ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ہم سا بھی کوئی کم نصیب کیا ہوگا کہ جو مصیبت‘ کہیں بھی پیدا ہوتی ہے‘ وہ ہمیں ہی تلاش کرتی پھرتی ہے۔ ہر ناکام انسان یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کے تمام مسائل صرف اُس کی ذات سے جُڑے ہیں اور تمام پریشانیاں اُسی کے حصے میں لکھی گئی ہیں۔ یہی معاملہ ریاستوں کا بھی ہے۔ پسماندہ ریاستوں کے رہنے والے سمجھتے ہیں کہ مسائل صرف اُن کے لیے ہیں، باقی دنیا تو وسائل وسائل کھیل رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے! یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ مسائل اور الجھنیں سب کے نصیب میں لکھی گئی ہیں۔ کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لیا تو غیر معمولی ترقی یافتہ معاشرے بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ شمالی امریکا اور یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں میں بھی ایسی خرابیاں پھیلیں کہ دیکھنے والے لرز کر رہ گئے۔ یورپ میں اٹلی اور فرانس کی صورتِ حال زیادہ پریشان کن، بلکہ عبرت ناک رہی۔ ان دونوں ممالک میں معمر افراد کی ایک بڑی تعداد شدید کسمپرسی کی حالت میں کورونا وائرس کا شکار ہوکر لقمۂ اجل ہوئی۔ بہت سے اولڈ ہاؤسز میں معمر افراد ایسی حالت میں موت کا نوالہ بنے کہ ان کی دیکھ بھال پر مامور افراد انہیں چھوڑ کر بھاگ نکلے! اٹلی کا معاملہ زیادہ عبرت ناک تھا۔ وہاں معمر افراد کا حشر زیادہ بُرا ہوا۔ کورونا کی وبا جب پھیلی تب امریکا بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ دنیا بھر میں 19 کروڑ 30 لاکھ افراد اس وائرس کی زد میں آئے اور کم و بیش 41 لاکھ 30 ہزار اموات واقع ہوچکی ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے امریکا میں پنجے گاڑے تو دنیا کو یقین ہی نہ آیا کہ سپر پاور کو بھی انتہائی نوعیت کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکا بھر میں اب تک کورونا وائرس کی زد میں آنے والے افراد کی تعداد 3 کروڑ 43 لاکھ ہے اور 6 لاکھ 10 ہزار اموات واقع ہوچکی ہیں۔ امریکیوں کی اکثریت اس وبا کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ یہ تصور عام تھا کہ باقی دنیا میں تو کورونا کی وبا اپنی جلوہ نمائی خوب کرے گی مگر امریکی سرزمین پر اِسے قابو کرلیا جائے گا۔ جب یہ وبا بے قابو ہوئی تو امریکیوں کے ہوش اڑ گئے۔ ابتدا میں تو اُن کی سمجھ ہی میں کچھ نہ آیا کہ ہو کیا رہا ہے۔ اور جب تک ہوش بحال ہوئے تب تک پُلوں کے نیچے سے خاصا پانی بہہ چکا تھا۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی جب کورونا کی وبا نے بے قابو ہوکر انتہائی خطرناک شکل اختیار کی‘ تب باقی دنیا یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوئی کہ اگر دیگر پسماندہ معاشروں میں یہ وبا بے قابو ہوئی تو کیا ہوگا۔ امریکا میں صحتِ عامہ کا نظام بہت اچھی حالت میں ہے۔ ماہرین کی کمی بھی نہیں اور دواؤں کے علاوہ علاج کی سہولتیں بھی خوب ہیں۔ اس پر بھی وبا نے ناک میں دم کیا۔ ایسے میں وہ معاشرے سوچ سوچ کر زیادہ پریشان ہوئے جن میں صحتِ عامہ کا نظام انتہائی خستہ بلکہ قابلِ رحم حالت میں ہے۔
امریکا کے سرجن جنرل اور وائس ایڈمرل وویک مورتی نے حال ہی میں 22 صفحات پر مشتمل ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں انہوں نے پوری قوم سے اپیل کی ہے کہ کورونا وائرس سے متعلق غلط بیانی اور گمراہ کن باتوں سے متاثر ہونے کے بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔ وویک مورتی نے میڈیا کو بتایا ہے کہ امریکا بھر میں کورونا وائرس کے حوالے سے بہت سی بے بنیاد باتیں پھیلائی گئی ہیں جن کے باعث عام آدمی الجھ کر رہ گیا ہے۔ متوازی میڈیایا سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی بہت سی باتیں پھیلائی گئی ہیں جنہیں درست ماننے سے کورونا کے خلاف جنگ میں کامیابی انتہائی دشوار ہوتی جارہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا میں کورونا وائرس کے حوالے سے اتنی کہانیاں گردش کر رہی ہیں کہ عام آدمی کے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوچکا ہے کہ کس کی بات کو درست مانے اور کس کی بات کو غلط سمجھے۔ کورونا سے بچاؤ کے لیے وضع کیے جانے والے ایس او پیز پر خاطر خواہ حد تک عمل یقینی بنانا بھی انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ہر طبقے کے لوگ کورونا وائرس کے حوالے سے شش و پنج کی حالت میں ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی الجھن بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں ہائی ٹیک کمپنیز کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایک طرف ماہرین ہیں جو عوام کی رہنمائی کر رہے ہیں‘ دوسری طرف صحتِ عامہ کے شعبے سے وابستہ افسران ہیں جو غلط فہمیاں دور کرنے کی اپنی کوشش کر رہے ہیں۔ صحافیوں اور اساتذہ کو بھی میدان میں آنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میڈیا پورٹلز کو مثبت طریق سے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ایڈمرل مورتی کہتے ہیں کہ امریکا جیسے انتہائی ترقی یافتہ معاشرے میں بھی ایک وبائے عام سے متعلق غلط فہمیوں اور بے بنیاد تصورات کا پایا جانا انتہائی حیرت انگیز اور افسوسناک ہے۔ یہ چونکہ لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد کی زندگی کا معاملہ ہے اس لیے کسی بھی نوع کی کوتاہی یا غفلت برداشت نہیں کی جاسکتی۔ امریکی سرجن جنرل کو اس بات پر شدید حیرت ہے کہ خاصے وسیع پیمانے پر اموات کے واقع ہو جانے پر بھی لوگ کورونا کی وبا کے حوالے سے سنجیدہ ہونے سے گریزاں ہیں۔
بات کچھ یوں ہے کہ کورونا کی وبا کے حوالے سے ابتدا ہی سے بہت سی بے بنیاد باتیں اور تضادات پائے جاتے رہے ہیں۔ امریکا اور یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں میں بھی لوگ کورونا کی وبا کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں ہوئے تو سوچیے کہ پاکستان جیسے معاشروں میں لوگ اِسے سنجیدگی سے کیونکر لیتے۔ پاکستان میں اس وبا کے حوالے سے ابتدا ہی ہر سطح پر ابہام پایا جاتا ہے۔ حکومتی سطح پر ایسے بیانات سامنے آتے رہے جن میں صرف اور صرف تضادات کارفرما دکھائی دیے۔ حکومتی اقدامات میں جھول پایا جاتا رہا اور یہ کیفیت بہت حد تک اب بھی برقرار ہے۔ اگر یہ وبا واقعی اتنی خطرناک تھی جتنی بیان کی جاتی رہی ہے تو ابتدائی مرحلے ہی میں لاک ڈاؤن کے ذریعے اس کا پھیلاؤ روکنے کی بھرپور کوشش کی جانی چاہیے تھی۔ ایسا نہیں کیا گیا اور اس کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ ہمارے جیسے معاشروں میں اس وبا کو شک کی نظر سے دیکھنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ معاملہ یہ تھا کہ حکومتی سطح پر جو کچھ سوچا گیا اُس نے لوگوں کے دلوں کی زمین میں شک کے بیج بوئے۔ لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہوئے کہ کوئی بین الاقوامی ایجنڈا ہے جسے نافذ کیا جارہا ہے۔ بعد میں چند ایک معاملات نے اس حوالے سے شکوک کو مزید ہوا دی۔ بھارت میں کورونا کی وبا نے جتنی تباہی مچائی اُس سے کہیں زیادہ تباہی اپنے ہاتھوں پیدا کردہ خوف نے مچائی۔ تین ماہ قبل وہاں جو کچھ ہوا وہ دراصل شدید خوف اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدحواسی کا نتیجہ تھا۔ بھارت کا انجام دیکھ کر ہماری ہاں بھی خوف کی لہر پیدا ہوئی۔ سوچا جانے لگا کہ بھارت میں جب اتنے بڑے پیمانے پر اموات ہوئیں تو یہاں اِس وبا کے بے قابو ہو جانے کی صورت میں کیا ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت غلط فہمیاں دور کرنے پر توجہ دے اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرے۔ کورونا کی روک تھام کے نام پر اندھا دھند لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کا مورال بلند کرنے پر توجہ دی جائے۔ معیشت کا پہیہ روک دینے سے کہیں بڑھ کر اہمیت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں اس وبا کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا کی جائے اور اُنہیں یقین دلایا جائے کہ ایس او پیز پر پوری دیانت سے عمل یقینی بنانے کی صورت میں یہ وبا اُتنی تباہی کا سامان نہیں کر پائے گی جتنا سوچا جاتا رہا ہے۔ امریکا جیسے معاشرے میں جب بے بنیاد باتیں پھیلائی جاسکتی ہیں تو ذرا اندازہ لگائیے کہ ہمارے ہاں معاملات کو کس حد تک بگاڑا جاسکتا ہے۔ ہم کسی گنتی میں نہیں مگر موت کی گنتی سے نکلنے کی سعی ہم پر فرض ہے۔ زور اس نکتے پر ہونا چاہیے کہ معمول کی زندگی بسر کرتے ہوئے اس وبا سے کیسے نمٹا جائے۔