبھی حکمرانوں نے آئین سے قوانین تک‘ نیت سے معیشت تک‘بد انتظامی سے بد عنوانی تک‘ بد عہدی سے خود غرضی تک‘ وسائل کی بربادی سے ذخائر کی بندر بانٹ تک‘ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ذاتی خواہشات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں‘ غیر منصفانہ اور غیر منطقی فیصلوں کے اثرات ملک کے طول و عرض میں جابجا‘ ہر سو نظر آتے ہیں۔ ان کے اعمال کا شکار عوام ان کی نیتوں اور طر زِ حکمرانی کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہیں۔
یہ ساری باتیں سیاستدانوں کی ناکامی کے اشارے تو نہیں؟ سیاستدانوں کو ناکام اور نا اہل قرار دے کر کہیں کوئی چارج شیٹ تو نہیں آ رہی؟ کیا عوام سے طرزِ تغافل برتنے والے سیاست دانوں سے چھٹکارا طرزِ حکومت کی تبدیلی سے ہی ممکن ہے؟ چارج شیٹ آنے کو ہے یا عوام سے بد عہدیوں کا طویل عہد اپنے انجام کے قریب ہے؟ اس ملک کو مسائل اور عوام کو مصائب سے کوئی حکومت پانچ سالہ دورانیے میں چھٹکارا نہیں دلوا سکتی‘ اس کے لیے مقتدر حلقوں کو کم از کم 10سے 15 سال پر محیط ریلیف پلان لانا ہو گا۔ بلا لحاظ و تمیز اور مصلحت سے پاک ملک و قوم کے مفادات کے عین مطابق عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور رکاوٹ پیدا کرنے والے عناصر کو ملک و قوم کا دشمن ڈکلیئر کر کے ریاستی رٹ کو حرکت میں لانا ہو گا۔ تب کہیں جا کر ا س ملک و قوم کے دن پھر سکیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved