تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     27-07-2021

قصاص میں زندگی ہے

نور مقدم کا قتل‘ محض ایک بیٹی یا عورت کا قتل نہیں۔ یہ ایک جیتے جاگتے انسان کا قتل ہے۔ ایک انسان کا قتل‘ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ پوری انسانیت کا قتل ہے۔ کیا ہمارا معاشرہ اس جرم کے بارے میں اُتنا ہی حساس ہے‘ جتنا کہ اسے ہو نا چاہیے؟
قتل ایک فرد کے خلاف اقدام ہے۔ اسے جینے کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ یہ ایک خاندان کے خلاف جرم ہے جہاں مقتول یا مقتولہ کے اعزہ تاحیات ایک دکھ کے حوالے کر دیے گئے۔ یہ سماج پر حملہ ہے جسے عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ یہ عالم کے پروردگار کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے جس نے زندگی اور موت کو اپنے دائرہ اختیار میں رکھا اور قاتل نے اسے اپنے ہاتھ میں لینا چاہا۔ یہ بیک وقت خدا‘ سماج اور فرد کے خلاف جرم ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے باغیوں اور مجرموں کو اس دنیا میں سزا دیتا ہے یا آخرت میں‘ یہ اس کا اپنا اختیار ہے۔ انسانوں کو البتہ اس نے قصاص لینے کا حکم دیا ہے۔ جس طرح روزہ ایک فرد پر فرض ہے‘ اسی طرح قصاص معاشرے پر فرض ہے۔ روزے کی فرضیت کا اعلان ہوا توکہا گیا: کُتِبَ علیکم الصیام۔ قصاص کو فرض کیا تو فرمایا: کُتِبَ علیکم القصاص۔ جب الفاظ ایک جیسے ہیں تو حکم بھی یقیناً ایک جیسا ہو گا۔ جس طرح روزہ نہ رکھنے والا خدا کی نظر میں انفرادی حیثیت میں مجرم ہے‘ اسی طرح قصاص نہ لینے والا سماج بھی خدا کی نظر میں مجرم ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے مقتول کے وارثوں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ چاہیں تو قاتل کو معاف کر دیں۔ یہ ان کی آتشِ انتقام پر پانی ڈالنے کی ایک حکیمانہ تدبیر ہے۔ اس سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ قتل محض مقتول کے وارثوں اور قاتل کے مابین ایک قضیہ ہے۔ قرآن مجید جب قصاص کی ذمہ داری پورے نظمِ اجتماعی اور معاشرے پر ڈالتا ہے تو اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ قتل دو طرفہ نہیں‘ سہ طرفہ معاملہ ہے۔ مقتول کے وارث اگر معاف کر دیں تو قصاص کی فرضیت ختم ہو جاتی ہے لیکن اس کا جواز باقی رہتا ہے۔ نظمِ اجتماعی اگر سمجھتا ہے کہ جرم کی سنگینی متقاضی ہے کہ مجرم نشانِ عبرت بنے تو وہ قصاص لے سکتا ہے‘ اس کے باوجود کہ ورثا معاف کر دیں۔
قرآن مجید کے بے بدل عالم مولانا امین ا حسن اصلاحی نے نکات کی صورت میں بیان کیا ہے کہ قصاص کو اگر سماج کے لیے فرض قرار دیا گیا ہے توکیوں؟ ''ایک یہ کہ ہر حادثہ قتل پوری قوم میں ایک ہلچل پیدا کر دے۔ جب تک اس کا قصاص نہ لے لیا جا ئے‘ ہر شخص یہ محسوس کرے کہ وہ اس تحفظ سے محروم ہو گیا ہے جو اسے اب تک حاصل تھا۔ قانون ہی سب کا محافظ ہوتا ہے۔ اگر قانون ہدم ہو گیا تو صرف مقتول ہی قتل نہیں ہوا بلکہ ہر شخص قتل کی زد میں ہے۔ دوسری یہ کہ قاتل کا کھوج لگانا صرف مقتول کے وارثوں ہی کہ ذمہ داری نہیں ہے‘ بلکہ پوری جماعت کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے کہ قاتل نے صرف مقتول ہی کو قتل نہیں کیا بلکہ سب کو قتل کیا ہے۔
تیسری یہ کہ کوئی شخص اگر کسی کو خطرے میں دیکھے تو اس کو پرایا جھگڑا سمجھ کر نظر انداز کرنا‘ اُس کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ اس کی حفاظت و حمایت تابہ حدِ مقدور اس کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے کہ جو شخص کسی مظلوم کی حمایت و مدافعت میں سینہ سپر ہوتا ہے‘ وہ صرف مظلوم ہی کی حمایت میں سینہ سپر نہیں ہوتا بلکہ تمام خلق کی حمایت میں سینہ سپر ہوتا ہے جس میں وہ خود بھی شامل ہے۔
چوتھی یہ کہ اگر کوئی شخص کسی قتل کو چھپاتا ہے یا قاتل کے حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے یا قاتل کا ضامن بنتا ہے یا قاتل کو پناہ دیتا ہے یا قاتل کی دانستہ وکالت کرتا ہے یا دانستہ اس کو جرم سے بری کرتا ہے‘ وہ گویا خود اپنے اور اپنے باپ‘ بھائی‘بیٹے کے قاتل کے لیے یہ سب کچھ کرتا ہے کیونکہ ایک کا قاتل سب کا قاتل ہے۔ پانچویں یہ کہ کسی مقتول کے قصاص کے معاملے میں مقتول کے وارثوں یا حکام کی مدد کرنا بھی‘ درحقیقت مقتول کو زندگی بخشتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ قصاص میں زندگی ہے‘‘۔ (تدبرِ قرآن‘ جلد دوم‘ ص: 503)
ہمارے سماج میں جب شاہ زیب خان یا نور مقدم جیسے نوجوان بہیمانہ طریقے سے قتل ہوتے ہیں تو سماج انگڑائی لیتا ہے۔ پولیس‘ میڈیا‘ عوام‘ معلوم ہوتا ہے کہ سب قصاص کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ پھر خبر ملتی ہے کہ خاندانوں میں صلح ہو گئی اور قصاص کو ٹال دیا گیا۔ اس سے مایوسی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر مان لیا جاتا ہے کہ وارثین کے معاف کرنے کے بعد سماج کا حق یا ذمہ داری ختم ہو گئی۔
حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ قصاص کا حکم باقی رہتا ہے‘ اگر اجتماعی مصالح اس کا تقاضا کریں۔ استادِ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب نے قرآن مجید کے اس حکم کو عصری واقعات پر منطبق کرتے ہوئے لکھا: ''قرآن کو اس بات پر تو یقیناً اصرار ہے کہ وارثوں کی مرضی کے بغیر قاتل کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جا سکتی لیکن اس بات پر ہرگز اصرار نہیں کہ وہ نرمی برتنے پر تیار ہو جائیں تواسے چھوڑنا ضروری ہے۔ یہ فرق نہایت حکیمانہ ہے۔ دوسری بات پر اصرار کیا جائے تو معاشرے کا حق تلف ہوتا ہے اور وہی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے جس کا ہم ریمنڈ ڈیوس اورشاہ رخ جتوئی کے معاملے میں ماتم کر رہے ہیں اور پہلی بات پر اصرار نہ کیا جائے تو وارثوں کا حق تلف ہوتا ہے اور وہ حکمت باطل ہو جاتی ہے جو اس پورے قانون میں ملحوظ ہے کہ مقتول کے وارثوں کی آتشِ انتقام بجھا دی جائے‘ اُ ن کے زخم کا اس طرح اندمال کیا جائے کہ اگر وہ کوئی نرم رویہ اختیار کریں تو قاتل اور اس کے خاندان پر ان کا براہ راست احسان ہو جس سے نہایت مفید نتائج کی توقع ہو سکتی ہے‘‘۔ (مقامات‘ ص: 347)۔
نور مقدم کے معاملے میں لوگ ابھی سے ان خدشات میں گھر گئے ہیں کہ پولیس سے لے کر گواہوں تک‘ کوئی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرے گا۔ یا آخر میں پیسے کے زور پر مقتولہ کے وارثوں پر صلح مسلط کر دی جائے گی۔ یوں شاہ زیب کی طرح نور کا خون بھی رزقِ خاک ہو جائے گا۔ اللہ نہ کرے کہ اس بار ایسا ہو اور انسانی جان کی حرمت پھر پامال ہو۔
سماجی تنظیموں کا احتجاج خوش آئند ہے کہ لوگ مظلوم کے حق میں نکلے ہیں؛ تاہم اس میں دو باتوں کا لحاظ ضروری ہے۔ ایک تو اسے صنفی امتیازکا مسئلہ نہ بنایا جائے۔ یہاں ہر روز نہ جانے کتنے بے گناہ مرد مارے جاتے ہیں۔ سماج کو مرد عورت کے امتیاز میں پڑے بغیر‘ انسانی جان کی حرمت کے بارے میں حساس بنانا ضروری ہے۔ دوسرا یہ کہ قرآن مجید کے قانونِ قصاص کی حکمت کو سمجھا جائے۔ ایک طرف یہ لوگ سخت سزا کا مطالبہ کرتے ہیں اور دوسری طرف سزائے موت کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں۔ نور مقدم کے قتل جیسے حادثے ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ ہم خدا کے قانون میں چھپی حکمت کو سمجھیں اور یہ جانیں کہ قصاص میں کیسے سماج کی زندگی پنہاں ہے۔
ایک جواں سال بیٹی کا قتل‘ ہمارے معاشرے کی ایک بڑی تہذیبی پیچیدگی کو بھی نمایاں کر رہا ہے۔ ایک طرف ہم روایت کا دامن پکڑنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف جدید بھی بننا چاہتے ہیں۔کیا اس طرح کے واقعات اس نوعیت کے ذہنی کشمکش کا اظہار ہیں؟ اس سوال کو میں کسی دوسرے کالم کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved