تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     27-07-2021

وقت نہیں بچتا!

یہ اپنی اپنی قسمت ہے کوئی سونے کا چمچ لے کر اشرافیہ کے گھر پیدا ہوتا ہے تو کوئی سڑک کنارے جھونپڑی یا کھلے آسمان تلے آنکھ کھولتا ہے۔ سب کا اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے‘دنیا میں ہر شخص کو کچھ زیادہ اور کچھ کم ملتا ہے لیکن ایک چیز جو سب کو برابر ملتی ہے وہ ہے وقت۔ چاہے کوئی غریب ہو یا امیر‘ بادشاہ ہو یا گدا‘وقت سب کو ایک جیساملتا ہے۔دن کے چوبیس گھنٹے‘ ہفتے کے سات‘ مہینے کے تیس دن اور سال کے بارہ مہینے سب کو ایک جیسے ملتے ہیں۔ ان گھنٹوں‘ دنوں اور مہینوں کا بہترین استعمال ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اصل میں فاتح کون ہے‘ وہ بچہ جو غربت کی گود میں پیدا ہوا یا وہ جس نے ہیرے جواہرات کے بستر پر آنکھ کھولی۔
دنیا کا سب سے آسان کام وقت ضائع کرنا ہے۔ کاموں کو ٹالنا شروع کر دیں‘ آج کا کام کل اور کل کا پرسوں پر چھوڑ دیں‘ کاموں کا بوجھ خود ہی بڑھتا چلا جائے گا اور وقت ضائع ہونے کا احساس بھی نہیں ہو گا۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے لیکن چاہتے نہ چاہتے ان کے بہت سے کام صرف اس لئے رہ جاتے ہیں کہ ان کے پاس وقت کم تھا۔اگر تھوڑا وقت اور مل جاتا تو وہ اپنے کام مکمل کر لیتے۔آخر کیا وجہ ہے کہ ہم سب روزانہ صبح اٹھتے ہیں اور شا م تک بہت سی کوششوں کے باوجود ہمارے بہت سے کام رہ جاتے ہیں۔بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک ہی کام کرتے ہیں لیکن وہ بھی ٹھیک سے مکمل نہیں کرتے اور وقت کی کمی کا بہانہ کر دیتے ہیں۔یہ مسائل وقت کو ٹھیک طرح سے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں آپ کو جو کامیاب لوگ ملیں گے ان کے پاس بھی ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہی ہوتے ہیں لیکن وہ اس ایک دن میں درجنوں کام کر لیتے ہیں اس کے باوجود ان کے پاس دو تین گھنٹے بچ جاتے ہیں۔ آخر ایسا کیسے ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک کام کو ہی لے کر سارا دن مکمل نہ کر پائے‘ وہ نہ اپنی نمازوں اپنے دین کیلئے وقت نکال سکے‘نہ اپنی صحت کیلئے تیس چالیس منٹ الگ کر سکے‘ نہ اپنی بیوی بچوں کو ٹائم دے سکے اور اس کے مقابلے میں ایک ایسا شخص ہو جو بیک وقت دو تین قسم کے کاروبار بھی کر رہا ہو‘ اپنی ٹیم کو بھی دیکھ رہا ہو‘ ان کی کارکردگی پر بھی اس کی نظر ہو‘ جو نمازوں کیلئے بھی وقت نکالتا ہو‘جو روزانہ آدھا گھنٹہ جوگنگ یا واک بھی کرتا ہو اور جو شام کو کچھ وقت اپنے بچوں‘ فیملی اور دوستوں کے ساتھ بھی گزارتا ہو۔ ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلا شخص ٹائم مینجمنٹ کی ابجد سے واقف نہیں جبکہ دوسرا شخص ٹائم مینجمنٹ کے تحت اپنا ہر قدم اٹھاتا ہے۔
ٹائم مینجمنٹ سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ایمرجنسی‘ ضروری‘ کم اہم اور غیر ضروری کاموں کی درجہ بندی کو سمجھا جائے۔ کاموں کی ان اقسام کو سمجھے بغیرٹائم مینجمنٹ پر عمل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص ہے جو کسی دفتر میں جاب کرتا ہے فرض کریں اس کا پاسپورٹ گم جاتا ہے لیکن اس نے فوری سفر پر نہیں جانا تو اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ دفتر سے فوری چھٹی لے کر سارا دن پاسپورٹ بنواتا پھرے بلکہ وہ بعد میں بھی جا سکتا ہے یا کسی ایسے دن جب کام کم ہو اور کام کا حرج نہ ہو۔ فوری پاسپورٹ بنوانا ایمرجنسی نہیں۔ اسی طرح اگر اس کے بچے سیر و تفریح کیلئے ضد کرتے ہیں تو یہ ضروری تو ہے لیکن ایمرجنسی نہیں۔ اس کیلئے فوری پہاڑی علاقوں کی طرف بھاگنے کی ضروری نہیں۔ اسی طرح بہت سے کام ضروری ہوتے ہیں مثلاً اگر موبائل فون کی سکرین کا پروٹیکٹر خراب ہو گیا ہے تو اسے پہلی فرصت میں تبدیل کروا لینا چاہیے‘ یہ ضروری بھی ہے اور ایک طرح کا ایمرجنسی کام بھی کیونکہ گلاس پروٹیکٹر نہ لگا ہو تو موبائل کی سکرین ذرا سا گرنے سے ٹوٹ سکتی ہے؛ تاہم اگر موبائل فون کا کور تبدیل کر کے اسے خوشنما بنانے کا پروگرام بن جائے تو یہ کم اہم کام شمار ہو گا‘ نہ ہی یہ ایمرجنسی ہے اور نہ ہی ضروری۔اسی طرح بہت سے کام غیر ضروری ہوتے ہیں مثلاً ایک بندے کے پاس آٹھ سو سی سی کی گاڑی ہے لیکن وہ پانچ چھ کروڑ کی گاڑی کے خواب دیکھتا ہے‘آئے روز قیمتی گاڑیوں کے شو رومز پہنچ جاتا ہے اور ایسی گاڑیوں میں بیٹھ کر اور دیکھ کر واپس آ جاتا ہے۔ اچھی گاڑی اس کا خواب ہے لیکن اس خواب کیلئے بہت زیادہ محنت درکار ہے نہ کہ گاڑیوں کو بار بار جا کر دیکھنا۔
ٹائم مینجمنٹ شارٹ ٹرم بھی ہوسکتی ہے اور لانگ ٹرم بھی؛ یعنی آپ روزانہ‘ ہفتہ وار یا ایک سال کی پلاننگ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اگلے پانچ یا دس سال کی پلاننگ بھی کر لیتے ہیں مثلاً یہ کہ دس برس بعد میرے بچے بڑے ہوں گے تو انہیں فلاں کالج میں داخلہ لینا ہو گا‘ گھر میں کمرے کم ہیں تو بڑا گھر لینا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔اس کیلئے آپ محنت بھی اسی انداز میں کریں گے۔ مختلف جگہوں پر پیسے لگائیں گے۔ بچت کریں گے۔ نئے ہنر سیکھیں گے اور نوکری کے ساتھ پارٹ ٹائم کوئی کاروبار بھی کرنے کی کوشش کریں گے۔ جیسے جیسے آپ اپنے کاموں کی ترجیحات سیٹ کرتے جائیں گے آپ کا وقت خودبخود آپ کے کنٹرول میں آتا جائے گا اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ آپ نوکری اور کاروبار کے ساتھ ساتھ کئی اور کام بھی کر رہے ہوں گے اور آپ کے پاس روزانہ ایک دو گھنٹے بچ جائیں گے جنہیں آپ اپنی صحت اور اپنی فیملی اور دوستوں کیلئے مختص کر سکیں گے۔ کچھ دوست ملٹی ٹاسکنگ سے گھبراتے ہیں لیکن آج کے دور میں ٹیکنالوجی اور موبائل ایپس کی وجہ سے یہ بہت آسان ہو چکا ہے۔ بہت سی ایسی موبائل ایپس آ چکی ہیں جن سے آپ انتہائی معقول معاوضے میں بہت سی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ فرض کریں آپ گھر سے کھانا دفتر لے جانا بھول گئے ہیں تو آپ کو دوبارہ گھر جانے کی ضرورت نہیں‘ آپ موبائل ایپ سے بائیک رائیڈر کو ہائر کریں گے جو آپ کو اگلے بیس تیس منٹ میں کھانا پہنچا دے گا۔ گھر میں ایئرکنڈیشنر خراب ہو گیا ہے یا باتھ روم کا شاور کام نہیں کر رہا تو اب آپ کو بازار جا کر دکانوں سے مستری ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں‘ یہ سارا وقت آپ تھوڑی سی عقل استعمال کر کے بچا سکتے ہیں۔ موبائل ایپ ڈائون لوڈ کریں‘ اپنا مسئلہ لکھیں تصاویر لگائیں‘ چند منٹ میں الیکٹریشن اور پلمبر آپ کے گھر آ جائیں گے اور یوں آپ کا بہت سارا وقت بچ جائے گا۔ اب تو بکرمنڈی ایپس بھی آ چکی ہیں اور جانور تک گھر بیٹھے خرید ے جا سکتے ہیں۔ گزشتہ عید پر بھی شہریوں نے کروڑوں کے جانور گھر بیٹھے خریدے یوں ان کا وقت بھی بچا‘ منڈی جانے اور جانور ڈھونڈنے کی سردردی اور خواری سے بھی محفوظ رہے۔ جن لوگوں کو یہ گلہ رہتا ہے کہ ان کے پاس وقت نہیں بچتا تو انہیں چاہیے کہ وہ ایک سے زیادہ کام کرنا شروع کر دیں‘ ان کے پاس خود ہی وقت نکل آئے گا۔ ایسے لوگ دراصل ایک کام کرتے ہیں اور بوجھ سمجھ کر کرتے ہیں۔ اسے اتنا طویل کر دیتے ہیں کہ وقت ختم ہو جاتا ہے مگر کام ادھورا رہتا ہے یوں ان کی باقی زندگی شکوہ کرتے گزر جاتی ہے۔ایک سے زیادہ کام کریں گے تو ایک کام ختم کر کے دوسرے کام کو مکمل کرنے کی فکر ہو گی؛ چنانچہ اچھی زندگی گزارنی ہے تو ترجیحات کو ازسرنو ترتیب دیں‘کاموں کی درجہ بندی کریں اور جہاں ممکن ہو موبائل ایپس کی مدد لیں‘ آپ کے پاس وقت بھی نکل آئے گا‘ کام بھی مکمل ہو جائیں گے اور آپ ایسے شکووں اور بہانوں سے بھی محفوظ ہو جائیں گے کہ آپ کے پاس وقت نہیں بچتا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved